رمضان کے آخری عشرے 27 رمضان قیام پاکستان کے دن آبروئے صحافت نظریہ پاکستان کے علمبردار ڈاکٹر مجید نظامی 2014ءمیں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے اور پاکستان کے چاہنے والوں اور تمام مکاتب فکر اور شعبہ زندگی کے لئے بڑی افسوسناک خبر تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے بعد پچھلی صدی کی بڑی شخصیت تھی۔ ان کے اوصاف کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے سول اور ملٹری آمروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پاکستان کی نظریاتی سیاست کے امین تھے۔ ان کو کوئی حکمران خرید نہ سکا۔ انہوں نے ہمیشہ جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا ۔
حمید نظامی کی زندگی اور بالخصوص ان کی وفات کے بعد اپنا کردار احسن طریقے سے نبھایا۔ وہ تحریک پاکستان کے کارکن بھی رہے اور نوائے وقت کے مدیر کی حیثیت سے انہوں نے اپنی قلم اور آواز میں جنبش نہ آنے دی۔ 23 مارچ 1940ءکو قائد اعظم کے کہنے پر اخبار نوائے وقت کا اجراءہوا تو آخر وقت تک اس کو پاکستان سے محبت کرنے والا اخبار بنایا۔ محصوران ڈھاکہ تکمیل پاکستان ، کشمیر بنے گا پاکستان ، تحریک آزادی کشمیر کے لئے اپنے آپ کو دن رات وقف کیے رکھا۔ جس طرح قائد اعظم کی شدید خواہش تھی کہ کشمیر آزاد ہو اور پاکستان کا حصہ بنے۔ بالکل اسی طرح مجید نظامی کی خواہش تھی کوئی محفل ہو ، کشمیر کا ذکر نہ ہو ایسا ہو نہیں سکتا۔
مقبوضہ کشمیر کی آل پارٹی حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے قومی رہنماءان سے رابطے میں رہتے تھے اور ان سے رہنمائی لیتے تھے۔ نوائے وقت کے ریلیف فنڈ سے کشمیری ضرورت مندوں کی مدد بھی کرتے تھے۔ انہوں نے کشمیریوں کے لئے ہمیشہ دروازے کھلے رکھے۔ وہ اپنے قائم کیے گئے ادارے نظریہ پاکستان ٹرسٹ روزانہ آتے۔ فرداً فرداً ہر ایک سے ملاقات کرتے۔ میں بھی ان سے رہنمائی لیتا۔ بہت کم بولتے ۔ پہلے اگلے کی بات سنتے پھر جواب دیتے۔ تمام ملنے والوں سے خوشگوار موڈ میں مسکرا کر ملتے۔ اپنے تحریکی ساتھیوں سے ایک ، دو جملوں میں مذاق بھی کر لیتے۔ ایسے شخص تھے نہ بکے ، نہ جھکے ، نہ کوئی ان کی قیمت لگا سکا۔
پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے ڈٹ گئے۔ کبھی پسپائی اختیار نہ کی بلکہ حکمرانوں کو بالآخر ان کے مﺅقف سے اتفاق کرنا پڑا۔ پہاڑ کی طرح مضبوط ارادے کے مالک تھے۔ مجید نظامی کا فائدہ ، نقصان نظریہ پاکستان ، پاکستان کی بقاءاور کشمیر کی آزادی سے منسلک تھا۔ انہوں نے اصولوں کو ترجیح دی۔ ان کی زندگی اور اب بھی ان کے ادارات اسی پالیسی پر گامزن ہیں۔ برسوں سے پڑھنے والے اب بھی ان سے رہنمائی لیتے ہیں۔
میں بطور ڈائریکٹر کشمیر لبریشن سیل لاہور ان سے بھر پور رہنمائی لیتا رہا۔ جب میں نے کالم نگاری شروع کی تو میں کشمیری رہنماءنظریہ پاکستان ٹرسٹ آزاد کشمیر کے صدر ممتاز عالم دین مولانا محمد شفیع جوش کے ساتھ ملاقات کے لئے گیا اور نوائے وقت میں لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بڑی شفقت دی ، حوصلہ افزائی کی اور کہا جرال صاحب آپ اپنا کالم مجھے ڈائریکٹ بھیجا کریں۔ ان کی شفقت سے اب تک سلسلہ جاری ہے۔ ان کی جانشین محترمہ رمیزہ نظامی اور ان کے ساتھی مجید نظامی کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ بھی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کر رہا ہے۔ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان بھی آبروئے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کے ایک سال بعد 2015ءمیں 23 رمضان المبارک کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔
