1965ءکی پاک بھارت جنگ کے موقع پر بھی تعمیراتی کام رُکا رہا۔ مینارِ پاکستان اسی جگہ بنایا گیا ہے جہاں 23مارچ 1940ءکی قرارداد کے وقت اسٹیج بنایا گیا تھا۔ اس جگہ کی نشاندہی میاں امیرالدین نے کی تھی۔ 96فٹ 6انچ اُونچا یہ مینار 31اکتوبر 1968ء/ 8شعبان 1388ھ کو مکمل ہوا۔ اس پر 75لاکھ روپے (بشمول جملہ مصارف اور باغِ دشت) صرف ہوئے۔
مینار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا بیشتر سامان پاکستانی ہے۔ سنگِ سُرخ اور سنگِ مرمر ضلع ہزارہ اور سوات سے حاصل کیا گیا ہے۔ مینار 180فٹ لوہے اور کنکریٹ سے بنا ہے۔ اس کی 5گیلریاں اور 20منزلیں ہیں۔ پہلی گیلری 30فٹ کی اُونچائی پر ہے۔ مینار پر جانے کے لےے 334 سیڑھیاں ہیں جبکہ یہاں لفٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ تعمیراتی سامان بھی اس انداز میں استعمال کیا گیا ہے کہ یہ بذاتِ خود جدوجہد آزادی کی داستان بیان کرتا ہے۔ اس کے ابتدائی چبوترے کی تعمیر کھردرے پتھروں سے کی گئی ہے جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان کس طرح بے سروسامانی کے عالم میں کٹھن مراحل طے کر کے حاصل کیا گیا تھا۔ اس سے اگلے چبوترے کی تعمیر پر قدرے ملائم پتھر استعمال کیا گیا جس سے مسلمانوں کی حالت میں بہتری کی عکاسی ہوتی ہے۔ یوں جوں جوں بلندی کی طرف جائیں ملائمت میں اضافہ ملے گا جو اس امر کی نشاندہی ہے کہ پاکستان بتدریج ترقی کی طرف رواں دواں ہے جبکہ مینار کے آخری سِرے پر چمکنے والا گُنبد اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان عالمِ اسلام میں خوب روشن مقام رکھتا ہے۔
مینار کے پہلے حصے میں جو برآمدوں والے گول ہال کی شکل میں ہے، یہاں 7-7فٹ لمبی اور 2-2 فٹ چوڑی سنگِ مرمر کی سلوں پر ”خطِ نسخ“ میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسماءمبارک، قرآن حکیم کی سورة آل عمران (رکوع11، 14، 17) اس کے علاوہ یہاں سورة المائدہ (رکوع 10)، سورة الرعد اور سورة البقرہ (رکوع 23) رقم ہیں۔قرارداد لاہور کا مکمل متن (اُردو، انگریزی، بنگالی زبانوں میں)، علامہ اقبالؒ کے اشعار، قرارداد دہلی (9اپریل 1946ئ) اور ارشاداتِ قائداعظمؒ کندہ ہیں۔ ایک سِل پر علامہ اقبالؒ کی نظم ”صبح“ اور ”تخیلِ پاکستان“ کے عنوان سے علامہ کے مشہور اشعار ”خودی کا سِرنہاں لاالہ اللہ“ کندہ کےے گئے ہیں۔
قائداعظمؒ کی تقاریر سے اقتباسات چار سِلوں پر کندہ ہیں۔ ایک سِل پر قومی ترانہ لکھا ہے۔ ہر سِل ایک چھوٹی سی تختی موضوع کے اعتبار سے بطورِ ”سُرخی“ لگائی گئی ہے۔ ان چھوٹی بڑی تختیوں کی کل تعداد چالیس ہے۔ مینار کے صدر دروازے پر ”مینارِ پاکستان“ اور ”اللہ اکبر“ کی تختیاں آویزاں ہیں۔مینار کے قریب ہی ایک چبوترہ ہے، جس کی بلندی زمین سے بارہ فٹ کے لگ بھگ ہے اور اسے اب عوامی تقریبات کے لےے بطورِ اسٹیج استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پر آیت مبارک ”واللہ المشرق والمغرب“ کے الفاظ کندہ ہیں۔
خطاطی کے یہ تمام شاہکار معروف خطاطوں حافظ یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم خورشید رقم، محمد صدیق الماس رقم، ابنِ پرویز رقم اور محمد اقبال کے فن کے نمونے ہیں۔ مینار کی چھت گُنبد نُما ہے تاہم بیرونی جانب سے قطعی محسوس نہیں ہوتی۔ اس پر خوبصورت جالی دار پھول اور بیل بوٹے نقش ہیں۔گورنر مغربی پاکستان نے 19فروری 1966ءکو منٹو پارک کا نام تبدیل کر کے ”اقبال پارک“ رکھ دیا تھا، تاہم عرصہ تک عوام الناس منٹو پارک ہی کہتے رہے۔
