دو واقعات کا پرچہ ہے۔ ایک تو ایم کیو ایم کے پارلیمنٹ اور سندھ اسمبلی سے استعفے اور دوسرا اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے حلقہ این اے 122میں دوبارہ انتخابات کے لئے الیکشن ٹربیونل کا حکم۔ایم کیو ایم کے استعفوں کا معاملہ اور طوفان کو حکومت نے گزرتے وقت کے سہارے سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔جن استعفوں نے آغاز میں ہنگامی صورتحال پیدا کر دی تھی اب ویسی صورتحال نہیں لگ رہی۔ ایم کیو ایم کے استعٰفے قبول بھی نہیں ہوئے ،پارٹی نے اسمبلی سے باہر رہنے کا اعلان بھی کر دیا ہے اور حکومت کی طرف سے بھی مولانا فضل الرحٰمن کو دوبارہ رابطوں کا مینڈیٹ دے دیا گیا ہے۔اسکے علاوہ کراچی آپریشن سے متعلق حکومتی پالیسی یا رینجرز کی حکمت عملی میں بظاہر کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔کراچی کی سیاست دریا کی طغیانی سے ہٹ کر ایک جھیل کے ٹھہراﺅ کی مانند لگ رہی ہے مگر سب جانتے ہیں کہ یہ ایک خاموش آتش فشاں ہے جو کسی بھی لمحے آگ اور راکھ اگل کر تھر کو تہس نہس کر سکتا ہے۔اس بظاہر خاموشی کے پیچھے دونوں اطراف کی ہنگامی تیاریاں اور منصوبہ بندی جا ری ہے۔ایک غیر اعلانیہ جنگ بندی اور ٹریک ٹو رابطے ایم کیو ایم اور حکومت کے درمیان دونوں کی ساکھ کے لئے ضروری تھے اور ضروری ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے تین مرتبہ اپنی پریس کانفرنس ملتوی کی ہے۔کراچی آپریشن کے اس مرحلے کے آغاز کے وقت چودھری نثار کی طرف سے ایم کیو ایم سے متعلق جو انکشافات و اعلانات کیے جاتے تھے ان پر پیش رفت کے بارے میں کوئی اعلانات نہیں ہیں۔برطانوی تفتیشی حکام کے دورے اور وزیر داخلہ سے ملاقاتیں اور پھر وزیر داخلہ کی پریس کانفرنسوں سے یوں لگتا تھا کہ جیسے ایم کیو ایم کے قائد اب برطانوی قانون کے چنگل میں پھنسے کے پھنسے۔اس وقت کی اخباری سرخیوں اور ٹی وی اسکرینوں کی بریکنگ نیوز کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانا اب اتنا مشکل نہیں رہا۔ایک سمندری بگولہ تھا جو کراچی کے ساحلوں سے ٹکرائے بغیر گزر گیا یا پھر ایک چائے کی پیالی میں طوفان تھا جو مہمان سمیت رخصت ہو گیا۔ کیا بنا الطاف حسین کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے الزام کا ،جس کے ثبوت وزیر داخلہ برطانوی ہائی کمشنر کے ساتھ ملاقاتوں میں پیش کرتے رہے؟کیا بنا عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات میں پاکستانی تعاون کا ،جس کے مرکزی کردار یعنی دو ملزمان کو بظاہر چمن کے بارڈر سے گرفتار کر کے اسلام آباد لایا گیا تھا؟اس حوالے سے ہماری مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے بھی کوئی خبر نہیں۔اوروہ بادل کیوں نہیں برسے جن کی کڑکتی بجلیوں اور گرجتی چنگھاڑ نے بلدیہ ٹاﺅن فیکٹری کے متاثرین کے دلوں میں لگی آگ کو بجھانا تھا؟ان تمام سوالوں کا جواب دینے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ اگلی پریس کانفرنس کب منسوخ کریں گے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی آپریشن سے وہاں کے رہائشیوں کی زندگی میں سکون کی ایک نئی لہر آئی ہے۔بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغواءبرائے تاوان کے واقعات میں بہت کمی ہوئی ہے۔مگر کیا آپریشن ہی پرسکون زندگی کی واحد دوائی ہے جو مریض کو ساری عمر کھانی پڑے گی۔آخر کیا وجہ ہے کہ پکڑے جانے والے کئی ہزار ملزمان کے خلاف عدالتوں میں بروقت چالان اور ثبوتوں کے ذریعے حتمی کارروائی مکمل نہیں ہو پا رہی۔ اس حوالے سے سندھ حکومت کی نااہلی کی طرف اشارہ ڈی جی رینجرز ایپکس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں کر چکے ہیں مگر پھر اس نااہلی کی بھی تو کوئی دوائی ہونی چاہئیے ۔ اب بات کرتے ہیں دوسرے اہم واقعے کی۔ این اے122کے انتخابات کو کالعدم قرار دلوانے میں کامیاب ہو کر پی ٹی آئی نے پوری اسمبلی کی نہ سہی اس اسمبلی کے سر کے تاج یعنی اسپیکر کی وکٹ گرا کر ایک اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے لئے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مانندآیا ہے۔ستم ظریفی دیکھئیے کہ جس شخص نے اپنے قلم سے بطور اسپیکر تحریک انصاف کے استعٰفوں کو نا منظور کر کے ان کی سیٹیں بچائیںوہ شخص خود ہی تحریک انصاف کا شکار ہوگیا۔
