اندیشہ ہے‘ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ بات کو افسانوی موڑ دینا تو آسان کام ہے لیکن معنوی رنگ دیں تو کینوس پر کئی رنگ بکھر جاتے ہیں۔ سیانوں کی ایک بات ابتدا میں کر دیں کہ آدمی کی پہچان بہرحال یہ نہیں کہ آسودگی اور آسائش میں وہ کہاں کھڑا تھا بلکہ پہچان اس سے بنتی ہے کہ زمانہ بحران اور متنازعہ حالات میں اس کا مقام کیا رہا؟ جی! بات یہ بھی ہے کہ کامیاب آدمی ہونے کے بجائے پروقار اور مفید آدمی ہونا زیادہ بڑی سعادت اور راحت ہے۔ جیسے آزمائشیں آدمی کو انسان بنا دیتی ہیں اسی طرح یہی آزمائشیں انسان کو لیڈر بنا دیا کرتی ہیں۔ درجہ بالا باتوں کا تعلق صرف بلاول بھٹو زرداری سے نہیں‘ ان کا تعلق مقبولیت کا زعم رکھنے والی (ن)لیگ سے بھی ہے اور مقبولیت کے عروج پر موجود عمران خان کے لئے بھی اندھیروں کی باسی بن جانے والے ق لیگی قیادت کے لئے بھی یہی باتیں ہیں۔ زیرک سیاستدان مولانا فضل الرحمان کی خدمت میں اور جدوجہد کی شاہراہ پر گامزن جماعت اسلامی کے لیڈر سراج الحق کیلئے بھی یہی گزارشات ہیں۔ اخلاص اور اقدار سے خالی سیاست بے رنگ‘ بے بو اور بے ذائقہ معاملہ ہوا کرتا ہے۔ پھر یہ سیاست فریب کا رنگ روپ دھار لیتی ہے۔ اسی لئے آغاز میں اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی‘ صرف بلاول بھٹو زرداری تک محدود نہیں رہے گی۔ بلاول کے ایکو سسٹم میں بڑے بڑے عالم فاضل حتیٰ کہ ’’تباہ کن‘‘ سیاستدان موجود ہیں۔ کچھ اور سیاسی پنڈتوں کا قد کاٹھ اور کچھ بلاول بھٹو زرداری کی شہزادگی کی دیواریں بہت اونچی ہیں۔ اوپر سے بلاول کو اردو ٹاک شوز اور اردو کالموں کی سمجھ بھی کہاں تک آئے گی؟ نہیں یہ پی پی پی کے لئے مایوسی کا معاملہ نہیں‘ یقیناً پی پی پی بھی حسن ظن رکھتی ہے اور ہم بھی۔ یہ سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویزاشرف جیسے سابق وزرائے اعظم‘ سید خورشید شاہ جیسے عوامی اپوزیشن لیڈر پھر نیر بخاری‘ نوید قمر اور اعتزاز احسن جیسے پارلیمانی آفتاب وماہتاب اپنی قیادت کے کان اور زبان بھی تو ہیں۔ چن ویر اور کائرہ صاحبان سے نثار کھوڑو‘ ہمایوں خان (کے پی کے)‘ علی محمد جتک (بلوچستان) اور چودھری لطیف اکبر و خواجہ طارق سعید (آزادکشمیر) تک سبھی ترجمان‘ مربان اور سیاستدان ہیں‘ یقیناً یہ سب بھی قیادت اور گراس روٹ سپورٹرز (یا عوام) کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوں گے‘ (اگر قیادت سننے اور سنانے کے موڈ میں ہو!) جولوگ کان اور زبان ہیں، اگر وہ کان بھرنے میں لگ گئے‘ زبان کو بس ’’زبانی کلامی‘‘ اقدامات ہی تک محدود رکھا تو مستقبل میں مشکل ہوگی۔ ہاں یہ درست ہے کہ قیادت کی جان میں جان آئی ہے۔ بلاول ہائوس کے تاسیسی میلہ لاہور اور اب لاہور سے فیصل آباد تک کی ’’پنجاب جگائو پاکستان بچائو‘‘ ریلی میں کارکنان کے حقیقی جوش وخروش نے ثابت کر دیا ہے کہ فاتح پنجاب بننا اگرچہ بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ بشرطیکہ یہ کان اور زبان افراد اپنا کردار ادا کریں۔ کسی ریلی کو کوئی بھی نام دیا جائے یا کہیں کوئی بھی دھرنا شرنا ہو یہ سب الیکشن 2018ء کی تیاریاں ہیں۔ الیکشن کو الیکشن ہی کی طرح لڑا جاتا ہے‘ پھر یہ بات سولہ آنے سچ ہے کہ ن لیگ مقبولیت کی انتہائوں کو چھوئے ہوئے ہے اور عمران خان اس پاپولر لیڈر کی جگہ لے چکے ہیں جو محترمہ بینظیربھٹو کے بعد خالی ہوچکی تھی۔ الیکشن کی دوڑ میں -1عوامی آواز‘ -2 مخالف اور حامی جماعتوں کی قیادت کی بازگشت اور -3 میڈیا کی نوحہ گری اور نغمگی کا سربراہ کے کانوں اور دماغ تک پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کیا بلاول تک کوئی ترجمان انگریزی ترجمہ یا میڈیا وعوام کی آواز پہنچاتا ہے؟ کوئی میڈیا سیل ایسا تردد کرتا ہے؟ اگر ایسی کاوش نہیں تو کچھ بھی نہیں!!! پی پی پی نشرو اشاعت کی نئی نئی ذمہ داری چودھری منظور (مرکزی) کو ملی ہے دیکھتے ہیں اب اللہ کو کیا منظور ہے۔ خود جناب قمر زمان کائرہ‘ سعیدغنی‘ نوید چودھری‘ مولابخش چانڈیو اپنی ذات ہی تک محدود ہیں۔ خود ہی میڈیا‘ خود ہی مبصر‘ خود ہی ممتحن‘ خود ہی طالب علم‘ خودہی امتحان اور خود ہی رزلٹ۔ شیری رحمان اور کائرہ صاحب جیسے 32ویں گریڈ کے آفیسرز اور 64ویں گریڈ تک کی رسائی کے زعم میں رہتے ہیں۔ الیکشن 2013ء کی پی پی پی کی عبرتناک شکست کے پیچھے آدھی درجن اہم وجوہات تھیں: (1) سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چودھری کا قدم قدم پر حکومت کو ٹف ٹائم دینا حتیٰ کہ وزیراعظم گیلانی کو گھر بھیج دینا‘ (2)میڈیا کی خصوصی ’’محبت‘‘ (3) دہشت گردوں کا پی پی پی کے خلاف براہ راست بعض‘ (4) اسٹیبلشمنٹ کی روایتی جانبداری‘ (5) عالمی منڈی میں تیل اور خوردنی تیل کے آسمان سے باتیں کرکے نرخ کے علاوہ ڈالر کی قیمت کا زیادہ ہونا‘ (6)عاقبت نااندیش میڈیا معاملات اور کچھ زرداری صاحب کے معاملات۔ یاد دلاتے چلیں کہ لاہور تا فیصل آباد براستہ شیخوپورہ ریلی کی گزر گاہیں کبھی پی پی پی کا گڑھ تھیں۔ آج لاہور‘ فیصل آباد اور شیخوپورہ میں پی پی پی کا صفایا ہے۔ چھوڑیں یہ باتیں‘ آپ کے چارج شدہ کارکنان دیکھ کر ہمیں تو کارکنان پر رشک بھی آیا اور ترس بھی۔ فیصل آباد شہر میں اور اس کی تحصیلوں علاوہ بریں فیصل آباد ڈویژن کے اضلاع میں آج مسلم لیگ(ن) کا راج ہے۔ اس اہم ڈویژن کی تو اب تک امیدواران میں ٹکٹیں بھی تقسیم ہو جانی چاہئیں تھیں یا کم ازکم پارلیمانی کمیٹی بن چکی ہوتی تو رانا فاروق سعید (سابق وفاقی وزیر) اور سابق صوبائی وزیر نیلم جبار چودھری کو اتنی محنت سے زیادہ ثمرات مل جاتے۔ اس حوالے سے راجہ پرویزاشرف سے بات ہوئی تو انہوں نے مرکزی اور صوبائی نومنتخب قیادتوں کو خراج تحسین پیش کیا لیکن میرا مؤقف بہرحال یہ ہے کہ نئی قیادت جس کا تعلق پنجاب سے ہے ان کے لئے ہنوذ دلی دوراست تاہم آرگنائزنگ کمیٹی جو وسطی اور جنوبی پنجاب پرمشتمل تھی جس میں دو سابق وزرائے اعظم‘ رانا فاروق سعید‘ چودھری منظور اور مخدوم احمد محمود وغیرہ کی رابطہ مہم نے پنجاب کی اس نئی لہر کے لئے کافی حد تک کام آسان کر دیا تھا۔ اہل پی پی پی کو جانے یاد ہے کہ نہیں الیکشن 2008ء کے بعد مسلم لیگ(ن) پی پی پی پنجاب حکومت کے اشتراک میں پی پی پی کے سات وزراء میں سے تین کا تعلق فیصل آباد ڈویژن سے تھا۔ سابق سینئر وزیر راجہ ریاض تو تحریک انصاف کو پیارے ہوگئے‘ یہی اشرف سوہنا کے ساتھ ہوا۔ تاہم نیلم جبار چودھری کے گھر پر جھنڈا اس وقت بھی تھا جب مجھے اٹک سے رحیم یارخان تک کے سفروں میں کہیں اور نظر نہ آیا۔ سابق صوبائی وزیر حاجی اسحاق کا نہیں معلوم کہ ابھی جاگے ہیں یا نہیں؟ البتہ پڑوس ضلع جھنگ سے فیصل صالح حیات کی پی پی پی میں آمد‘ تحصیل کمالیہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے خالدکھرل کی واپسی سے جیالوں کو تقویت ملے گی۔ پنجاب کے ان 7وزراء میں سے ثمینہ گھرکی کا رشتہ دار تو مسلم لیگ(ن) میں چلا گیاتھا۔ بہرحال تنویراشرف کائرہ اور نیلم جبار چودھری کے مخالفین بھی ان پر کرپشن یا وفاداری بدلنے کے الزامات نہیں لگا سکتے۔ ساتویں وزیر ڈاکٹر تنویرالاسلام بھی اس ریلی میں اچانک نمودار ہوئے اور ٹرک کا ڈنڈا ہاتھ لگنے کے سبب ٹرک پر چڑھے بھی۔ المختصر‘ بلاول بھٹو کا عزم‘ استقامت‘ فراست اور ذہانت سرپرائز دینے کے در پے ہیں۔ جاتے جاتے انہیں ایک بات بتادیں کہ بھٹو ازم کے پیدائشی مخالف اور بینظیربھٹو کے انتہائی مخالف شیخ رشید نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ پورے ملک میں ایک بھی انگلی نہیں جو ذوالفقارعلی بھٹو پر اٹھ سکے کہ اس نے کرپشن کی تھی۔ بلاول آزمائشوں سے سیکھیں اور ان بحرانوں میں اپنا لوہا منوائیں۔ سرے محل‘ سوئزرلینڈ اکائونٹس اور پاناما لیکس جیسے دھندوں سے دور رہیں۔ اگر وہ پروقار اور مفید لیڈر بن گئے تو کم عمری یا مخالفتیں ان کا راستہ نہیں روک سکیں گی۔ خالی نعرے تو 1970ء سے لگ رہے ہیں‘ اب عمل ہوگا تو آپ کی بات کی اور آپ کی حقیقت ہوگی۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے!!!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024