کشمیر کے سبزہ زاروں میں نئی داستانیں رقم ہورہی ہیں انسانی عظمت وہمت ،آزادی کے لےے قربانی،پیشہ وارانہ فرائض پر انسانی احساس وجذبات کی برتری کے نئے باب کھل رہے ہیں مغرب میں پیشہ وارانہ فرائض اورانسانی ومعاشرتی ذمہ داریوں کے تال میل بارے بحث گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے ظاہر ہے جس میں انسانی جذبات واحساسات کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا ہے۔سری نگر کے محصور شہر میں گذشتہ دنوں انسانی رشتوں اور پیشہ وارانہ فرائض کے تال میل سے جڑی کہانی نے انسانی عظمت وکردار کے نئے زاوےے سامنے لائے، انسانی احساسات وجذبات کے ایسے نہاں گوشے دکھائے کہ انسانیت کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ فوٹو گرافر یسین ڈار بھارتی جارح فوج کے مقابل ڈٹے ہوئے نہتے کشمیری نوجوانوں کے عزم وہمت کی داستان کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کررہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ ایک 8سالہ بچی بھارتی فوج کی سنگ باری کی زد میں آکر شدید زخمی ہوگئی یسین ڈار نے پیشہ وارانہ فرائض ادا کرتے ہوئے اس کی منظر کشی کو محفوظ بنانے کی بجائے کیمرے ایک طرف پھینکا اوربچی کو اُٹھانے کے لےے دیوانہ وار میدان جنگ میں کود پڑا، شدید زخمی بچی کو گود میں اُٹھایا اور فوری طبی مدد کے لےے ہسپتال کی طرف بھاگا۔یسین ڈار کے اس اقدام پر اس کے ساتھی عش عش کراُٹھے اب بھارت ہی نہیں خبروتصویر سے متعلقہ تمام حلقے یسین ڈار کے انسانیت کو پیشہ وارانہ ذمہ داریوں پر ترجیح دینے کے اقدام کو سراع رہے ہیں۔ یسین ڈار کہتا ہے کہ میری دوبیٹیاں ہیں اس زخموں سے چور لڑکی کو لڑکھڑاتے دیکھا تو اپنی بچیوں کی تصویریں میرے دماغ میں گھوم گئیں پھر مجھے کچھ یاد نہ رہا ،کیمرہ ایک طرف پھینکا اورسنگ باری کے عروج پر کسی بھی چیز کی پرواہ کےے بغیر بچی کو گود میں اُٹھا لیا۔ سری نگر کے کارزار میں مصروف کار ایک نامور اخبار نویس یوسف جمیل کہتے ہیں کہ ہمیں فخر ہے کہ یسین ڈار نے ذاتی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں پر اپنی سماجی اورمعاشرتی اقدار کوترجیح دے کر جبلتی انسانی رویوں کے نئے گوشے آشکار کرکے ہمارے سر فخر سے بلند کردئےے ہیں۔ یسین ڈار کے کیمرے پھینک کر زخمی بچی کو اُٹھانے کا لازوال منظر اس کے ایک دوسرے ساتھی فیصل خان نے ہمیشہ کے لےے محفوظ کرلیاہے جسے یوسف جمیل نے بمع تصویر اورتبصرے ٹویٹر پر جاری کردیا ہے ۔ عینی شاہدین کے مطابق زخمی بچی بھارتی فوج کی سنگ باری سے زخمی ہوئی ایک سپاہی نے تاک کر اس لڑکی کے سر کو نشانہ بنایا تھا۔ سری نگر اور وادی میں انتخابات کے کامیاب بائیکاٹ کے بعدجارح بھارتی فوج نے شہر اور نواحی علاقوں میں ظلم وبربریت کا بازار گرم کررکھا ہے۔
عوامی بغاوت کو دبانے کے لےے طاقت کا وحشیانہ اور اندھا دھند استعمال کیاجارہا ہے جس سے اب بچے بھی محفوظ نہیں رہے روزانہ درجنوں بچے آنسو گیس اورربڑ کی گولیوں سے زخمی ہورہے ہیں جبکہ بھارتی فوج نے نیم خود کار غلیلوں سے آزادی کے پروانوں کو نشانہ بنانے کا وحشیانہ کھیل بھی شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے زخمیوں کی تعداد درجنوں سے بڑھ کر سینکڑوں تک پہنچ گئی ہے یسین ڈارنے اس زخمی بچی کی سہیلیوں کو ہسپتال میں بتایا کہ میری اپنی دوبیٹیاں ہیں یہ بچی مجھے ان میں سے ایک محسوس ہوئی میرے جذبات واحساسات کو بچوں والا ہر باپ باآسانی سمجھ سکتا ہے اوروہ زخموں سے تڑپتے ہوئے بے یارومددگار بچے کو ہسپتال پہنچانے کی بجائے اس کی تصویریں کیسا بنا سکتا ہے اس نے کہا کہ میں کوئی پہلا شخص نہیں ہوں جس نے آگے بڑھ کر ایک کشمیری بیٹی کی مدد کی ہے اس طرح کے واقعات جنت نظیر کشمیر کے سبزہ زاروں اورکوہساروں میں روزانہ کامعمول بن چکے ہیں جہاں ہمارے جواں سالہ بیٹے اوربیٹیاں اسی طرح دیوانہ وار بڑھ کر اپنے زخمی بہن بھائیوں کی مدد کررہے ہیں انہوں نے بتایا کہ بچی کو کار پر ہسپتال پہنچایا تھا جہاں اب وہ تیزی سے روبہ صحت ہے ۔ دریں اثنا قابض بھارتی فوج نے سنگ باری سے بچنے کے لےے غیر انسانی اور وحشیانہ حکمت عملی اختیار کرکے جنگی جرائم کی انتہا کر دی ہے سری نگر میں فوج نے برسرعام گرفتار کشمیریوں کو انسانی ڈھال کے طورپر استعمال کرتے ہوئے بونٹ پر باندھ کر جیپیں سڑکوں پر لے آئی ہے تاکہ کشمیری نوجوانوں کے پتھراﺅ سے بچا جا سکے ۔ایک نوجوان فاروق ڈار نے بتایا کہ وہ جنازہ میں شرکت کے لےے جارہا تھا کہ بھارتی فوجیوں نے مجھے پکڑکرجیپ کے سامنے باندھ کر انسانی ڈھال بنالیا اور نو دیہات میں اسی طرح مجھے لے جایاگیا ان شرمناک واقعات کی تصویریں اور وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر آنے کے بعد ساری دنیا بھارتی فوج کے اس اقدام پر لعن طعن کررہی ہے۔افسوس صد افسوس پاکستانی ذرائع ابلاغ خاص طورپر اخبارات ،جودنیا جہان کا انٹ شنٹ صفحہ اول پر شائع کےے جارہے ہیں لیکن مقبوضہ وادی خاص طورپر سری نگر میں جاری بھارتی فوج کے انوکھے مظالم کی تصاویرکونمایاں کرکے شائع نہیں کررہے جبکہ پاکستان میں رائے عامہ کو بھارتی مظالم سے آگاہ کرنے کے لےے منظم مہم چلانے کی ضرورت ہے بے گناہ نوجوانوں کو پکڑ کر انسانی ڈھال بنانے انسانیت سوز حرکت پر تو بھارت نواز سابق کٹھ پتلی وزیراعلی فاروق عبداللہ اور اس کے بیٹے عمر عبداللہ بھی تلملا اُٹھے ہیں دونوں باپ بیٹے نے بھی یہی وڈیو کلپ اور تصاویر اپنے فیس بک اکاﺅنٹ پر( Upload )کرکے ان مظالم کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری فاروق عبداللہ کے والد بزرگ وار شیخ عبداللہ مرحوم پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے الحاق کی جدوجہد میں وقتی ادنی سیاسی مفادات کی وجہ سے نہرو اور کانگریس کا ساتھ دے کر ملت کشمیر کو غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیل دیا تھا محتاط اعدادوشمار کے مطابق الیکشن بائیکاٹ کے ہنگاموں میں اب تک ایک درجن افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ حرف آخریہ کہ پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے’ شاندار اورتاریخی‘ فیصلے کے بعد ذرائع ابلاغ ،خاص طور پر بے لگام اورمادرپدر آزاد سوشل میڈیا پرایک ہنگامہ برپا ہے جو جس کے منہ میں آرہا ہے بلا روک ٹوک کہے جارہا ہے ،آگے بڑھائے جارہا ہے۔جس میں دیوانوں اور فرزانوں کے تو کیا کہنے اب تو جیدبزرگ بھی اس کھیل میں شامل ہوگئے ہیں شب گذشتہ ایک ممتاز یونیورسٹی کے ریٹائرڈ وائس چانسلر سے بڑے مودبانہ طریقے سے یہ عرض کرنا پڑا کہ حضور آپ کا یہ مقام ومرتبہ نہیں کہ بلا تحقیق ،غیرمعیاری اورمشکوک اطلاعات ومعلومات کو بلا سوچے سمجھے آگے بڑھاتے جائیں جو کہ بعد میں آپ کے مقام ومرتبے کی وجہ سے سند کا درجہ حاصل کرلیں گی۔ لطائف، کارٹون، مزاحیہ وڈیو کلپ اورنجانے کیا کیا چہارسو گردش کررہا ہے جس سے جان چھوڑانا مشکل ہوجاتاہے اطلاعات و معلومات کی صوتی وبصری اس یلغارمیں بعض خاصے کی چیزیں بھی مل جاتی ہیں جس کے لےے وقت کا زیاں جزولازم ہے لاہور کی ایک ممتاز نجی یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ کے پروفیسر طیب فاروق بھٹی نے اپنی ایک علامتی نظم بھجوائی ہے جو پاناما لیکس کے حوالے سے جاری عدالتی بحران کے بعد مستقبل کی منظرکشی کررہی ہے جس میں پروفیسر بھٹی نے بروقت سیاسی اور عدالتی اُمور میں مسلح افواج کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کی طرف توجہ دلائی ہے ۔قارئین کرام مستقبل کی دہلا دینے والی پیش گوئیوں پر مبنی اس علامتی نظم کو ملاحظہ فرمائیں۔
اور اب سیٹی بجے گی
پھر کھیل جمے گا
اور دھول اڑے گی
بیچ چوراہے اب!
کپڑے دھلیں گے!
چوری کے نئے قصے
سب لوگ سنیں گے
اب پول کھلیں گے
اور ڈھول بجیں گے
اب پرزے اڑیں گے
کئی راز کھلیں گے
کچھ راز چھپیں گے
چوہدریوں کو اب انکے
منشی ہی سنیں گے!
اب خواری بڑھے گی
لوگوں کی انصاف سے
بےزاری بڑھے گی!
جے آئی ٹی چلے گی
جے آئی ٹی پٹے گی
یا جے آئی ٹی بکے گی
انصاف لٹے گا!
انصاف چلے گا ؟
یا سب کچھ چلے گا
اور تماشا بنے گا!
اب دھول اڑے گی
اور سیٹی بجے گی
پھر کھیل جمے گا
اوراب سیٹی بجے گی
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024