ایک بہت بڑے پاکستانی اور نظریہ پاکستان کے سب سے متحرک رکھوالے جناب مجید نظامی نے آخری سانس تک پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو متحد کرنے کی کوششیں کیں۔ ہمارے سیاست دان اگر ضد ی نہ ہوتے تو مرحوم کی مخلصانہ کوششیں یقینا رنگ لاتیںلیکن بدقسمتی سے اپنی انا کے خول میں بند کچھ لیڈر مجید نظامی کے خلوص کا درست ادراک نہ کر سکے اور یوں وہ قیمتی مواقع ضائع ہو گئے جب ایک متحدہ مسلم لیگ حقیقت کا روپ دھارتی نظر آ نے لگی تھی۔ اس دور میں غالباً سب سے سنہری موقع وہ تھا جب چوہدری شجاعت حسین کی والدہ کے انتقال پر میاں برادران تعزیت کیلئے انکے گھر گئے تھے۔ خیر، بہت سے قیمتی مواقع ضائع ہوگئے اور مسلم لیگ آج بھی مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ متحدہ مسلم لیگ ایک خواب رہے گا یا حقیقت بنے گی، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ملنا اتنا آسان نہیں ہے۔آل انڈیا مسلم لیگ بھی طاقتور اسی وقت ہوئی تھی جب 1930 کے بعدعلامہ اقبال اور دوسرے سینئر اکابرین کی کوششوں سے مسلم لیگ کے تمام دھڑے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں متحد ہو گئے تھے۔پچھلے چند سالوں کے دوران اگرچہ مسلم لیگ کے اتحاد کی کوششیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن اب اس میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے ۔ اس ہفتے قائد اعظم مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ پیر صاحب پگاڑا دونوں آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پرویز مشرف کے گھر گئے اور اس ملاقات کا بنیادی ایجنڈا متحدہ مسلم لیگ کا قیام تھا۔ یہ گذشتہ دو تین سالوں کے دوران مسلم لیگوں کے اتحاد کی سب سے سنجیدہ کوشش تھی جس میں مسلم لیگ کے بعض دوسرے دھڑوں کو بھی مدعو کیا تھا لیکن فی الحال وہ نہیں آئے۔اس موقع پر چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ یہ کوششیں متحدہ مسلم لیگ کے قیام کیلئے ہو رہی ہیں حکومت کو گرانے کیلئے نہیںاور اس سے ریاست اور جمہوریت دونوں مضبوط ہونگی۔ چوہدری شجاعت حسین ایک وضع دار سیاستدان ہیں اور نوابزادہ نصراللہ خان کے اس دنیا سے جانے کے بعد پاکستان میں اگر کوئی سیاست دان بڑا سیاسی اتحاد بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ چوہدری شجاعت حسین ہی ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ اگر یہ تینوں مسلم لیگیں ایک دوسرے کے قریب آ گئیں تو مسلم لیگ کے کچھ اور دھڑے بھی انکے ساتھ مل جائیں اور متحدہ مسلم لیگ کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے۔
پاکستان کی سیاست میں تیزی سے جو خلا پیدا ہو رہا ہے اسے پر کرنے کیلئے سیاست دان منگولیا یا برونائی سے نہیں آئینگے اور نہ ہی یوگنڈا یا ارجنٹائن سے، اسے پاکستان کے سیاستدان اور لوگ ہی پر کرینگے۔اگر قومی سطح پر سرگرم تین بڑی پارٹیوں یعنی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور تحریکِ انصاف کو یہ سادہ قانونِ قدرت سمجھ آ جائے تو شائد یہ اپنے ہاتھوں سے تیزی سے سرکتی ہوئی ریت کو روک لیں لیکن اگر انکے رویوں اور سوچ میں تبدیلی نہ آئے تو پھر انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ قانونِ قدرت اٹل ہوتا ہے ۔جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو لگتا ہے وہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے۔ آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے گورباچوف ثابت ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا اثاثہ دیہی سندھ کے وہ وڈیرے ہیں جو بہر حال ابھی تک اپنے اپنے حلقوں میں الیکٹبلز ہیں۔ جب کوئی بحری جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے اس سے چھلانگ لگاتے ہیں۔ اگر مفاہمت کے نام پر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی نس بندی اسی طرح جاری رکھی تو وہ دن دور نہیں جس دن اسکے الیکٹبلز سب سے پہلے پارٹی سے چھلانگ لگائینگے۔ مسلم لیگ نواز اس وقت ملک کی حکمران جماعت ہے جس کی سیاسی طاقت کا منبع وسطی پنجاب ہے۔ سندھ، جنوبی پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں اس کا وجود قدرے محدود ہے۔ سندھ میں انکے بعض لیڈر یا اتحادی جیسے لیاقت جتوئی اور ممتاز بھٹو نون لیگ سے اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں جبکہ سندھ میں غوث علی شاہ اور جنوبی پنجاب میں سردار ذوالفقار کھوسہ بدستور اپنی پارٹی سے ناراض ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ اعتراض نون لیگ کو ایک فیملی اینٹرپرائز کی طرح چلانے پر ہے۔ صرف ان دونوں کو ہی نہیں بلکہ نون لیگ کے راہنمائوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر خوش نہیں ہے لیکن ابھی تک خاموش ہے۔ خاموشی کی وجہ سے اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ میاں نواز شریف اگر بروقت اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے تو آگے چل کر و ہ نون لیگ کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ پارٹی کو فیملی ایمپائر کی طرح چلانے سے پارٹی میں بے چینی کا بڑھنا ایک لازمی امر ہے۔ ماضیِ قریب میں سب سے مایوس کن کارکردگی تحریکِ انصاف کی رہی ہے جس نے یکے بعد دیگرے اتنی غلطیاں کی ہیں کہ ان کا سیاسی کینوس سکڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔ عمران خان کو اگرچہ بہت زیادہ پرجوش اور جذباتی نوجوان سپورٹرز کی حمایت حاصل ہے لیکن ان کا ذہن سیاسی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو دو قدم پیچھے پھسل جاتے ہیں۔ ایک سیاسی خود کش بمبار ہی اتنی بڑی پبلک سپورٹ کے پرخچے اڑا سکتا ہے۔
سندھ اور جنوبی پنجاب کا سیاسی خلا بہت اہم ہے۔ پہلے یہاں پیپلز پارٹی بہت مضبوط ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ ان علاقوں میں بھی منظر سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔ اگلے الیکشن میں وہی پارٹی حکومت بنائے گی جو اس نئی خالی کردہ جگہ سے سیٹیں لے گی۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف یہاں پر پیش قدمی کرتے نظر نہیں آتے۔ سندھ کے وڈیرے الیکٹبلزاور چھوٹے لیکن اہم گروپ پیپلز پارٹی کے آئوٹ ہونے کے بعد زیادہ اہم ہو جائینگے۔ سندھ میں ارباب غلام رحیم، ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی، فنکشنل مسلم لیگ، این پی پی، شیرازی برداران اور پیپلز پارٹی کو چھوڑنے والے لوگ، یہ سب مل کر سندھ سے فیصلہ کن برتری حاصل کر سکتے ہیں اور متحدہ مسلم لیگ ان کیلئے سب سے اچھا پلیٹ فارم ہو گا۔ نون لیگ سے اسمبلی ممبران کی ایک بڑی تعداد بھی متحدہ مسلم لیگ میں شامل ہونے کی خواش مند ہوگی کیونکہ شریف خاندان کے علاوہ اس پارٹی میں کسی کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
ان حالات میں چوہدری شجاعت حسین ، پرویز مشرف اور پیر صاحب پگاڑا کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دوسرے ہم خیالوں کیساتھ مل کر وہ مسلم لیگ کو متحد کر سکتے ہیں اور اتنے بڑے سیاسی خلا کو پورا کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی سندھ اور بلوچستان میں سیاسی خلاوہاں کے قوم پرست پورا کریں اور ملک انتشار کی طرف جائے اس سے تو بہت بہتر ہو گا کہ ایک قومی جماعت یہ خلا پورا کرے۔ میری اب بھی خواہش ہے کہ پیپلز پارٹی بائونس بیک کرے لیکن اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو پھر متحدہ مسلم لیگ ہی پاکستان کے چاروں صوبوں کو متحد رکھنے میں اہم ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ متحدہ مسلم لیگ کا خواب حقیقت بنتا ہے یا نہیں۔ آثار بھی موجود ہیں اور حالات بھی موافق ہیں، صرف لیڈرانِ کرام کو اپنی اپنی ذاتی انا کے خول سے باہر نکلنا ہو گا۔ جناب مجید نظامی اپنے آخری سانس تک مسلم لیگ کو متحد کرنے کی کوشش کرتے رہے، اگر اب بھی ایسا ہو گیا تو یہ ملک کیلئے انتہائی نیک شگون ثابت ہو گا اور ہم سیاسی طور پر آگے چلنے کے قابل ہو سکیں گے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024