آجکل ایگزیکٹ کمپنی کے آن لائن جعلی ڈگریوں کے سکینڈل نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے نمائندے ڈیکلن واش کا کہنا ہے کہ انہوں نے جعلی ڈگریوں کے متعلق جو رپورٹ طشت ازبام کی ہے وہ حقائق پر مبنی ہے اور انہیں یہ حقائق کمپنی کے سابق ملازمین سے حاصل ہوئے ہیں اور وہ عدالت میں اپنی رپورٹ کے مکمل دفاع کیلئے تیار ہیں۔ یوں تو پاکستان جعلسازی کے طلسم ہوشربا دنیا ہے جہاں ہر طرح کا فراڈ اور دھوکے بازی کے مظاہر صبح و شام ملتے ہیں۔ کسی بھی موقر جریدے میں کسی شخص کو اپنے متعلق یا اپنی کسی کارکردگی یا تعلیمی کامیابی کے متعلق خبر چھپوانی ہو تو اخبار کا ایڈیٹر اس سے اسکا نوٹیفکیشن بطور ثبوت طلب کرتا ہے یا وہ خبر کے مستند ہونے کو اپنے رپورٹر کے حوالے سے شائع کرتا ہے مگر انہی اخبارات میں روزانہ جعلی حکیموں، سنیاسی بابوں اور نام نہاد تعلیمی اداروں کے اشتہارات شائع ہوتے ہیں کہ آن لائن ڈگری کے حصول کیلئے رابطہ کریں۔ چند ہفتوں میں حکمت، ہومیوپیتھک کی ڈگری حاصل کر لیں۔ تین ماہ میں ایم اے ایم ایڈ، بی ایڈ رجسٹرڈ یونیورسٹیوں سے کرنے کیلئے ہمارے ٹیوشن سنٹر میں داخلہ لیں۔
پاکستان میں جعلی تعلیمی ڈگریوں کا دھندہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ آج سے چار دہائی پہلے فیصل آباد میں ایک شخص کا نام تھا اقبال بلڑ اور وہ سرعام جعلی ڈگریاں فروخت کرتا تھا مگر جب بھی وہ پکڑا جاتا تو وہ بڑی آسانی سے پولیس اور عدالت سے بے گناہ قرار پا جاتا۔ جب اسکے دوستوں نے اس سے پوچھا کہ تم پکڑے کیوں نہیں جاتے تو اسکا جواب بڑا دلچسپ تھا کہ مجھے کون پکڑ سکتا ہے کیونکہ شاید ہی کوئی ایسا جج، پولیس افسر یا انتظامی افسر ہو جس کے پاس ’’بلڑ یونیورسٹی‘‘ کی ڈگری نہ ہو۔
1980ء کی دہائی میں پاکستان میں غیرملکی یونیورسٹیوں کے ناموں سے مشابہت کے ساتھ کئی یونیورسٹیاں اور ادارے کھل گئے اور وہ ان لوگوں کو بھی ایم بی اے کروا دیتے تھے جو ایف اے یا بی اے یا بی کام نہ ہوتے تھے۔ چند ہی سالوں میں ایسے نام نہاد اداروں نے کروڑوں روپے غیرملکی یونیورسٹیوں کے ناموں سے مماثلت اور انکے سرٹیفکیٹس کی طرز پر جعلی ڈگریاں جاری کر کے کمائے۔ اس دور میں ایچ ای سی کی جگہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ہوتا تھا اور کوئی بھی شخص اس چیز کا پابند نہیں تھا کہ وہ یو جی سی سے اپنی ڈگری کی تصدیق کروائے۔ آج اس طرح کی یونیورسٹیاں حکومت سے اپنے آپکو ریگولرائز کروا چکی ہیں اور وہ بھی اب بغیر پڑھے محض انرولمنٹ پر فیس کی ادائیگی پر ڈگری کا عرصہ مکمل ہونے پر طالبعلم کو مستند ڈگری جاری کر دیتی ہیں۔
اسلام آباد میں ایسی ہی ایک یونیورسٹی جو راولپنڈی میں 10 مرلے کی بلڈنگ میں ایک نیم خواندہ شخص نے قائم کی تھی آج اس کا نیٹ ورک اندرون اور بیرون ملک میں وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ غیرملکی سفیروں اور اعلیٰ انتظامیہ اور بیوروکریسی کے سینکڑوں افسروں کے پاس اس یونیورسٹی کی ڈگریاں ہیں، دلچسپی کی بات ہے میرے کالج کے بہت سارے طالب علموں سے بورڈ اور یونیورسٹی سے انٹرمیڈیٹ اور گریجوایشن پاس نہیں ہونی تھی مگر وہ ان یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ اور ایم بی اے۔ ایم ایس کی ڈگریاں حاصل کر کے پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اسی طرح اسی کی دہائی میں آزاد کشمیر میں قائم ہونیوالی ایک یونیورسٹی نے پورے پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے مکانوں اور پلازوں میں یونیورسٹی کے سب کیمپس قائم کر دیئے اور لاکھوں لوگوں کو گورنمنٹ سے منظور شدہ یونیورسٹی کی ڈگریاں جاری کر کے کروڑوں روپے کمائے۔ اس یونیورسٹی کے مالک کے صدر آزاد کشمیر سے خصوصی تعلقات تھے جس کی بنا پر اس کو اس وقت کے صدر آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نے بڑی فراخدلی سے چارٹر دے دیا۔ آج بھی اس طرح کی کئی یونیورسٹیوں کے سب کیمپس ہر گلی محلے میں کھلے ہوئے ہیں جو سرعام اشتہاروں میں دعویٰ کرتے ہیں کہ HEC سے منظور شدہ ڈگری حاصل کریں مگر مجال ہے کہ ہماری ایچ ای سی ان اداروں کا چارٹر کینسل کرے جو ایچ ای سی کے قواعد و ضوابط پورے کر کے کسی ایک صوبے یا وفاق میں تو یونیورسٹی قائم کر لیتے ہیں مگر پھر وہ کس اصول کے تحت اسکے فرنچائز ہر جگہ پھیلا دیتے ہیں۔
