ایک کالم نگار نے اپنے کالم میں لکھا ہے ”روایت ہے مولانا اشرف علی تھانوی کا بھیجا ہوا علماءکا ایک وفد قائداعظم کی خدمت میں پہنچا اور ملاقات میں دو نکات پر زور دیا۔ اول سیاست اور مذہب اور دوم جھکتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ذاتی بات ہے مگر انہیں نماز پڑھنی چاہئے۔“ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسند روایت نہیں بلکہ مستند واقعہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہے۔ میں نے 2001ءمیں محترم ارشاد احمد حقانی مرحوم سے قلمی بحث میں اسکا حوالہ دیا تھا اور پھر افتخار احمد کے ساتھ یوم قائداعظم کے حوالے سے ٹی وی پروگرام ”جوابدہ“ میں بھی عرض کیا تھا کہ قائداعظم کی مذہبی تربیت مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پر انکے ساتھیوں اور خواہر زادوں نے کی تھی جن کی قائداعظم سے طویل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ تھا کہ انگلستان سے واپسی کے بعد قائداعظم کی تقریریوں پر واضح مذہبی رنگ نظر آتا ہے، ان کی تقریروں میں جا بجا اسلام کے حوالے ملتے ہیں، خدا کے سامنے جوابدہی کے خوف کا خوف طاری ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ قائداعظم کی تقاریر کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ 1934ءکے بعد انکے نظریات میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے، مذہب کی جانب جھکا¶ محسوس ہوتا ہے اور انکے تصور قومیت اور سیاست میں بنیادی ارتقا دکھائی دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قائداعظم کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی علامہ اقبال کی مانند انکی مذہبی تربیت ہوئی تھی۔ وہ ایک کھرے اور سچے مسلمان تھے اور اسلام کی تعلیمات میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر اسلامی نظام، سیرت نبوی اور قرآن حکیم کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کے حوالے انکی تقاریر میں جا بجا ملتے ہیں۔ وہ قرآن حکیم پر غور و فکر کرتے تھے اور اسکی گواہی نہ صرف منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ کے عینی شاہدین دیتے ہیں بلکہ جنرل محمد اکبر کی کتاب ”میری آخری منزل“ سے بھی ملتی ہے۔ گنتی کے مطابق قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101 دفعہ اور قیام پاکستان کے بعد چودہ دفعہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے اور نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی اور انہوں نے یہ بات تو کئی بار کہی کہ ”قرآن مجید“ ہمارا رہنما ہے۔ حتیٰ کہ سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریر میں بھی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اقتصادی نظام تشکیل دینے کی آرزو کا اظہار کیا۔ مجموعی طور پر قائداعظم پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے مذہبی ریاست ہرگز نہیں کیونکہ اسلام میں تھیو کریسی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے سیکولر دانشوروں نے قائداعظم کی تقاریر کو پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی انکی روح کو سمجھا ہے وہ فقط چند ایک تقاریر پڑھ کر اپنا مطلب نکال لیتے ہیں اور اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت نہیں فرماتے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کب اور کیسے قائداعظم کے نظریات میں تبدیلی آتی گئی اور انہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے ”اقلیت“ سے ”قومیت“ تک کا سفر کیسے طے کیا۔ اقبال کا فکری ارتقاءبھی اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ اسلام مخالف اور دین بیزار حضرات قائداعظم کو سیکولر ثابت کرتے رہتے ہیں اور انکے علم کا حال یہ ہے کہ وہ اکثر دعوے کرتے پائے جاتے ہیں کہ قائداعظم نے کبھی پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا اعلان نہیں کیا۔ یہ سطحیت کی حد ہے کیونکہ قائداعظم نے فروری 1948ءمیں امریکی عوام کے نام براڈ کاسٹ میں پاکستان کو ”پرئمیر اسلامک اسٹیٹ“ قرار دیا تھا۔ (بحوالہ قائداعظم کی تقاریر، جلد چہارم صفحہ 1064، تدوین خورشید یوسفی) ۔ البتہ سیکولر کا لفظ کبھی انکی زبان سے نہیں نکلا۔ قائداعظم کے نظریات کیا تھے اور وہ پاکستان کو کیسی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ یہ میرا ذاتی مسئلہ نہیں لیکن دین بیزار حضرات اس حوالے سے جب قائداعظم کو مولوی محمد علی جناح کہتے ہیں اور مجھ پر پھبتی کستے ہیں تو میں محظوظ ہوتا ہوں اور دعا مانگتا ہوں کہ اللہ انہیں قائداعظم کی تقاریر پڑھنے کی توفیق دے۔ رہا آج کا پاکستان تو وہ نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے اور نہ ہی فلاحی ہے بلکہ آمریت اور جمہوریت کا ملغوبہ رہے جہاں اقتدار اور سیاست پر دولت کی اجارہ داری ہے، نیم خواندہ، نظریاتی منطق اور ہوس زدہ طبقے چھائے ہوئے ہیں اور عوام کے نام پر عوام کیلئے بنائے گئے پاکستان میں عوام پس رہے ہیں۔
بات چلی تھی مولانا اشرف علی تھانوی اور قائداعظم کی مذہبی تربیت کے حوالے سے اور قدرے دور نکل گئی۔ اس ضمن میں منشی عبدالرحمن خان مرحوم کی کتاب ”تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی میں“ تفصیل سے موجود ہے اور پڑھنے کے لائق ہے۔ منشی عبدالرحمن مرحوم نے بڑی محنت اور تحقیق سے مواد جمع کیا ہے اور قائداعظم کے حوالے سے ان گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جن کا ذکر نہ ہماری تحریک پاکستان پر لکھی گئی کتابوں میں ملتا ہے اور نہ ہی مغربی سکالرز قائداعظم کی سوانح لکھتے ہوئے انہیں قابل توجہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ انہیں ”سُوٹ“ نہیں کرتا۔ آج کا نوجوان تو یہ بھی نہیں جانتا کہ مولانا اشرف علی تھانوی بہت بڑے سکالر، مفسر قرآن اور سیرت نبوی کے عظیم مصنف اور بڑی روحانی شخصیت تھے۔ ایسی شخصیت کا مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں متفکر رہنا قابل فہم ہے۔ مولانا شبیر علی تھانوی کی روئیداد تبلیغ“ کا حوالہ دیتے ہوئے منشی عبدالرحمن مرحوم نے لکھا ہے ”حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی دوپہر کا کھانا نوش فرما کر قیلولہ کیلئے خانقاہ میں تشریف لائے اور مجھے آواز دی، حاضر ہوا تو حضرت متفکر تشریف فرما تھے (یہ مئی 1938ءکا واقعہ ہے) اس زمانہ تک قرارداد پاکستان منظور نہیں ہوئی تھی مگر کانگرس اور ہندوﺅں کی ذہنیت بے نقاب ہو چکی تھی --- حضرت نے دو تین منٹ کے بعد سر اٹھایا اور ارشاد فرمایا ”میاں شبیر علی ہَوا کا رُخ بتا رہا ہے کہ لیگ والے کامیاب ہو جائیں گے اور بھائی جو سلطنت ملے گی وہ ان ہی لوگوں کو ملے گی جن کو آج ہم فاسق فاجر کہتے ہیں۔ مولویوں کو تو ملنے سے رہی۔ لہٰذا ہم کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ یہی لوگ دیندار بن جاویں۔ آجکل کے حالات میں اگر سلطنت مولویوں کو مل بھی جاوے تو شاید چلا نہ سکیں گے --- ہم کو تو صرف یہ مقصود ہے جو سلطنت قائم ہو وہ دیندار اور دیانتدار لوگوں کے ہاتھ میں ہو اور بس ....“ میں نے ارشاد سُن کر عرض کیا کہ پھر تبلیغ نیچے کے طبقہ سے شروع ہو یا اوپر کے طبقہ یعنی خواص سے۔ اس پر ارشاد فرمایا کہ اوپر کے طبقہ سے کیونکہ وقت کم ہے اور خواص کی تعداد بھی کم ہے۔ اگر خواص دیندار بن گئے تو انشاءاللہ عوام کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔ اس پس منظر اور اس جذبے کے تحت مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک وفد ترتیب دیا۔ نواب محمد اسماعیل کے ذریعے قائداعظم سے ملاقات کا انتظام کیا جس کا احوال اگلے کالم میں بیان کروں گا انشاءاللہ! فی الحال اتنا ذہن میں رکھیں کہ نواب محمد اسماعیل مسلم لیگ کے سرکردہ لیڈر تھے اور دسمبر 1947ءمیں جب مسلم لیگ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہندوستان کیلئے انڈیا مسلم لیگ بنائی گئی تو نواب اسماعیل اسکے پہلے صدر تھے۔ (جاری ہے)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024