بھارت کی نامور خاتون صحافی برکھا دت نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک مضمون میں مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے دو واقعات کا بڑی درمندی سے ذکر کیا ہے۔ پہلے واقعہ میں امرناتھ (ہندو مذہب کا ایک مقدس غار جہاں ایک فربانی شیولنگ ہر سال بنتا ہے) یاترا کو جانے والے یاتریوں پر فائرنگ کرکے 7 یاتریوں بشمول 6 خواتین کو ہلاک اور 15 کو زخمی کردیا گیا تھا۔ دوسرے واقعے میں ایک مسلمان سینئر پولیس افسر کو شب قدر میں ایک ہجوم نے مار کر ہلاک کردیا۔ اس موقع پر مجمع کسی ذاکر موسیٰ کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے جو بقول صحافی کے ایک ایسا لیڈر ہے جو خلافت قائم کرنا چاہتا ہے اور ہر اس حریت پسند کا مخالف ہے جو آزادیِ کشمیر کو صرف ایک سیاسی مسئلہ سمجھتا ہو۔موصوفہ نے ان دونوں واقعات کو آزادیِ کشمیر کی تحریک میں ایک نازک موڑ قرار دیا ہے۔ پہلے واقعہ کو لشکر طیبہ کی کارروائی قرار دیکر پاکستان پر اس کی پشت پناہی کا الزام لگایا ہے اور ساتھ ہی کیونکہ حملہ یاتریوں پر ہوا جومذہبی تقریب میں شرکت کیلئے جارہے تھے اس سارے واقعے کو مذہبی رنگ بھی چڑھا دیا گیا۔
دوسرے واقعے میں بھی کیونکہ ایک مسلمان پولیس افسر کو ایک ایسے ہجوم نے بیدردی سے قتل کیا جو خلافت کے حامی ذاکر موسیٰ کے حق میں نعرے لگا رہے تھے لہٰذا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آزادی کی تحریک کو ایک بنیاد پرست، وہابی اور سلفی تحریک بنایا جارہا ہے جو ان لوگوں کا سر قلم کردیگی جو مسئلہ کشمیر کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ برکھا دت آگے چل کر لکھتی ہیں کہ ان واقعات سے کشمیر کی آزادی کی حقانیت (Legitimacy) پر حرف آیا ہے۔ ساری کشمیر تحریک اُن کے نزدیک دہشت گردی کی نذر ہوگئی ہے۔ چنانچہ وہ سوال کرتی ہیں کہ کیا گاندھی کی سرزمین میں کوئی بھی ایک کشمیری لیڈر ایسا نہیں ہے جو عدم تشدد کا پیروکار ہو؟ موصوفہ برہان وانی کو دہشت گرد قرار دیتی ہیں اور اس خواہش کا اظہار کرتی ہیں کہ کشمیریوں میں کوئی اروم شرمیلا کیوں نہیں ہے جس نے منی پور کی ریاست میں فوج کو بھیجا اختیارات تفویض کرنے اور ان کے استعمال پر تحفظ (Immunity) کی فراہمی پر دنیا کی طویل ترین 16 سالہ بھوک ہڑتال کی (گرفتاری کے بعد اسے سانس کی نالی سے غذا فراہم کی جاتی رہی) جو گزشتہ سال جون میں یہ کہہ کر ختم کردی کہ وہ ہڑتال سے کچھ نہیں حاصل کرسکیں۔ اور وہ اب ریاستی اسمبلی کا انتخاب لڑ کر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ موصوفہ مزید لکھتی ہیں کہ اس عدم تشدد کے رویہ کے برخلاف کشمیر کی تحریک پاکستان سے برآمد شدہ دہشت گردی کے حوالے کردی گئی ہے۔ اس تناظر میں ہندوستان میں لبرل سوچ کا حامل طبقہ جو کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھاتا رہا ہے (مثلاً 1980 کے انتخابات میں دھاندلی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مرکزی حکومت کی سیاسی کوتاہ نظری وغیرہ کے سلسلے میں) اُس کا مو¿قف کمزور ہوا ہے۔
