پانامہ کیس پر حتمی کالم لکھنا ممکن نہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں تو اس دوران میں یا اس وقت تک فیصلہ آچکا ہو۔ بہرحال تادمِ تحریر تو فیصلہ نہیں آیامگر سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ ضرور کر لیا گیا ہے۔مفروضوں پر قائم کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں، وزیرا عظم کا خوشامدی ٹولہ انہیں نویدیں سنا رہا ہے کہ اُنہیں کچھ نہیں ہوگا، مگر ن لیگ کے سنجیدہ سیاست دان اس صورتحال کو بھانپ گئے ہیں۔ چوہدری نثار جیسا سیاستدان بھی اُن سے جان چھڑا رہا ہے، اُن کے مطابق وزیر اعظم کو خوش آمدیوں نے گھیر رکھا ہے اس لیے اب انہیں کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ میاں صاحب اپنے اردگرد کے لوگوں سے ہمیشہ اپنی تعریف سننے کے خواہاں رہتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ وہ اب بھی ان خوشامدیوں اور مفاد پرستوں کی چرب زبانی کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔ میاں صاحب ان سے سی پیک، موٹر وے اور بجلی بنانے کے کارخانوں کا ذکر بار بار سننا چاہ رہے ہیں۔وزیر اعظم کی اس عادت نے مجھے 1950ءکی دہائی یاد کروا دی ہے جب ملک غلام محمد بطور گورنر جنرل ملک کے سربراہ بنے تھے۔ شہاب نامے میں قدرت اللہ شہاب نے ان کی سبکدوشی کی وجہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی خوشامدی طبیعت کو قرار دیا ہے۔ چنانچہ قدرت اللہ شہاب اس بارے میں رقم طراز ہیں:”اگر خوشامدیوں کی صحبت میسر آنا خوش قسمتی ہے تو اس باب میں مسٹر غلام محمد واقعی خوش قسمت تھے۔ ان کے قریب ترین اور عزیز ترین دوستوں میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو گورنر جنرل کے زمانے میں ان کی کھلے بندوں شرمناک حد تک خوشامد نہ کرتا ہو۔ ایک بار وہ اپنے دو تین دوستوں کو ساتھ لے کر کار میں ہوا خوری کے لیے نکلے۔ مجھے بھی اگلی سیٹ پر ساتھ بٹھالیا۔ ان دنوں کراچی میں غالباً پہلی آٹھ دس منزلہ عمارت ”قمر ہاﺅس“ کے نام سے تعمیر ہورہی تھی۔ جب ہم اس کے قریب سے گزرے تو مسٹر غلام محمد نے پوچھا کہ اتنی بڑی بلڈنگ کون بنوارہا ہے؟ ان کے ایک دوست نے فوراً ادب سے سر جھکا کر کہا ”حضور کے اقبال سے بن رہی ہے“۔ ایک مسجد سے کچھ لوگ مغرب کی نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے۔ دوسرے دوست نے گورنر جنرل کی توجہ ان کی طرف منعطف کروائی اور کہا حضور کے اقبال سے آج کل مسجدیں خوب آباد ہیں، اتنے نمازی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ سب آپ کی برکت ہے“۔ اس ”برکت“ کا نزول 27 یا 28 برس بعد آج تک جاری ہے۔“
یہ حقیقت ہے کہ خوشامد کی قینچی عقل و فہم کے پر کاٹ کر انسان کے ذہن کو آزادی¿ پرواز سے محروم کردیتی ہے۔ خوشامدیوں میں گھرا ہوا انسان شیرے کے قوام میں پھنسی ہوئی مکھی کی طرح بے بس اور معذور ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کے اپنے حواس معطل ہوجاتے ہیں اور وہ وہی کچھ دیکھتا، سنتا، بولتا، سونگھتا اور محسوس کرتا ہے جو خوشامدی کیڑے کو کون کی طرح گھس کر اس کے وجود میں پلتے رہتے ہیں۔ جس سربراہِ مملکت کی کرسی کو خوشامد کی دیمک لگ جائے وہ پائیدار نہیں رہتی۔ اس کے فیصلے ناقص ہوتے ہیں اور اس کی رائے دوسروں کے قبضہ میں چلی جاتی ہے۔
