کیا بےنظیر بھٹو کی روح اپنی قبر میں نہ تڑپی ہوگی جب اس کے ”قاتل“ کو اس کے شوہر نامدار کی حکومت نے فل گارڈ آف آنر دیکر انتہائی عزت و تکریم کے ساتھ رخصت کیا۔ کیا بےنظیر بھٹو کی روح اس لمحے اضطراب کا شکار نہ ہوئی ہوگی۔ جب اس کے خون سے جنم لینے والے اقتدار کے مزے لوٹنے کیلئے ”اس قاتل“ کے سامنے سر جھکائے پیپلزپارٹی کے رہنماءوزارتوں کا حلف اُٹھا رہے تھے، بےنظیر بھٹو کی روح کو کیسے کچوکے لگے ہوں گے جب اسکی ساری زندگی کی سیاسی جدوجہد پر پانی پھیر کر پیپلزپارٹی کی سیاسی حیثیت کا ہی خاتمہ کر دیا گیا۔
جب 2013ءمیں آصف علی زرداری نے لاہور ہائیکورٹ میں داخل کرائے گئے جواب میں پیپلزپارٹی کو سیاسی جماعت کی بجائے ایک این جی او قرار دیا تھا اور جس کے خلاف ناہید خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر رکھی ہے اور کیا بےنظیر بھٹو کی روح اس لمحے صدمے کا شکار نہ ہوئی ہوگی جب اس کے دوسرے ”قاتل“ کو نائب وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا گیا۔ آج آصف علی زرداری نے جنرل مشرف کے خلاف جس ایف آئی آر کی واپسی کے لئے کسی دبا¶ کو خاطر میں نہ لانے کا نعرہ مستانہ بلند کیا ہے۔ کیا خود آصف علی زرداری کے عرصہ اقتدار میں اس ایف آئی آر نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی مکمل اختیارات کے باوجود جنرل مشرف کو تب انصاف کے کٹہرے میں کیوں نہیں لایا گیا۔
یہ کیسا دعویٰ ہے ”میں، عوام، محترمہ شہید اور ان کے بچوں کی طاقت سے آپ کے سامنے کھڑا ہوں اور کھڑا رہوں گا۔“ یہ دعویٰ کس کےلئے ہے اپنے پانچ سالہ اقتدار میں تو مشرف کے آگے لیٹنے کا طرزِعمل ہی اعزاز نظر آتا رہا کیا اب بے اختیار مشرف اتنا طاقتور ہو گیا ہے کہ اس کے سامنے کھڑے ہونے کیلئے عوام، محترمہ شہید اور ان کے بچوں کی اجتماعی قوت درکار ہے جبکہ سانحہ راولپنڈی کے فوراً بعد آصف علی زرداری کے سب سے چہیتے رحمان ملک نے قتل کا الزام بیت اللہ محسود پر لگا کر جنرل مشرف کو تو بریت کا سرٹفیکیٹ دے دیا تھا۔
اب جو بھی تاویلیں کی جائیں آصف زرداری کا اشتعال انگیز ردِعمل دراصل وہ چیخ تھی جو ایک خوفزدہ کے منہ سے خطرہ سامنے دیکھ کر نکلتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ دوسروں کو یرکاتے جا¶ اگر وہ یرک گیا تو ٹھیک نہیں تو خود یرک جا¶ والا معاملہ ہے۔ (یعنی جسے عوامی زبان میں ”یرکالو جی“ کہتے ہیں) اب منتوں اور خوشامدوں سے بھرپور قوالی کی جا رہی ہے اور جنرل راحیل شریف کی عظمتوں کے گیت گائے جا رہے ہیں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے:
”ایسی غریبی پر صبر کرنا جس میں عزت محفوظ ہو‘ اس امیری سے بہتر ہے جس میں ذلت و رسوائی ہو۔“
محض زر سے کسی انسان کو عزت نہیں ملتی اور ہوس زر تو نری رسوائی ہے۔ بلاشبہ آصف زرداری پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں دوسرے نمبر پر ہیں تیسرے نمبر پر کہا جاتا ہے کہ الطاف بھائی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اُن کی برطانیہ میں جائیداد کی مالیت دو کروڑ برطانوی پا¶نڈ تقریباً 3 ارب 20 کروڑ روپے سے متجاوز ہے۔ یہ جائیداد قابل اعتماد ساتھیوں کے نام ہے لیکن اس جائیداد سے آمدنی کا حساب کتاب وہ خود دیکھتے رہے۔ مگراب صحت کے پیشِ نظر یہ رجسٹرز بھی ان ہی قابل اعتماد ساتھیوں کے پاس ہیں۔ اس حوالے سے پارٹی میں ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ الطاف بھائی کو کچھ ہوا تو سب کچھ یہ قابل اعتماد ہی ہتھیا لیں گے۔ تاہم خاصی جائیداد الطاف بھائی کی بیٹی فضہ کے نام بھی کر دی گئی ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ الطاف بھائی کی جائیداد اور کاروبار تین براعظموں ایشیا یورپ اور امریکہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے بعض وزراءاور رہنما¶ں کے بھی غیر ممالک میں کاروبار اور جائیدادوں کا انکشاف ہوا ہے جن کی تحقیقات کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
بہت سے حقائق کے ثبوت نہیں ہوتے بلکہ انہیں واقعاتی شواہد کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے۔ ماڈل ایان علی کے ذریعے لاکھوں ڈالر دبئی بھجوانے والوں میں عوامی سطح پر زرداری اور رحمن ملک کا نام لیا جا رہا ہے اور زبان خلق کو نقارہ خدا کہا جاتا ہے۔ ایان کی گرفتاری کے وقت اسے چھڑانے کیلئے رحمن ملک کے بھائی خالد ملک نے ایئرپورٹ پر جو بھاگ دوڑ کی‘ وہ تو تمام اخبارات میں اسی روز بطورخبر شائع ہو چکی ہے۔ سردار لطیف کھوسہ کی سطح کا وکیل اس کیلئے جس کی ہدایت پر وکالت کررہا ہے‘ یہ بھی زبان زد خاص و عام ہے۔
شاہ رخ بابر نامی ایک خاتون کی ایان علی سے جیل میں ملاقاتوں کا وقت ختم ہونے کے بعد سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں شام 6 بجے کے بعد خصوصی ملاقات کرائی گئی۔ وہ کیا پیغام لیکر گئی تھی باقاعدہ تحقیقات سے ہی سامنے آسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ رخ بابر کا ملک کے رئیل اسٹیٹ کے بڑے ٹائیکون سے تعلق ہے جس کو زرداری کے ذریعہ یا شراکت کی بنیاد پر کراچی میں بڑی زمین دی گئی ہے۔ پیارے پاکستان میں جس بے دردی سے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا گیا ہے‘ صحیح تحقیقات کے ذریعہ اگر یہ سب سامنے آجائے تو لوگ طلسم ہوش ربا کو بھول جائیں گے۔