قبل اس کے کہ ہم موصوفہ کے خیالات پر اظہار خیال کریں، یہ ضروری ہے کہ متذکرہ واقعات کے صحیح حقائق کو سمجھ لیں۔ یاتریوں پر حملے پر انڈین ایکسپریس اپنی 12جولائی کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ 10 جولائی کو ایک بس 56 مسافروں کو لیکر سرینگر جموں سڑک پر جارہی تھی جو اننت ناگ کے قریب واقع بوتینگو کے مقام پر فائرنگ کی زد میں آگئی جس کی وجہ سے قیمتی جانوں کا نقصان ہوگیا اور کچھ مسافر زخمی بھی ہوگئے ۔ ابتدائی رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ شدت پسندوں اور پولیس کے درمیان یکے بعد دیگر دو چوکیوں پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے لیکن اس رپورٹ میں بس پر حملے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ NDTV کی 12 جولائی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بس نے ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے۔ بس کو حادثہ 8 بجے رات کو پیش آیا۔ اس مسافر بس کی نہ کوئی اطلاع دی گئی تھی اور نہ 7 بجے رات کے بعد مسافر بسوں کو سفر کرنے کی اجازت ہے۔ علاوہ ازیں یہ بس حکومت کی منظور شدہ یاتریوں کیلئے چلائی جانے والی سروس کا حصہ نہیں تھی۔ لہٰذا اس کو وہ تحفظ بھی حاصل نہیں تھا جو اس سروس کی بسوں کو مہیا کیا جاتا ہے۔ لائیو منٹ ویب سائٹ نے اپنی 11 جولائی کی رپورٹ میں متذکرہ حقائق کی تصدیق کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے وزیرداخلہ نعیم اختر نے حادثے کے فوراً بعد ایک بیان میں اس کی ساری ذمہ داری ابو اسمعٰیل پر ڈال دی صرف یہ کہہ کر کہ وہ لشکر طیبہ کا مقامی کمانڈر ہے اور اس علاقے میں سرگرم ہے۔ یہ ایک سیاسی بیان تھا جو کسی تحقیقاتی رپورٹ پر مبنی نہیں تھا۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ حریت پسندوں کے کسی گروپ نے اس واقعے کی نہ صرف ذمہ داری قبول نہیں کی بلکہ اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
دوسرے واقعے میں نیویارک ٹائمز نے اپنی 23 جون کی اشاعت میں اس واقعہ کی تفصیلی رپورٹ میں بیان کیا ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ اس واقعے سے متعلق کوئی مصدقہ رپورٹ نہیں ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق پولیس آفیسر محمد ایوب پنڈت شب قدر کو مسجد میں نماز پڑھنے آئے جہاں میر واعظ عمر فاروق تقریر کررہے تھے۔ کیونکہ ان کا تعلق مقامی آبادی سے نہیں تھا جلد ہی لوگ انہیں مشتبہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ آہستہ آہستہ ایک ہجوم جمع ہوگیا جس کا رویہ جارحانہ ہوتا گیا۔ اس موقع پر ایوب پنڈت نے اپنے دفاع میں پستول نکال لیا اور فائر کھول دیا جس سے تین افراد زخمی ہوگئے۔ ایک دوسری اطلاع کے مطابق ایوب ایک ساتھی کے ساتھ آیا تھا اور وہ اطراف کی تصویریں بنا رہے تھے۔ لوگوں کو محسوس ہوا کہ وہ سی آئی ڈی کے اہلکار ہیں جس کے بعد ہجوم نے انہیں گھیر لیا اور کچھ دیر بعد جھگڑا شروع ہوگیا اور مجمع نے بالآخر ایوب کو بیدردی سے قتل کردیا۔ ایک اور اطلاع کے مطابق لوگوں کا خیال تھا کہ ایوب مولوی فاروق کو قتل کرنے آیا تھا اور اس کا تعلق ملٹری سے تھا، جو صحیح بات نہیں تھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ انتظامیہ اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی کا شاخسانہ ہے۔ میر واعظ عمر فاروق نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایسے واقعات ہمارے دین کیخلاف ہیں۔
لیکن ہمارے لئے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ موصوفہ کی نظروں میں آزادیِ کشمیر کی اسلام سے وابستگی کھٹک رہی ہے۔کیا وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ کشمیر ایک مسلمان اکثریت والی ریاست ہے اور تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ تقسیم ہند کے اصول کے تحت اس کو پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ لیکن ہندوستان 70 سال سے اقوام متحدہ سے کیے گئے استصواب کرانے کے وعدے کے باوجود صرف اور صرف ننگی طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ان کی زمین پر قابض ہے۔ 