اسی طرح نویّ کی دہائی میں پاکستان میں فلپائن اور مغربی ممالک کی غیرمستند یونیورسٹیوں اور اداروں کے سب کیمپس بنائے گئے اور ان یونیورسٹیوں کی ڈگریاں جب طالب علم حاصل کر چکے تو بعد میں پتہ چلا کہ حکومتی ادارے ان کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کی نامور یونیورسٹیاں اور مستند پرائیویٹ اور پبلک ادارے بیوروکریٹس اور بااثر سیاستدان اور فوجی افسروں کو محض انرولمنٹ پر وقت پورا ہونے کے بعد ڈگری جاری کر دیتے ہیں اور ایسی ڈگریاں ہر حال میں اصلی ہوتی ہیں مگر ان طاقتور اشرافیہ کو کہیں کوئی امتحان نہیں دینا پڑتا ہے اور نہ ہی یہ صاحبان کبھی یونیورسٹی تشریف لاتے ہیں اور اکثر تو اس کیلئے کوالیفائی ہی نہیں کرتے ہیں، اسکی دو مثالیں دینا ضرور پسند کروں گا۔
2007ء میں میں نے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ایم ایس لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی انٹرنیشنل ریلیشنز میں داخلہ حاصل کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آئی جی اسلام آباد بھی میرے کلاس فیلو ہیں۔ پہلے تو مجھے اس بات پر حیرانی ہوئی کہ وہ تو سائنسز میں غالباً کیمسٹری یا بیالوجی میں ایم ایس سی ہیں، انہیں کس بنا پر آئی آر میں داخلہ دے دیا گیا ہے اور وہ بھی ڈائریکٹ پی ایچ ڈی میں اور آئی جی ہونے کے ناطے انہیں ایم فل بھی نہیں کرنا ہے جبکہ ہمیں کلاسز بھی پڑھنی ہیں اور سمسٹر کی حاضری کے ساتھ ٹیسٹ بھی دینا ہیں۔ اس پر مستزاد بطور سرکاری ملازم ہونے کے ناطے ا نکے تمام واجبات بھی معاف کر دیئے گئے۔ اس بات کی انکوائری کبھی کسی تحقیقاتی صحافی نے بھی نہ کی کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کیسے کوئی سرکاری ملازم یونیورسٹی کے ریگولر کورس میں داخلہ لے سکتا ہے۔ پھر آئی جی اسلام آباد اقوام متحدہ میں پوسٹنگ کیلئے صومالیہ چلے گئے۔ پھر اچانک ایک دن مجھے میرے چیئرمین ڈاکٹر نذر الاسلام نے دکھایا کہ یہ ہے سابق آئی جی کا تھیسز اور ان کو ہم نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری جاری کر دی ہے۔
بابر اعوان صاحب اور عامر لیاقت علی تو بچارے ویسے ہی بدنام ہیں، انہیں کسی نے کیوں نہیں بتایا کہ جب وہ حکومت کے اندر اعلیٰ عہدوں پر براجمان تھے تو وہ بھی کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں اپنی انرولمنٹ کرواتے تو انہیں بھی مقررہ وقت گزرنے پر ڈگری مل جاتی۔ اب رہی بات کہ ان ڈگریوں کے تھیسز میں زیادہ سرقہ بازی ہوتی ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے، فیڈرل بورڈ کی ایک سابقہ چیئرپرسن پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انہوں نے ایران کی کسی یونیورسٹی سے جو ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی اس میں چربہ سازی پائی گئی ہے تو کیا ہوا وہ آج بھی ایچ ای سی میں بطور ڈائریکٹر کام کر رہی ہیں۔ کس کی جرأت ہے کہ انکی ڈگری منسوخ کرے۔ ایچ ای سی کے انداز بھی نرالے ہیں ایک نامور صحافی کے داماد کی جینوئن ڈگری جو انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی سے بڑی محنت اور عرق ریزی سے حاصل کی تھی اس کو یہ کہہ کر تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ قائداعظم یونیورسٹی نے اسکی ویریفکیشن دو ترقی یافتہ ممالک کے ایکسٹرنل سپروائزر سے نہیں کروائی ہے۔ اب طالب علم کو کیا پتہ کہ یونیورسٹی نے اس کا تھیسز کس سے تصدیق کروایا ہے۔ اسی طرح پبلک سیکٹر اور کئی میڈیکل کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کو یہ ہی نہیں پتہ کہ اگرچہ انکی پروفیشنل ڈگری اصلی ہے مگر انکے ادارے کا متعلقہ انجینئرنگ کونسل، میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل فارمیسی کونسل، پاکستان بار کونسل سے منظوری نہیں ہے تو پھر کیسے یونیورسٹیاں یہ کورس شروع کراتی ہیں۔پاکستان میں سائبر کرائم کا کوئی قانون ہی نہیں بن سکا ہے لہٰذا کورٹ میں اس جرم کی سزا کیسے متعین ہو گی۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ اسلم رئیسانی سچ کہتے تھے… ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا نقلی، اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024