صدیوں پہلے دنیا ایک مقتل گاہ تھی، جب چار پانچ لوگ تھے تب بھی برتری کے لئے ایک بھائی نے دوسرے کی گردن اتار دی تھی ۔ ہزاروں سال کی تاریخ میں کوئی 235سال ہونگے جب دنیا کے کسی خطے میں جنگ نہ ہو رہی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ انسان نے غار کی جنگلی زندگی سے شہروں کی مہذب زندگی کا سفر طے کر لیا ہے ۔ مجھے تو اس بات پر یقین نہیں آتا !!اس کی وجہ ہے :
غار کا انسان پتھروں کو رگڑ کر آگ پیدا کرتا تھا ، جنگلی جانوروں کا شکار کرتا تھا ،چولہا جلاتا تھا اور اپنے پیٹ کو بھرنے کے طریقے کرتا تھا ۔ترقی کے بعد ایک انسان دوسرے انسان کو لمحہ بھر میں آگ میں جھونک سکتاہے ۔ بم ،نیوکلئیرتوانائی ، راکٹ ، ،کیمیائی ہتھیار ،میزائل اورڈرون جیسی ایجادات ہیں،جو انسان کو اس کی برتری کا نہیں کمترہونے کا احساس دلا رہی ہیں ۔سائنس کی یہ ترقی انسان کو تنزلی کی طرف لے گئی ۔زندگی دینے کی بجائے موت بانٹنے لگی ۔ اُس پہلے انسان سے جس نے زمین کے ٹکڑے کی خاطر اپنے بھائی کو مارا ، انسان کی سوچ آج بھی ایک انچ آگے نہیں جاسکی ۔ تو کیا انسان ترقی کر گیا ؟ یا زیادہ گر گیا ؟
انسان جو سمجھتا ہے اس نے کائنات کو تسخیر کر لیا ، سمندر میں چھپے جواہر نکال لئے ، آسمان کا سینہ چیر کر اس کے اندر گھس گیا ، وقت کو فتح کر لیا ، بہت مغالطے میں ہے ۔ انسانی زندگی آج بھی اتنی ہی(شائد اس سے بھی کہیں زیادہ ) خوفزدہ اور غیر محفوظ ہے جتنی پہلے تھی ۔
پہلے نہ نظر آنی والی آفتیں ، انجانے خوف اور خدشے انسان کو گھیرتے تھے آج بھی وہی عالم ہے مگر شکل بدل چکی ۔ پہلے وبائیں پھیلتی تھیں اور موت کا خوف انسانوں کو جکڑ لیتا تھا ۔کون کب مر جائے کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی ۔ یہ بھی خطرہ رہتا کہ کوئی جنگلی جانور اٹھا لے جائے گا ، کوئی سرد موسم کا اور کوئی گرم موسم کا شکار ہوجائے گا ۔
پھر یوں ہوا انسان نے موسموں کو ، بیماریوں کو اختیار میں کر لیا ، گویا کائنات تسخیر کر لی مگر مار کھا گیا ، اپنے جذبے کھلے چھوڑ دیے ، ان کو لگام نہیں ڈال سکا ۔ اندر کے گھوڑے کو سدھا نہ سکا ۔ اور آج عالم یہ ہے طاقت ور سے ڈرتا ہے اورکمزور کو کچا چباجاتا ہے ۔ دنیا میں مادی چیزوں کی فتوحات کو کامیابی جانتا ہے اور دلوں کو جیتنے کی بجائے انہیں شرمندگی میں مبتلا کرتا ہے ۔ اپنے دل کی تسکین کو محنت کر کے نام نہیں بناتا بلکہ دوسرے لوگوں کو نیچا دکھانے کو سارا دن بھاگ دوڑ کرتا ہے ۔ دولت اور تعلیم اپنے سکون کے لئے نہیں بلکہ دوسرے کے گھروں میں آگ کے گولے پھینکنے کو حاصل کرتا ہے ۔ خدا نے جس انسان کو اشرف المخلوقات بنا کربھیجا تھا اسے رینگنے والا کیڑا بنا دیا گیاہے ۔ پہلے وبائوں سے مرنے والوں کو دفنا دفنا کر زندہ انسانوں میں اترنے والی بے حسی آج اجتماعی قبریں دیکھ دیکھ کر بہت ترقی کر چکی ہے ۔
زندگی نے نہیں، ترقی موت نے کی ہے ۔ پہلے جنگلی جانور اور بیماریاں مارتی تھیں ۔ اب نت نئے طریقے دیکھئے ۔ گھر بیٹھے ایک بٹن دبا دو اور بازار میں خریداری کرتا انسان ، پارک میں کھیلتا بچہ ، سکول کا لباس پہنے دو چوٹیاں باندھے نظمیں گاتی بچی ، ایک دوسرے کو پیار سے تکتے دو پیار کرنے والے جوان دل ، سینما میں بیٹھے سالوں بعد اکھٹے فلم دیکھتے ہوئے میاں بیوی اور ہسپتال میں بیمار بوڑھے ۔ کسی کو کہیں بھی بھسم کر دو ، راکھ کا ڈھیر بنا دو ۔ ۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکوئی قدیم زمانے کی کہانی ہے؟ اور یہ ایسی کہانی بھی نہیں جو آج تھم گئی ہے ، متروک ہوگئی ہے ، نہیں یہ تو ایسی ہٹ ہوئی ہے کہ اس کے sequelبنتے جارہے ہیں ۔یہ آج کے انسان کی ترقی کی کہانی ہے اورہالو کاسٹ آج کے انسان کا پسندیدہ موضوع اور مشغلہ ہے ۔ جس کے ہاتھ میں طاقت اور پیسہ وہ سب کو بھیڑوں کی طرح ہانکتاہے ۔ کچھ دماغ کا استعمال کرنے والے سوال اٹھاتے ہیں ۔ انہیں لیبل کر دیا جاتا ۔ قدیم دور کی ایک اور نشانی، غلامی ۔۔وہ ختم ہوگئی ؟
