ارے بھئی! مجھے تو عدالت عظمیٰ کا فیصلہ پسند آیا ہے۔ عدالت نے وہ کیا جو عدالت نے کرنا تھا۔ جی ! عدالت نے عرض اور عمود کا تراشہ کاٹ کر رکھ دیا۔ عوام ، میڈیا اور اپوزیشن اپنے آپ کو بڑے سیانے سمجھتے ہیں۔ ٹھیک ہے، پکڑیں تراشہ اور رکھیں مائیکرو سکوپ کے نیچے اور لکھیں اندرونی کہانی، بتائیں اناٹومی، ڈسکس کریں ہسٹالوجی (مطالعہ ٹشوز) ہٹ ہی نہیں ہسٹری بھی پڑھیں اور اصلی لفظوں میں بیان کریں۔ رکھیں زمانے کے سامنے!
کوئی تو آئے نئی رتوں کا پیام لے کر
اندھیری راتوں میں چاند بتا کوئی تو سیکھے
مجھے یاد ہے کہ جن دنوں عدالت عظمیٰ میں بحث و تمحیص کا منظر عروج پر ہوتا تھا۔ دھڑا دھڑ ثبوت فراہم کرنے اور ثبوت نہ ہونے کا چرچا تھا، تو عدالت کی طرف سے ایک بات آئی تھی کہ 99 فیصد سے زائد ثبوت ردی کی ٹوکری میں جانے کے قابل لیکن عین انہی لمحان میں میرے دل، پاگل دل میں خیال آیا کہ 99 فیصد کے لگ بھگ سیاستدان بھی تو ردی کی ٹوکری میں جانے کے لائق ہیں۔ کوئی مائنڈ نہ کرے! آج یہ پاگل دل چاہتا ہے کوئی مائنڈ نہ کرے، اس لئے میں نے ”ردی کی ٹوکری کے لائق“ کہا ہے کسی کو نالائق نہیں کہا۔ کتنے شیریں ہیں لب خواجہ آصف و خواجہ سعد رفیق اور چوہدری عابد شیر و محترمہ و بی بی مریم اورنگزیب کے کہ کوئی بھی گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا۔ لبوں کی یہ شیریں فیصلے کا سائیڈ افیکٹ تھا یا آفٹر افیکٹ یہ تو رب جانے لیکن جو بھی سوچوں اور جو بھی سمجھوں یہ محترم پروفیسر احسن اقبال کو اس قدر آپے سے باہر نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ان سے توقع تھی کہ وہ بچیوں پر پردہ ڈالنے والے رحیم و کریم و علیم سب کا شکر ادا کریں گے، سجدہ ریز ہو جائیں گے کہ اللہ نے اوپر سے انصاف نہیں کیا بلکہ ان پر اور ان کی پارٹی پر رحم کیا ہے۔
خیر فیصلہ واقعی تاریخی ہے۔ ہر لحاظ سے اور ہر زاویے سے تاریخی ہے۔ عدالت نے شروع ہی میں بتا دیا تھا کہ ”فیصلہ تاریخی ہے“ اور مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ ہاں یہ تو میں بھی کہتا ہوں کہ 40 اور 50 سال تک یہ فیصل دلوں پر دستک دے نہ دے مگر دماغوں کو کھٹکھٹاتا رہے گا۔ ویسے تو اہل دل اور اہل نظر کو از کم میں اپنی حد تک تو کوئی فرق نہیں سمجھتا اگر کوئی سمجھتا ہے تو اس کی مرضی۔ اہل نظر اپنی روایتی چشمِ بینا کو بروئے کار لاتے ہوئے مدتوں اس فیصلے کے استعارے، تشہیبات، مضمرات، تفہیمات، تحقیقات، انکشافات، تجربات، مشاہدات اور تنقیحات و اثرات بتاتے رہیں گے۔ پس زیب داستان اور زبان زدِ خواص و عوام رہنے والا یہ فیصلہ مدتوں اپنی بازگشت رکھے گا اور فیصلہ کیا ہوتا ہے۔
آگے چلتے ہیں کیونکہ آگے چلنا بھی چاہئے۔ دائروں کے سفر سے نکلتے ہیں، منزل دیکھتے ہیں، خواب بنتے ہیں۔ کیونکہ خواب بنتے رہنا چاہئے اور خوابوں کی تعبیر تراش کر سونا چاہئے۔ لیکن رکئے، ذرا ٹھہریئے! آگے چلنے سے قبل عدالت کی وہ ایک بات یاد کرتے ہیں کہ جب اس نے کہا ”اگر آئین کی دفعات 62 اور 63“ جی جی ، وہی : ”صادق و امین والی دفعات آگے رکھ دیں تو پھر سوائے سراج الحق کے کوئی نہیں بچے گا۔“ وکٹری کا نشان بنانے والے اور دونوں جانب سے مٹھائیاں بانٹنے والے شور و غل اور مسرت و حکومت کے نشے میں یہ بات ہی بھول گئے۔ کوئی بات نہیں ہم نے بھی تو اگلے الیکشن میں یہ بات فراموش ہی کر دینی ہے نا۔ عوام چاہتے ہیں بس کوئی آئے، کوئی پکائے اور ہم پکی پکائی اپنے محبوب سیاستدانوں کے آگے رکھ دیں۔ جب ایسا ہی ہے تو پھر روتے پیٹتے کیوں ہیں عوام۔ انجوائے کریں زندہ باد نواز شریف، زندہ باد زرداری، زندہ باد عمران خان اور اس کے قریشی و ترین و علیم خان بھی۔