درست ہی کہا گیا ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔اسپیکر اسمبلی ایاز صادق نے جو آئینی اور قانونی منطق کا سہارا لے کر تحریک انصاف کے استعفے مسترد کیے تھے اسے آسان زبان میں احسان ہی کہا جا سکتا ہے۔ مگر ابھی بہت سے قانونی مراحل باقی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کی سپریم کورٹ میں جن قانونی وجوہات کی بنا پر اپیل کو قابل سماعت قرار دے کران کے حق میں حکم امتناعی جاری کیا گیا،ایاز صادق کے کیس کے حقائق بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں مگرعمران خان کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی۔ یہ وہی مسکراہٹ تھی جو انہوں نے دھرنے کے دوران آرمی چیف سے ملاقات کے لئے روانگی کے موقع پر بھی دی تھی۔اس ملاقات کے بعد جو ہوا وہ بھی سب کو پتہ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ این اے122کا فیصلہ اگر دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ سے پہلے آتا تو اس کا اثر بہت زیادہ ہونا تھا۔مگر اب جبکہ عدالتی کمیشن پہلے ہی منظم دھاندلی کے الزامات مسترد کر چکا ہے اور ٹربیونل نے بھی اپنے فیصلے میں منظم دھاندلی کی بات نہیں کی تو عمران خان این اے 122کے فیصلے کو عدالتی کمیشن کی رپورٹ کی نفی قرار نہیں دے سکتے اور ویسے بھی وہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو مجبوراََ ہی سہی مگر قبول کر چکے ہیں۔ نجانے عمران خان کی لغت میں "قبول ہے"کیا معنی رکھتا ہے۔این اے122پر ٹربیونل کا فیصلہ ویسے ہی ہے کہ کسی بھوکے شخص کوکھانے کی بجائے ایک چیونگم تھما دی جائے کہ جاﺅ اور اسے کھاﺅ ۔چیونگم کا کمال یہ ہے کہ نہ تو پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی یہ کبھی ختم ہو پاتی ہے۔تحریک انصاف کی تمام قیادت چیونگم کی بڑی ماہر ہے۔ منظم دھاندلی کی بھوک تو نہیں مٹے گی مگر سیاسی جگالی کے لئے این اے122کا فیصلہ کافی ہے۔ اس سیاسی ستم ظریفی کے باوجود یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا این اے122سے متعلق فیصلے میں بہت تاخیر کی گئی۔ خاص کر ہائی کورٹ کی طرف سے طویل حکمِ امتناعی نے بھی فوری انصاف کے اصول کی نفی کی ۔اگر سپریم کورٹ نے بھی ٹربیونل کا فیصلہ بحال رکھا (جس کے امکان کم ہیں)تو پھر اُن فیصلوں کا کیا بنے گا جوایاز صادق بطور اسپیکر قومی اسمبلی اپنی رولنگ کے ذریعے دیتے رہے۔کیا عمران خان اپنی اخلاقی فتح کوثابت کرنے کے لئے اسپیکر ایاز صادق کی اس رولنگ کو بھی مسترد کریں گے جس کے تحت تحریک انصاف کے استعفے مسترد کیے گئے تھے؟ظاہری بات ہے کہ اگر اسپیکر قومی اسمبلی غیر قانونی طور پر کام کرتے رہے تو پھر ان کے تمام فیصلے جو انہوں نے بطور اسپیکر کیے کیسے قانونی ہو سکتے ہیں،مگر خان صاحب بات قانون سے آگے بڑھ کر اخلاقیات کی کرتے ہیں تو پھر تھوڑا سا عملی مظاہرہ بھی ہو جائے ۔ یہ اعلان بھی کر لیں چونکہ ایاز صادق کا انتخاب غیر قانونی ثابت ہو چکا ہے اس لئے ہمارے استعفے موثر ہو گئے ہیں۔اصولی طور پر تو تحریک انصاف کو پہلے ہی اپنے استعفوں پر قائم رہنا چاہئیے تھا ۔مگر کیا زمانہ آگیا ہے ،اخلاقیات کے دیوالیہ پن کی یہ صورتحال ہو گئی ہے کہ ہمارے ملک میں استعفے منظور کرنے والا استعفے دینے والے سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ایک وقت تھا کہ جب کسی کے استعفے کی خبر بڑی خبر ہوتی تھی۔ جب یہ خبر چھپ جاتی کہ فلاں نے اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا ہے یافلاں رکن اسمبلی مستعفی ہو گئے ہیں تو یہ بات یہاں پر ہی ختم ہو جاتی مگر ایاز صادق نے بطور اسپیکر آئین اور قانون کے ساتھ جو کشیدہ کاری کی ہے اب بڑی خبر یہ نہیں ہوتی کہ فلاں نے استعفٰی دیا ہے بلکہ یہ کہ استعفٰی منظور ہوا ہے کہ نہیں۔ بہر حال اس اخلاقی اور اصولی ہتھیار کی جتنی تذلیل اس حالیہ دور میں ہوئی ہے شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔اس تناظر میں ایم کیو ایم کے استعفے بھی آسمان اور زمین کے بیچ بھٹکتی ہوئی روح سے کم نہیں ۔استعفوں کے ذریعے اصولوں کی خاطر مفادات کی قربانی دینے والے سیاسی شہیدوں کی روحوں کو یوں بھٹکتے رہنا نہیں دینا چاہئیے اور جو لوگ استعفوں کو محض مفادات کے تحفظ کے لئے اور اصولوں کے برخلاف استعمال کرتے ہیں انہیں سیاسی شہید بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ان کی نہ تو سیاسی قبر بنتی ہے نہ ہی سیاسی مزار۔