مینارِ پاکستان کی تعمیر کے کام میں تاخیر کے سبب اس کی تعمیر کی لاگت بھی بڑھ گئی، چنانچہ 28جون 1966ءکو کمشنر لاہور کی زیرِصدارت کمیٹی کے اجلاس میں مینار اور اس سے ملحقہ پارک کی تعمیر کے نئے تخمینوں کی منظوری دی گئی۔ نئے تخمینے کی رُو سے لاگت 2442926 سے بڑھا کر 5928629 روپے کر دی گئی۔ کمیٹی نے ایک لائبریری اور کیفے ٹیریا کی تعمیر کی منظوری بھی دی، جن پر لاگت کا تخمینہ 174470 روپے تھا۔ یہاں تحریکِ پاکستان میوزیم بنانے کا بھی منصوبہ تھا مگر اگست 1967ءمیں آڈیٹوریم اور اس میں میوزیم کے قیام کا منصوبہ ترک کر دیا گیا اور اعلان ہوا کہ آڈیٹوریم ”پاکستان ہاﺅس“ کے نام سے شاہراہ قائداعظمؒ پر چڑیا گھر سے متصل 9کنال اراضی یا اسمبلی چیمبر کے عقب بنایا جائے گا۔ ”پاکستان ہاﺅس“ کی تعمیر کا تخمینہ 90لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔خدا خدا کر کے مینار کی تعمیر مکمل ہوئی اور یہ اعلان کیا گیا کہ گورنر مغربی پاکستان محمد موسیٰ خان 21اپریل 1968ءکو ”یومِ اقبال“ کے موقع پر اس کا افتتاح کریں گے، مگر افتتاح سے چند روز قبل ہی اس تقریب کو مو¿خر کر دیا گیا کیونکہ 19اپریل روسی وزیراعظم الیکسی کوسچن پاکستان کے دورے پر آنیوالے تھے اور حکمران ان کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے، اس لےے ان کے پاس اس منصوبے کے افتتاح کے لےے وقت نہیں تھا۔
افتتاح کی نئی تاریخ 23مارچ 1969ءمقرر ہوئی۔ مغربی پاکستان حکومت نے ڈویژنل اور ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کی ان ممتاز شخصیات کی فہرست تیار کریں جن کا تعلق قرارداد پاکستان کے سلسلہ میں منعقدہ تاریخی اجلاس لاہور سے رہا ہو تاکہ مینار کی افتتاحی تقریب میں مدعو کیا جاسکے۔ عوام چاہتے تھے کہ مینار کا افتتاح ملک کے دونوں حصوں کے سربراہ یا صدرِ پاکستان کریں۔ اس لےے فیصلہ ہوا کہ مینار کا افتتاح صدر ایوب خان کریں گے، تاہم ملکی سیاسی حالات کی ابتری کی وجہ سے اس کی نوبت بھی نہ آسکی اور مینار کو بغیر افتتاح 23مارچ 1969ءکے روز کھول دیا گیا۔ گورنر عتیق الرحمن نے نومبر 1970ءمیں جا کر کہیں مینار کا دورہ کیا۔
مینار کی دوسرے چبوترے پر چاند کی شکل کا حوض ہے جس کے کونے آپس میں ملے ہوئے ہیں جو ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں کی ترجمانی ہے۔ اس کے اُوپر پانچ کونوں والا ستارہ ہے جو پانچ صوبوں کی نمائندگی کے لےے بنایا گیا ہے۔ ستارے کے وسط میں کنول کے پھول جیسا مینار اپنی سایہ دار پتیاں پھیلائے کھڑا ہے۔ جو دُنیا بھر میں ایک منفرد انداز ہے۔ ویسے بھی شاید یہ دُنیا کا واحد مینار ہے جو کسی قرارداد کی یاد کے طور پر تعمیر ہوا ہے۔جون 1982ءسے اس کا انتظام وانصرام لاہور کے ترقیاتی ادارے (ایل ڈی اے) کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اس ادارے نے یہاں مرحلہ وار بہتری کے پروگرام بنائے۔
پارک کا رقبہ تقریباً 90ایکڑ ہے۔ اس میں سے بیشتر درخت کاٹ کر اسے پارک کی شکل دی گئی ہے۔ پارک کو خوبصورت فواروں، نشستوں، راستوں، پھولوں کی کیاریوں، آہنی جنگلوں اور گھاس کے قطعات سے آراستہ کیا گیا ہے۔ بجلی کا بیشتر نظام مینار کے 10فٹ گہرے تہہ خانے میں رکھا گیا ہے۔ (ختم شد)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024