مجبور غلام لوگ :ایک تو کہہ لو تیسری دنیا ( یہ نام ہی دیکھیں اندر کیسی کہانی رکھتاہے ، بڑی طاقتوں نے چھوٹے ممالک کو تیسری دنیا کہہ کر کیسے احساسِ کمتری میں مبتلا کیا ہوا ) کے پسے ہوئے غلام ، افریقہ کے غریب لوگ ، غزہ کے 20 لاکھ فلسطینی غلام ، ایک یہ نظر آنے والی غلامی اور ایک یہ غلامی جو سب سے زیادہ خطرناک ۔ سوچ کی غلامی ۔ دیکھنے میں آزاد مگر بند بند غلام ۔
فلسطین کے نہتے ،عام شہریوں ( بے گناہ نہیں کہوں گی ۔۔کیونکہ غر بت ، بے بسی اور مجبوری ان کا بہت بڑا گناہ ) کو مار کر اسرائیلی وزیر اعظم فر ما سکتے ہیں: "اسرائیل کا نشانہ حماس کے دہشت گرد ہیں نہ کہ بے گناہ شہری ۔اس کے برعکس حماس والے اسرائیل کے عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں اور عام فلسطینیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔لہذا اسرائیلی اور فلسطینی تمام شہریوں کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کی مکمل ذمہ داری حماس پر ہوتی ہے " اور وہ لوگ جو صدیوں سے غلام رہے ہیں ، دولت والوں کے ایسے ظلم و جھوٹ پر سر جھکا لیتے ہیں ۔
ان کی نہ نظر آنے والی بیڑیاں پکارتی ہیں کہ ـ"جو آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے" ۔اس لئے جب کسی غلام ذہن کو اس کھلی بربریت کو بھی justifyکرتے دیکھیں تو ایک ہی بات دہرائیں کہ غریب سوچ کا انسان آج بھی غلام ہے ۔ امیر لوگ اور امیر قومیں جب بے حسی کی انتہا کو پہنچ کر بہت اعتماد سے غلط فیصلہ کرتی ہیں تو جان لیں کے ان کی طاقت وہ خوشامدی اور موقع پرست لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امیر آدمی یا امیر ملک کبھی کچھ غلط نہیں کرسکتا، وہ ایمان کی کمزور ترین حالت یعنی دل میں بھی اسے برا نہیں کہتے ۔ان کی غلطیوں کو بھی اچھا سا نام دو ۔
ا میر کی دھوکہ دہی ،بے حیائی اورخود غرضی ماڈرن ازم اور سوشل نیٹ ورکنگ ۔امیر کا دوغلا پن اور خوشامد شائستگی ۔امیر ملک کسی بھی ملک میں گھس کر قتل ِ عام کریں تو امن اور جمہوریت کی بقا کے لئے ،محب وطن کہلائیں گے۔ غریب اور ناکام اپنا ملک بھی آزاد کروانا چاہیں تو باغی اور دہشت گرد ۔پس اس ترقی یافتہ دنیا میں کوئی ناکام نہ ہو ۔
بشن ملہوترہ کی آنکھیں کہہ رہی تھیں :
"آدمی کو چاہیئے کہ وہ اس ناکامی سے بچنے کے لئے کچھ بھی کرے ،قتل کرے ، دھوکہ دے لے اور اپنے دوست کا گلا کاٹ لے،اپنے بھائی کے گھر میں گھس کر اس کی عزت لے لے،مگر ناکام نہ رہے ۔اس لئے لازم ہے تم پر کہ تم اس کامیابی کے لئے جھوٹ بولو، چوری کرو ،ڈاکہ ڈالو اپنے ضمیر کو کچلو اور دوسرے کے ضمیر کو دھوکا دو ۔کچھ بھی کرو ۔اس کامیابی کے لئے اپنے آپ کو بیچ دو،اپنی بیوی کو بیچ دو ،اپنی ماں کو بیچ دو مگر ناکام مت رہو کیونکہ اگر تم ناکام ہوئے تو وہ لوگ تمھیں بیج نہیں دیں گے اور پھول نہیں دیں گے۔دھرتی نہیں دیں گے اور سورج تم سے چھین لیں گے اور تم کوڑے کے ڈھیر پر ڈال دئیے جائو گے کیونکہ تم ناکام ہو ۔
یہ دنیا ایک قاتل کو معاف کر سکتی ہے ،مگر ایک ناکام کو نہیں !"( کرشن چندر)۔دنیا کی ترقی جس میں انسان کو جینے کا پیغام ملتا، بہت تھوڑی ہے۔انسان کی تباہی میں اور تباہ کن جذبوں میں بہت ترقی ہوگئی ہے ۔ انسان آج بھی حسد ، خود غرضی ،مکاری ، دھوکہ دہی اور برتری کے احساس کو شکست دینے میں ناکام اور دولت مند جھوٹ کے آگے جھکنے میں غلام۔
انسان ترقی کر گیا ہوتا تو آج بچے ذبح نہ ہورہے ہوتے ۔ مائیں بہنیں اور بیٹیاں ننگے سر بیٹھی اپنا سینہ نہ کوٹ رہی ہوتیں ۔انسان پہلے زیادہ درندہ تھا یا تعلیم اور آگاہی نے اسے آج زیادہ درندہ بنا دیا ہے ؟ جواب سادہ ہے دنیا کل بھی مقتل گا تھی دنیا آج بھی مقتل گاہ ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024