کاشف بشیر خان کے ایک پروگرام میں ق لیگ کی ایک سابق ایم پی اے اور تحریک انصاف کی ایک درجہ سوم اور چہارم کی ایک قائد کے مطابق (دونوں ہر لحاظ سے ایک صفحہ پر تھیں) اپوزیشن کے پاس طاقت نہیں ہوتی، اپوزیشن معصوم و مطلق و محکوم ہوتی ہے اور حکومت خواجہ و محمود و مخدوم ہوتی ہے۔ تو ہم نے عرض کیا، بابا! ہم نے تو ہمیشہ سنا ہے کہ آج کی اپوزیشن کل کی حکومت ہے۔ اگر آج کی اپوزیشن اس قدر کمزور اور ناتواں ہے تو بسم اللہ کریں لوگ لوٹے بن جائیں اور حکومت میں چلے جائیں اور انجوائے کریں۔ لوگوں نے بھی ق لیگ بن کر انجوائے کیا تھا اور آج امیر مقام، دانیال، زاہد حامد، طلال اور طارق عظیم بن کر انجوائے کر رہے ہیں کس نے روکا ہے۔ دل ناداں کو پنجاب اسمبلی کا ق لیگ کا بن جانے والا یونیفکیشن فارورڈ بلاک بھی یاد ہے۔ کوئی فلور کراسنگ کوئی اور 62 اور 63 کہاں روکنے اور رکنے والے ہیں۔
افسوس اس اپوزیشن پر جو اپنے آپ کو نہتی سمجھتی ہے آﺅ آگے بڑھتے ہیں! کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ماضی اور اب میں بہت فرق ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کو اس فیصلے کے بعد گرانا ممکن نہیں۔ یعنی میاں صاحب کو اپوزیشن نہیں گرا سکتی بس عدالت یا فوج ہی گرائے۔ میں کہتا ہوں 1985، 1988ئ، 1993ءاور 1997ءکے انتخابات والی ہی باتیں ہیں۔ نہیں ہے تو بس بے نظیر بھٹو نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو مضبوط اپوزیشن لیڈر ہوا کرتی تھی۔ چاہے جلا وطن ہوتیں یا اسمبلی میں۔ بے نظیر کے پاس اسمبلی میں جب تقریباً 17 ممبران قومی اسمبلی تھے وہ تب بھی مضبوط اعصاب کی مالک تھی۔ میاں نواز شریف کی اسمبلی اور حکومت جب آٹھویں ترمیم کی 58 ٹو بی والی ضرب کاری سے ٹوٹی اور عدالت نے بحال بھی کر دی۔ یعنی خود صدر اسحاق خان توڑنے کے باوجود ناکام ہو گئے تو بے نظیر بھٹو نہ ہاری۔ اسحاق خان ناکام یوں ہوئے کہ عدالت عظمیٰ نے میاں نواز شریف کو بحال کر دیا تھا مگر بے نظیر بھٹو نے تانا بانا بن کر جیسے تیسے انہیں بھی گھربھجوا دیا۔ لیکن آج یہاں کوئی بے نظیر بھٹو نہیں، کوئی نوابزادہ نصراللہ خان سا مہم جو نہیں، کوئی قومی اتحاد جیسی تحریک او راکٹھ نہیں۔ کوئی ویسا فورم نہیں، اپوزیشن میں اتحاد نہیں، عمران خان سولو فلائٹ سے میاں نواز شریف کو Immune کر رہے ہیں یعنی قوت مدافعت بڑھا دی۔ عمران خان سارے زمانے کو کرپٹ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اپنی طاقت نہیں بناتے۔ آج نہیں تو کل یہ زرداری صاحب سے بھی اخلاقی، آئینی، سماجی اور سیاسی مدد مانگیں گے لیکن آج کو ضائع کر رہے ہیں اور کر دیا۔ عمران خان صاحب جوانی بھی جانے کے در پے ہے اور قوت بھی۔ اپوزیشن اکٹھ نہیں کر رہی ہے، سولو فلائٹ نقصان دہ ہے۔ فیصلہ تو عالیشان ہے اپوزیشن میں مشترکہ شان نہیں۔ سیاست اور ریاست پرانی ہے آج لگا کہ سیاست وہی ریاست وہی مگر بس بے نظیر بھٹو کی کمی ہے اور ہے!!!!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024