مجید نظامی اور سردار عبدالقیوم خان میں ایک قدرت مشترک تھی کہ دونوں عاشق رسول ﷺ ہونے کے علاوہ سچے اور پکے پاکستانی تھے۔سردار قیوم کشمیر کے واحد بزرگ سیاست دان تھے کہ جم غفیر ہونے کی وجہ سے انکی پانچ بار نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ مسلح افواج پاکستان کی طرف سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ آرمی چیف کی طرف سے پھولوں کی چادر چڑھائی گئی وہ چلتا پھرتا پاکستان تھے۔ پورا پاکستان ان کا وطن ہر سیاسی کارکن ان کا عزیز تھا ۔ انہوں نے اپنے آپ کو برادری ازم سے دور کھا۔ وہ کئی بار آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم رہے۔ مجید نظامی مرحوم سے سردار عبدالقیوم خان اکثر ملتے اور رہنمائی بھی لیتے تھے۔ کشمیر کی جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا۔
بیس کیمپ آزاد کشمیر کی آزادی میں عملی کردار ادا کیا۔ رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ بڑی پیشکش کے باوجود انہوں نے کبھی پاکستان کی سیاست میں حصہ نہ لیا۔ لیکن جب پاکستان کو ضرورت پڑی تو انہوں نے پاکستان کی محبت میں بھر پور کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کی طرف سے قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے باوجود جب بحران پیدا ہوا ۔
قومی اتحاد اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان مصالحت کا کردار ادا کیا۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اپنی نجی اور پبلک اجتماع میں کئی بار اظہار کر چکے ہیں کہ طالبعلمی کے مشکل دور میں جب مسلم لیگ کی حکومت اور اسلامی جمعیت طلباءبھی میری جان کے دشمن تھے اس وقت محترم مجید نظامی مجاہد اول سردار عبدالقیوم اور غلام حیدر وائیں نے ہمارا قبلہ درست رکھا بہکنے نہیں دیا۔ اچھے مشوروں سے آبیاری کی اور کڑی دھوپ میں چھتری کا کام کیا۔ بھر پور شفقت دی۔
سردار عبدالقیوم خان نے جہاں کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ دیا وہاں انہوں نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں نظریاتی لام بندی بھی کی۔ جب بنگلا دیش بن چکا تھا اور لوگوں میں مایوسی پھیل رہی تھی۔ آزاد کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان ، سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، سپیکر شاہ غلام قادر اور کئی دوسرے ان کے سیاسی جانشینوں میں شامل ہیں۔ راجہ فاروق حیدر کی والدہ بیگم حیدر خان جب ممبر قانون ساز اسمبلی تھیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مشکل دور میں کشمیر اسمبلی کے ممبران کو خاموش کرا دیا گیا تھا۔ لیکن بیگم راجہ حیدر خان مضبوط چٹان کی طرح سردار عبدالقیوم خان کے ساتھ کھڑی رہیں۔ ان کی اس قربانی کو بھلایا نہیں جا سکتا۔
سردار عبدالقیوم خان کے تربیت یافتہ سٹوڈنٹ فیڈریشن کے لوگ اس وقت پاکستانی سیاست میں بطور وزیر اور دیگر شعبوں میں احسن طریقے سے اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ راجہ فاروق حیدر خان بطور وزیر اعظم نوجوانوں کی دلوں کی دھڑکن ہیں۔ وہ باتیں نہیں عملی اقدامات کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ میاں محمد نوازشریف ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یہ آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی اور تحریک آزادی کشمیر کے لئے اچھا شگون ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنی عظیم رحمت سے ڈاکٹر محمد مجید نظامی ، مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38