موصوف وزیر اعظم کے لیے بھی اب ایسی ہی گھڑی آن پہنچی ہے کہ وہ ان کے چنگل سے چاہ کر بھی نہیں نکل سکتے اور اسی لیے سنجیدہ حلقے وزیر اعظم کو آج بھی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے خوشامدیے وزیر اعظم کے سامنے ہر وقت رقص کرتے رہتے ہیں اور حقیقت سے آگاہ اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائیں .... علامہ اقبالؒ نے اس جیسے ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے اپنی کتاب بانگ درا میں مشہور ہندوستانی حکمران غلام قادر روہیلہ کے بارے میں ایک نظم لکھی ہے جس میں آج کے ماحول کی عکاسی ہوتی ہے جب روہیلہ نے دہلی پر حملہ کرکے مغل سلطنت پر قبضہ کرلیا اور مغل بادشاہ شاہ عالم کو گرفتار کرکے اس کی آنکھیں نکال دی گئیں۔ اس درد ناک واقعہ کا گھمبیر ترین پہلو یہ تھا کہ اس کے بعد روہیلہ نے مغل شہزادیوں کو محل میں اکٹھا کیا اور انہیں دربار میں فاتح حکمران کے سامنے رقص پیش کرنے کا حکم دیا۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور شاہی خواتین نے جانےں بچانے کے لیے رقص شروع کردیا۔ اس ذلت آمیز منظر کے دوران غلام قادر روہیلہ کو نیند آگئی اور وہ تخت پر بیٹھا اونگھنے لگا، اور خراٹے بھرنے لگا، مگر مغل شہزادیوں پر موت کا خوف اس قدر طاری تھا کہ انہوں نے پھر بھی اپنا رقص جاری رکھا۔ جب نیند سے بیدار ہوا تو اس نے دیکھا کہ مغل شہزادیاں ابھی تک ناچ رہی ہیں تو اس نے کہا کہ مجھے مغلوں کی شکست کی وجہ اب سمجھ آئی ہے کہ ان کی غیرت ختم ہوچکی ہے ورنہ میری نیند کے دوران کوئی شہزادی آگے بڑھ کر مجھے میرے ہی خنجر سے قتل کردیتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا اس پر علامہ اقبال نے روہیلہ کے الفاظ کو یوں شعر بند کیا ہے کہ:
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
ہمارے وزراءکی حالت بھی ان شہزادوں جیسی ہوچکی ہے جو نہ تو کچھ کہنے کی ہمت کرتے ہیں اور نہ کچھ کرنے کی .... مگر محو رقص و سرور نے اُن کو کہیں کا نہیں چھوڑا.... 1999ءکی طرح اس دفعہ بھی انہیں مشیروں نے غلط مشوروں کے ذریعے ایک ایسی سیاسی دلدل میں دھکیل دیا۔ جس میں وہ اور ان کا خاندان سرتاپا لت پت نظر آتے ہیں۔ اب ان کے خوشامدی مشیروں نے یہ کہہ دیا ہے کہ جناب آپ کے خلاف سازش ہو رہی ہے.... اور ”جناب“ بھی آگے پیچھے نہیں دیکھتے اور جلسوں میں جا کر قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف خیال آرائی شروع کر دیتے ہیں۔
