جنرل ایوب خان کی دس سالہ آمریت کیخلاف نظریاتی اور عوامی تحریک اُٹھی جس کے دوران ’’سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے‘‘ ’’مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان‘‘ ’’گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو‘‘ ’’نوکر شاہی سرمایہ داری، جاگیرداری اور سامراج ٹھاہ‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ انقلابی نوعیت کی اس عوامی تحریک کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کو نصیب ہوئی۔ اس تحریک اور ترقی پسند بھٹو کی کرشماتی شخصیت سے متاثر ہونے والے نظریاتی افراد میں منو بھائی شامل تھے جو پی پی پی کے لیے فکری اثاثہ ثابت ہوئے۔ راقم 1972ء میں پی پی پی پنجاب کا سیکرٹری اطلاعات تھا اور بابائے سوشلزم شیخ رشید کے قریبی رفقاء میں شامل تھا۔ جب پی پی پی میں شامل جاگیردار طبقے نے پارٹی کی نظریاتی شناخت کو متاثر کرنا شروع کیا تو دانشور حنیف رامے کی سرپرستی میں ’’پاکستان فکری محاذ‘‘ کے نام سے فورم قائم کیا گیا تاکہ پی پی پی کی اساسی نظریاتی شناخت کا دفاع کیا جاسکے۔ منو بھائی نے اس نظریاتی جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا۔ انہوں نے ٹیک کلب کی ایک فکری نشست میں بتایا کہ ایک خاتون نے اپنے خلاف ہونے والے ظلم کی داستان ان کو سنائی تو انہوں نے اپنی زندگی کا پہلا کالم خواتین کے حقوق کے بارے میں لکھا۔ منو بھائی کی منفرد خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی بھر عملی طور پر اپنی نظریاتی سوچ کے ساتھ وابستہ رہے۔ پاکستان کے کمزور، مظلوم، مجبور اور بے بس عوام کے ساتھ ان کی عملی وفاداری لازوال رہی۔ منو بھائی نے علم کو عمل میں ڈھالا انہوں نے صرف کالم اور ڈرامے نہیں لکھے بلکہ اپنے سوشلسٹ (سماج دوست) نظریات کے مطابق قابل رشک عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ وہ سات مرلے کے گھر میں مقیم رہے اپنے کسی بیٹے یا عزیز کو سفارش کی بنیاد پر سرکاری نوکری نہ دلوائی۔ ان کی شخصیت اور کردار پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
خواہش پر مجھے ٹوٹ کر گرنا نہیں آتا
پیاسا ہوں مگر ساحل دریا پہ کھڑا ہوں
منو بھائی ایک نظریے، محبت، خدمت اور احساس کا نام ہے وہ کہتے تھے ’’موت انسان کے مرنے سے نہیں احساس کے مرنے سے ہوتی ہے‘‘۔ منو بھائی کی آخری خواہش سے انکی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ’’میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں نے تھیلے سیمیا اور ہمیو فیلیا میں مبتلا بچوں کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے عزیز و اقارب اور چاہنے والے ان موذی امراض کے خلاف نبرد آزما ہو جائیں اور میری وراثت (سندس فائونڈیشن) کے حصہ دار بنیں جو انسانیت کی اصل معراج ہے‘‘۔ اگر ہمارے دانشور، صحافی، سیاسی و مذہبی رہنما منو بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریروں، تقریروں اور بیانات سے عمل کی جانب لوٹ آئیں تو پاکستان امن ، سکون‘ محبت اور وہ اخوت کا گہوارہ بن جائے۔ منو بھائی اپنے اس سیاسی فلسفے پر قائم اور دائم رہے کہ جب تک پاکستان سے سرمایہ داری اور جاگیرداری کو ختم کرکے عوام دوست سماج وجود میں نہیں آتا پاکستان مضبوط، مستحکم اور خوشحال ریاست نہیں بن سکتا۔ منو بھائی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ممتاز کالم نویس تھے منفرد ڈرامہ نگار، شاعر اور سماجی رہنما تھے۔ برادرم خالد محمود سلیم نے جب منو بھائی سے کہا کہ زندگی تلخ ہوتی جارہی ہے تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ آپ فلاحی ادارے’’سندس فائونڈیشن‘‘ آجائیں جینے کی لذت آنے لگے گی۔ بلاشک و شبہ اللہ نے دکھی انسانوں کی خدمت میں وہ لذت رکھی ہے جو دولت سے میسر نہیں ہوتی۔
منو بھائی نے ’’احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر‘‘ اور ’’اجے قیامت نہیں آئی‘‘ کے عنوان سے پنجابی کی لافانی اور شاہکار نظمیں لکھیں۔ منو بھائی عظیم انسان تھے جو عمر بھر اشرف المخلوقات کے مقام پر کھڑے رہے۔ان پر یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے:۔…؎
مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں
کابل کے ہوٹل پر دہشت گردی سے تیس افراد جان بحق ہوگئے۔ یہ المناک سانحہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں سترہ سالہ قیام کے بعد بھی دہشت گردی کے خاتمے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ کاش امریکہ اپنی پے درپے ناکامیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے پر آمادہ ہوجاتا مگر سپر پاور کبھی اپنی ناکامی اور غلطی تسلیم نہیں کیا کرتی اور ہمیشہ ذمے داری کمزور ملکوں پر ڈالتی ہے۔ افغانستان کا ساٹھ فیصد علاقہ افغان حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیمیں افغانستان کے اندر سے آپریٹ کرتی ہیں مگر الزام ہمیشہ پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔ پاکستان جب امریکہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کی نشاندہی کی جائے تو امریکہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کے پاکستان مخالف گٹھ جوڑ کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیراعظم نے اپنے بھارتی دورے کے دوران ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’بھارت اور اسرائیل کی شادی جنت میں طے پائی تھی‘‘۔ اسرائیل بھارت کو بھاری تعداد میں جدید اسلحہ سپلائی کرنیوالا تیسرا بڑا ملک ہے۔ امریکہ پہلے اور روس دوسرے نمبر پر ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی نے اپنے ایران کے دورے میں انتباہ کیا ہے کہ ’’انڈیا اور اسرائیل کی دوستی دورخ میں طے پائی اور امریکہ انڈیا اسرائیل گٹھ جوڑ مسلم امہ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے‘‘۔ پاکستان دشمن خفیہ تنظیمیں دنیا کے طاقتور ملکوں میں ’’آزاد بلوچستان‘‘ کی مہم چلارہی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں تشویشناک ٹویٹ کے بعد بھارت نے ایل او سی پر اشتعال انگیز کارروائیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ وزارت خارجہ نے بھارتی سفیر کو مختصر عرصے میں پانچویں بار بلا کر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم پابندیوں پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان پہنچ رہی ہے۔
دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کو اپنی تاریخ کے سنگین ترین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل پاکستان کو ایک بار پھر توڑنے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں مگر افسوس ہماری سیاسی و مذہبی قیادت کو پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کا ادراک ہی نہیں ہے۔ پاکستان کی معیشت زوال پذیر ہے۔ انتخابی بخار کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے۔ ریاستی ادارے ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ حکمران اشرافیہ آئین اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ انتشار، نفسانفسی اور انتہا پسندانہ رویوں نے پاکستانی ریاست کو پاکستان دشمن قوتوں کا آسان ہدف بنادیا ہے۔ یہ وقت متحد اور بیدار ہونے کا ہے۔ پاک فوج پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے باوجود قومی اتحاد اور یکجہتی کے بغیر سنگین چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اندرونی انتشار ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آر میجر جنرل آصف غفور نے درست کہا ہے کہ ملک کے اندرعدم استحکام ہو تو دشمن فائدہ اُٹھاتا ہے۔ سنگین حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کی قومی کانفرنس بلاکر پاکستان کی سلامتی کو لاحق سنگین چیلنجوں کے بارے میں سنجیدہ غور و خوض کرکے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ خدانخواستہ اگر پاکستان ہی سلامت نہ رہا تو سیاست اور اقتدار سب ختم ہوجائیں گے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو اور ہماری سوہنی دھرتی تا قیامت زندہ اور پائندہ رہے۔ پاکستان کی سلامتی کو لاحق سنگین چیلنجوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو پاکستان کے بارے میں یہ شعر یاد آتا ہے۔…؎
ہم پر گزریں قیامتیں لیکن
تو سلامت رہے قیامت تک