7لاکھ فوج جو اس کی کل فوج کا نصف ہے وہاں تعینات کررکھی ہے۔ جس کے مظالم کی داستان کسی موجودہ مہذب دنیا سے معلوم نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کا لبرل طبقہ ابھی آزاد سوچ کی اُس معراج کو نہیں پہنچا جہاں مجبور اور مقہور لوگوں کی حمایت بلا رنگ ، نسل، مذہب اور جغرافیہ کی جاسکے۔ ایک واحد استثنیٰ وہ منحنی اور جری خاتون ہے جس کا نام ہے اروندھتی رائے ہے اور جس نے ہندوستانی فوج کی بربریت اور ظلم و ستم اور کشمیریوں کی ناقابل بیان حالت زار کا اپنی آنکھوں سے مطالعہ کیا اور 2010 میں حریت رہنما سید علی گیلانی کیساتھ ایک سیمینار میں کھل کر آزادیِ کشمیر کا مطالبہ کیا اور اس کے جواب میں حکومت نے اس پر بغاوت کا مقدمہ بنادیا۔ گو اس کا ضمیر ابھی بھی تحریک کے ساتھ ہے ، لیکن چند دن پہلے اُن سے منسوب ایک بیان میں جس کی بعد میں تردید ہوگئی تھی (اور جس میں مبینہ طور پر کہا گیا تھا کہ بھارت 5 لاکھ کی جگہ کشمیر میں 50 لاکھ بھی فوج لگا دے وہ کشمیریوں کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتا) اس کے جواب میں بی جے پی کے ایک موجودہ ایم پی پریش راول نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ”اروندھتی رائے کو کشمیر میں کسی فوجی جیپ میں ٹانگ کر ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کیا جائے“۔ اچھی بات یہ ہے کہ ٹویٹ کی دنیا میں اس سے بھونچال آگیا اور موصوف کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھ کر یہ تو ممکن ہے کہ مغرب کے ذہن کو کشمیری تحریک سے بدظن کیا جاسکے، لیکن اس سے حقیقت کو نہیں بدلا جاسکتا، قابل اعتراض بات یہ ہے کہ ہندوستان کی نامور لبرل شخصیات اس مذموم کام میں شریک ہیں، جیسا موصوفہ نے یہ مضمون لکھ کر کیا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ افسوس کررہی ہیں کہ انہیں کشمیر کی تحریک میں کوئی اروم شرمیلا جیسا فرد نظر نہیں آتا، جو عدم تشدد کا پرچاری ہو ۔ یہاں پھر ہمیں حیرت کا سامنا ہے انہیں حریت کانفرنس کے رہنما نظر نہیں آتے، جن کی مزاحمت مکمل طور پر پُرامن ہے اور وہ کسی تشدد کی حمایت نہیں کرتے اور اس سے بڑھ کر حریت کے 87 سال بزرگ رہنما سید علی گیلانی نظر نہیں آتے، جن کی زندگی کا بڑا حصہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد اور نظر بندی میں گزرا ہے اور اس میں کئی مرتبہ الیکشن کی سیاست اور اسمبلی کی رکنیت بھی شامل ہے۔ کیا اس قسم کی سیاست کشمیریوں کو ان کی آزادی دلانے میںیا بھارتی فوج کے ظلم و تشدد میں کمی کرانے میں کامیاب ہوئی ہے؟ انہیں وہ معصوم بچیاں بھی نظر نہیں آئیں جن کے سکول اور کالجز میں فوجی داخل ہوگئے اور جس کے ردعمل میں وہ بھی پُرامن احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل آئیں لیکن بھارتی فوج نے اُن کو بھی اسی طرح تشدد کا نشانہ بنایا جیسا وہ مردوں کیساتھ کرتی ہے۔ سید گیلانی نے گزشتہ سال شروع ہونے والی احتجاجی لہر کے دوران ، امن کی خاطر اقوام متحدہ کو خط لکھ کر بحالیِ اعتماد کے اقدامات تجویز کیے جس میں آرمڈ فورسس (اسپیشل پاورز) ایکٹ (AFSPA) اور پبلک سیفٹی ایکٹ کا خاتمہ اور ضمیر کے قیدیوں کی رہائی جیسے مطالبات شامل تھے، لیکن بھارتی حکومت نے ان کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ جب معقولیت اور گفت و شنید کے سارے راستے بند کردئیے جائیں تو لوگ داد و فریاد لیکر اور کہاں جائیں۔
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024