میرے خیال میں اس بحث سے اب باہر نکل آنا چاہیے کہ ہمارے خلاف سازش ہورہی ہے یا نہیں؟ اگر آپ کے دامن پر کوئی داغ نہیں تو آپ کو کسی سازش کا خوف ہی کیوں ہو؟ زیادہ تر سازشیں تو ان کے خلاف ہوتی ہیں جو اپنے خلاف سازشوں کے لیے خود راستے فراہم کرتے ہیں۔ آج پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف سازشوں کا ذکر کرتے نہیں تھکتے، انہوں نے خود جس احتساب کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا تھا، چترال کے جلسے میں اسے ”استحصال“ کہہ رہے ہیں اور وزیراعظم کھلے عام دھمکی دیتے نظر آتے ہیں کہ اس احتساب کو کوئی نہیں مانے گا۔ اسے کیوں نہیں مانا جائے گا؟ آج آپ احتساب ماننے سے انکار کریں گے تو کل کس بنیاد پر دوسروں کو قانون کی عملداری کا درس دیں گے؟ کیا وزیراعظم کو اپنے الفاظ کا احساس نہیں رہا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے وزیراعظم کا احتساب اس وقت کون کررہا ہے؟ کیا امریکا، اسرائیل اور انڈیا میں ان کا احتساب ہورہا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی پاکستان کی معزز عدالت میں ان کا کیس چل رہا ہے جس کے فیصلوں کی پابندی ان پر سب سے زیادہ ضروری ہے۔ آج اگر آپ معزز عدالتوں کے فیصلوں کو جلسوں میں ماننے سے انکارکردیتے ہیں تو پھر آپ اور ان طالبان میں کیا فرق رہ جاتا ہے جو اس نظام کے باغی ہیں؟
اگر آپ اس کیس کو سنجیدہ لیتے تو یہ دن ہرگز دیکھنا نہ پڑتے۔ آپ نے اسے سیاسی لحاظ سے سنجیدہ لیا نہ ہی قانونی معاملات پر کوئی سنجیدگی دکھاسکے۔ سیاسی محاذ پر آپ کو ترجمانی کے لیے طلال چوہدری، دانیال عزیز جیسے لوگ میسر آئے، جنہوں نے آپ کے ساتھ مخالفین کی رہی سہی ہمدردی بھی ختم کرکے رکھ دی۔ وہ جس انداز سے میدان میں اُترتے اور بولنا شروع کرتے، آپ ہی کے سنجیدہ اور باوقار ارکان کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوتے۔ دوسری طرف رانا ثناءاللہ، خواجہ جیسوں کو اداروں پر چڑھائی کے لیے آزاد دیا۔ ان میں سے کسی کا اندازِ گفتگو ایسا نہیں تھا جو حکمران جماعت کے ترجمان کے شایان شان ہو۔ اسی وجہ سے آپ کے حامی کم، مخالف زیادہ ہوگئے۔ طاقتور اداروں کے ساتھ کشیدگی بڑھی۔ آپ نے ہی اس کشیدگی کو عروج پر پہنچایا۔ خود آپ کی جماعت کے اندر اس پر شدید قسم کی بے چینی پیدا ہوئی۔ کئی ایک سینئر راہنماﺅں کو تو یہ تک کہتے سنا گیا کہ انہیں ضرور ہمارے مخالفین نے ہماری صفوں میں شامل کروایا ہے۔ یہ الگ بات ہے یہ سنجیدہ راہنما آپ کے سامنے اپنی اس اختلافی رائے کا اظہار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ قانونی میدان میں مخدوم علی خان کے علاوہ آپ کے اکثر وکیل آپ کے لیے شرمندگی کا باعث بنے۔ ڈیڈ ٹرسٹ بنوانے کی بات ہوئی تو یہ اعتراض سامنے آیا چھٹی کے دن یہ کام کیسے ممکن ہوا؟ سلمان اکرم راجا جیسے سینئر وکیل کہتے ہیں ممکن ہے غلطی ہوئی ہو۔
آج حالات یہ ہیں کہ اس پورے کیس میں وزیر اعظم اور اُن کا خاندان جس طرح ایکسپوز ہوا ہے، تاریخ میں اُس کی مثال نہیں ملتی، بچے بچے کی زبان پر وزیر اعظم کے لیے کوئی اچھے الفاظ موجود نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم اب براہِ راست جلسے نشر کرنے سے اس لیے ہچکچاتے ہیں کہ اُن ہی کے جلسے میں اُن کے خلاف کوئی آواز بلند نہ ہوجائے۔ ایسا ڈر کیوں لگ گیا ہے؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024