جب طالبان قیدی جیل توڑ کر راہِ فرار اختیار کرتے ہیں اور کسی اور ملک کے کسی اور محاذ پر قتل و غارت گری کی خاطر جا پہنچتے ہیں تو مجھے منصور حلّاج یاد آتے ہیں- صدیوں پہلے جب بغداد میں غدر مچا تھا اور ہجوم در ہجوم مظاہرین نے جیل کے پھاٹک توڑ کر قیدیوں کو رہا کر دیا تھا تب منصور حلّاج نے جیل سے فرار کی دعوت ٹُھکرا دی تھی اور وہیں بیٹھے رہے تھے-تب زمانہ اور تھا اور اب زمانہ اور ہے- تب اپنے دینی اور روحانی مسلک کی تلقین اور تبلیغ کا سرچشمہ رُشد و ہدایت تھی نہ کہ قتل و غارت -چند روز پیشترروزنامہ ”دُنیا“ میں شائع ہونے والی یہ خبر میرے ذہن میں ابھی تک تازہ ہے کہ ’بنوںجیل کی انتظامیہ نے دہشت گردوں کے حملے کے خطرے کے پیشِ نظرپندرہ انتہائی خطرناک طالبان قیدیوں کو ڈیرہ اسماعیل خان کی سنٹرل جیل منتقل کر دیا ہے- ‘ مجھے طالبان قیدیوں کے لیے بنوں جیل کے غیرمحفوظ ہونے پرکوئی حیرت نہیں-مجھے تو حیرت ڈیرہ اسماعیل خان جیل کے محفوظ ہونے پر ہے-اِس بنا پر کہ ابھی گذشتہ سال 29جولائی کودہشت گرد اِسی سنٹرل جیل ڈیرہ اسمٰعیل خان پر حملہ کر کے اپنے تین سو سے زائد ساتھی آزاد کرا لے گئے تھے- یہ لوگ یہاں سے آزاد ہو کرکس محاذ پر دادِ شجاعت دینے گئے تھے؟ کیا یہ امر حیرت انگیز نہیں کہ پاکستان کی انتہائی مستعد اور مضبوط انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے جیل خانہ جات سے دہشت گرد قیدی سینکڑوں کے حساب سے آزادکرا کے کسی اور مسلمان ملک کے کسی دُور دراز محاذ پر بھجوا دیئے جاتے ہیں اوراِس جرم کی کوئی قابلِ ذکر تفتیش نہیں ہوتی؟
مسلمان ممالک میں دہشت گردی کے مرتکب افراد کوگرفتار کر کے بظاہر تو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے مگربباطن یہ جیل خانہ جات اُنکی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔بوقت ضرورت یہ مجرم کسی اور ملک کے کسی اور محاذ پر پہنچا دیے جاتے ہیں۔اسی لیے انہیں سزا نہیں دی جاتی بس جیل خانہ جات میں بحفاظت رکھا جاتا ہے۔ اے بی سی نیوز نیٹ ورک نے خبر دی ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر لیبیا اور عراق تک جیل خانہ جات پرحملوں سے بھاری تعداد میں دہشت گرد وںکی رہائی نے انسدادِ دہشت گردی کے امریکی ماہرین کو اس امر پر غور و فکر میں مبتلا کر دیا ہے کہ بیک وقت کئی مسلمان ممالک کی یہ واردات القاعدہ کی کارستانی ہو سکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قیدخانوں پر مسلح یلغار سے رہا کیے گئے اِن قیدیوں میں القاعدہ ،عراق اورشام پر مشتمل اسلامی خلافت (ISIS)کے قیام کے لیے فتنہ و فساد میں مصروف چھ سو سے زیادہ دہشت گرد رہا کیے گئے ہیں۔اِن لوگوں نے صرف عراق میں تاجی اور ابوغرائب کے جیل خانہ جات پر حملہ کر کے قید و بند میں مبتلااپنے تمام ساتھیوں کو آزاد کرا لیا تھا۔روزنامہ” ڈان“ سے منسلک صحافی نے اپنے ایک تازہ مراسلے بعنوان :
US concerned over Al Qaeda's Great Escape-like plants
میں مسلمان ممالک کے جیل خانہ جات سے اس ”عظیم فرار “پر امریکی انتظامیہ کی تشویش کی ترجمانی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جیل خانوں پر دہشت گردوں کے اِن مسلسل اور متواتر خونیں حملوں سے رہاکرائے جانیوالے جہادیوں سے صرف جنوبی ایشیائ، مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ خود امریکہ کو بھی خطرات لاحق ہیں-گذشتہ چند ماہ کے دوران جیل خانہ جات پر چھ سو سے زائد حملوں میں زیادہ تر وہ دہشت گرد آزاد کرائے گئے ہیں جو عراق اور شام پر مشتمل اسلامی خلافت ISIS کے نام پر قتل و غارت گری میں مصروف ہیں (روزنامہ ڈان، 3نومبر2013ئ)۔ مشرق وسطی کے چند ممالک کے حکمران شام کی حکومت کو ایران ، عراق اور لبنان کے سے شیعہ اکثریتی مالک کی حمایت کے پیشِ نظر اپنے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں-چنانچہ القاعدہ کی سی دہشت گرد تنظیموں کی دامے، درمے، سخنے حمایت کر رہے ہیں- علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ’دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد-‘ اسلام کے مقدس نام پر دہشت گردی میں مصروف آج کا مُلّا فتنہ و فساد کو ہوا دینے میں فی سبیل اللہ مصروف نہیں بلکہ پیٹرو ڈالر کمانے کی خاطر مسلمانوں کے قتلِ عام میں مصروف ہے-
یہ حقیقت تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی سترہ منٹ کی حالیہ ویڈیو ریکارڈنگ (بحوالہ روزنامہ ڈان بابت یکم دسمبر2013ئ) سے اظہرمن الشمس ہے کہ دہشت گردوں اور مسلمان ممالک کی حکومتوں کے درمیان اصل جھگڑا نظامِ حکومت کا ہے۔ دہشت گرد اسلام کے نام پر خاندانی بادشاہت کے حامی ہیں اور ہر طرح کے جمہوری عمل کیخلاف ہیں - یہ لوگ شریعت کے مقدس نام پر سلطانی¿ِ جمہور کے ہر تصور کو رد کرتے ہیں۔ ایسے میں اِن لوگوں سے مذاکرات کیونکر ممکن ہیں؟ ہمیں اِس ابدی حقیقت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک عوامی جمہوری تحریک نے ووٹ کی پرچی کے زور پہ قائم کیا تھا- اسلامیانِ ہند نے قیامِ پاکستان کوعلماءکی بھاری اکثریت کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود ممکن بنایا تھا۔ اِس لیے پاکستان میں جمہوری عمل کے فروغ و استحکام پر قطعاً کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ اِسی طرح طالبان کی مذاکراتی ٹیم کا یہ مطالبہ بھی ہماری قومی قیادت کوہوش کے ناخن لینے کی اہمیت جتلانے کو کافی ہے کہ طالبان کو پاکستان کی سرحدوں کے اندر ایک خطہءامن (Peace Zone) عطا کر دیا جائے-یہ کیونکر ممکن ہے کہ دہشت گردوں کو اسلامی جمہوریہءپاکستان کے اندر ایک اسلامی امارتِ خراسان عطیہ کر دی جائے؟اِس طرح کے مطالبات کو زیرِ بحث لانے سے تو یہ کہیں بہتر ہے کہ قید و بندمیں مبتلا دہشت گردوں کو عدل و انصاف کے مسلّمہ معیار کے مطابق جلد از جلد سزائیں دی جائیں اور کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان کے اِس مطالبے کو فی الفور پورا کر دیا جائے کہ جیل کی سیکیورٹی فوج کے سپرد کر دی جائے-امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج الحق نے اپنی 18- اپریل کی پریس کانفرنس میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے جن مطالبات کی ایک بار پھر حمایت کی ہے اُن میں سے دو مطالبات حیران کُن ہیں- اوّل یہ کہ تین سو طالبان قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے اور دوم یہ کہ طالبان کو ایک خطہءامن (Peace Zone) عطا کر دیا جائے- اسلامی عدل و انصاف کے قوانین کے مطابق کسی ایک قیدی کو بھی عدالتی کارروائی کے بغیر رہا نہیں کیا جا سکتا- اِسی طرح خطہءامن عطا کر دینا گویا کالعدم تحریکِ طالبانِ پاکستان کو عدم سے وجود میں لے آنے کا نُسخہ ہے-یہ تو تبھی ممکن ہے جب طالبان غیرمشروط طور پر ہتھیار پھینک دیں اور بانیانِ پاکستان کے اسلامی جمہوری مملکت اور معاشرے کے تصورات پر ایمان لے آئیں اور مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کے اِس پیغام کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنا لیں:
آدمیت ، احترامِ آدمی
باخبر شو از مقامِ آدمی
بندہءحق از خُدا گِیرد طریق
مے شود بر کافر و مومن شفیق
اگر طالبان دینِ حق سے پھوٹنے والے اِس روحانی پیغام کو اپنا دینی مسلک بنا لیتے تو پھر وہ انسانی سروں کو کاٹ کر فٹ بال کھیلنے کا سوچ بھی نہ سکتے!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024