اگرچہ سیاست میں منافقت، الزام تراشی اور بہتان بازی آج کل جس بلندی پر ہے اس پر بلندی خود پستی میں چلی گئی ہے تاہم مجھے آج برادرم سعید آسی کے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کہنے پر مجبور ہونے کی بہت شدت سے یاد آ رہی ہے کہ سیاستدان اپنی سیاست کےلئے عدلیہ کا کندھا استعمال نہ کریں کیونکہ اب بہت سے سیاستدان سابق وزیراعظم نواز شریف کا کندھا استعمال کر کے آئین میں ایسی اکھاڑ پچھاڑ کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں جس سے نظریہ پاکستان کا گلا گھونٹ دینے کی مکروہ سازش کی بدبو آ رہی ہے اس توڑ پھوڑ سے نواز شریف یا ان کی جماعت کو عملاً کوئی فائدہ نہیں ہوگا مگر نظریہ پاکستان کے مخالفین اور اسلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنےوالے بھارت کے جانے پہچانے ایجنٹ مرزا قادیانی کے پیروکار اور پاکستان کے قیام کو روزاول سے قبول کرنے کی بجائے اسکی مخالفت کرنیوالے اور قائداعظم پر کفر کے فتوے لگانے والے ملک کو لوٹنے والے یہاں رائج اقدار کی بربادی کے ایجنڈے پر عمل کرنیوالے سبھی اس وقت آئین کی دفعہ 62 اور 63 کو ختم کرنے اور کرانے اور نواز شریف کا کندھا استعمال کر کے اسے برا بھلا کہنے والے سبھی ایک پیج پر نظر آتے ہیں اور بہت متحرک ہو گئے ہیں۔
سینٹ کی چیئرمینی جب سے رضا ربانی کے پاس آئی ہے‘ وہ ہر کام اور اداروں کی کارکردگی میں مین میخ نکالتے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کر کے اس آئین کا حلیہ بگاڑ دینے کے بعد جنہیں اسکے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے بڑے تفاخرانہ انداز سے قوم کو تحفہ دیا تھا اور جسے اس اعتبار سے متفقہ آئینی ہونے کا اعزاز تھا کہ اس پر پاکستان کی تاریخ کی سب سے قد آور اپوزیشن کے ارکان نے دستخط کر کے اسے متفقہ بنایا تھا۔ بھٹو زندہ ہوتا تو ایسے ”دانشور“ کو شاید پیپلز پارٹی سے نکال دیتا ۔ جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مفتی محمود زندہ ہوتے تو اپنے اقتدار کے عاشق بیٹے کو ایک بار ضرور بتاتے کہ تیرا باپ تو اتنا اصول پسند تھا کہ بلوچستان کی حکومت توڑنے پر رد عمل کے طور پر صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ کے منصب کو جوتے کی نوک پر لکھا تھا۔ اسفند یار ولی کے والد بھی اپنے بیٹے کو اپنے سیاسی کردار سے ضرور آگاہ کرتے یا اتنا ہی بتا دیتے کہ ظلم و نا انصافی کے خلاف تو تمہاری ماں تک میدان میں آ گئی تھی تم پہلے زرداری اور پھر اسکے مخالف نواز شریف دونوں کے یکساں حامی بن کر اپنی سیاسی شناخت کو پسپائی کے کفن میں لپیٹ کر کیوں دفن کر چکے ہو۔
اداروں کو مضبوط بنانے والے پھیکے بیانات‘ سن سن کر لوگوں کے کان پک چکے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کو اپنی پارلیمنٹ کے وقار کا بھی خیال نہیں وہ پارلیمنٹ کو جتنی اہمیت دیتے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسے ذاتی گروہی اور سیاسی مفادات اٹھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ذرا پارلیمنٹرین کی پارلیمنٹ میں حاضری کے اعداد و شمار کو سامنے لائیے۔ وزیراعظم اور وزراءکے پارلیمنٹ کے اجلاس اٹینڈ کرنے اور وہاں انکی سنجیدگی کا تجزیہ تو کیجئے جب اپوزیشن کی طرف سے کوئی یلغار ہو تو اسے پارلیمنٹ پر یا جمہوریت پر حملہ قرار دیکر دو تین دن کیلئے متحرک ہو کر اس یلغار کو ناکام بنانے یا اس کا اثر ختم کرنے یا کم کرنے کا ہدف ہی ان کا اکلوتا ہدف ہے۔ قانون سازی میں پارلیمنٹرین کی دلچسپی سے کون ناواقف ہے مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ پارلیمنٹرین کے ایسے روئیے سے پارلیمنٹ کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے واحد متفقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی پارلیمنٹ کو واقعتاً اہمیت دینے اور سب سے زیادہ اجلاس اٹینڈ کرنے کا عمل بھی انکی اپنی جماعت کے ارکان کو بالعموم اور وزراءکو بالخصوص اپنی روش بدل کر پارلیمنٹ میں آنے اور اسے اہمیت دینے کےلئے ہرگز ہرگز کامیابی حاصل نہ کر سکا اور پارلیمنٹ کی وہی بے ڈھنگی چال جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘ والی بات نہ بدل سکا۔
ایک طرف سینٹ کے چیئر مین یہ اعتراف کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے نہیں لیااور پارلیمنٹ سے باہر فیصلے ہوتے رہے۔ اس سلسلہ میں انہیں بالخصوص یہ شکایت ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر فیصلے کرنے کی بجائے آل پارٹیز کانفرنسیں بلا کر فیصلے ہوتے رہے۔ پارلیمنٹ کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اس سلوک میں جن میں ان کی اپنی پیپلز پارٹی بھی ہمیشہ شامل رہی ہے انکی بقراطیت جب یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ کبھی عدلیہ اور کبھی آمریتوں کی طرف سے پارلیمنٹ پر حملے ہوتے رہے بلاجواز الزام ہے۔ موصوف جس جماعت سے ہیں اسے تو وہ قائل نہ کر سکے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں نہ جائے اور پارلیمنٹ سے باہر فیصلے نہ کریں اب اگر انکی اپنی جماعت سمیت کوئی نہیں سنتا تو پنجابی محاورہ کیمطابق ”ڈگا کھوتی توں تے غصہ کمہار تے“ یعنی گرا گدھی پر سے اور غصہ کمہار پر اتار رہا ہے۔ وزیراعظم اور وزراءکی پارلیمنٹ میں عدم موجودگی سوالات کے بروقت جواب نہ دینا‘ وزیراعظم کی طرف سے پریس کانفرنس قوم سے خطاب اور عوامی اجتماعات کو اہمیت دینے کی بھی بڑی شکایت ہے۔
بندہ پوچھے کیا یہ سارا کچھ فوج کے حکم پر ہو رہا ہے یا اس سلسلہ میں کسی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ وزیراعظم یا انکے وزیر پارلیمنٹ میں نہ جائیں وہاں پالیسی بیان نہ دیں۔ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں بلکہ پارلیمنٹرین کی طرف سے پارلیمنٹ کی خود بے توقیری، وزیراعظم اور اسکی کابینہ کی طرف سے اس ادارے کی تضحیک و تذلیل والے سارے معاملات کا ملبہ فوج، عدلیہ یا آمریت پر ڈالنے والے شخص کے تو پارلیمنٹ کارکن رہنے پر سوالیہ نشانات ہی نہیں بلکہ اسکے فاتر العقل ہونے اور اس وجہ سے رکنیت ختم کرنے کی آئین کی شق 63 الف پر عملدرآمد کی درخواست دی جا سکتی ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے مگر جہاں سینٹ کا چیئر مین اپنی تین سالہ کارکردگی میں سوائے انتشار اور لایعنی باتوں کے کچھ پیش نہ کر سکے جس کا اتنا بھی احترام نہ ہو کہ اسکی وزراءکو سینٹ کے اجلاس میں لانے کی ہر تدبیر، دھمکی، استعفیٰ، ناراضگی، غصہ، بائیکاٹ کچھ بھی کام نہ آئے‘ تو اسے اپنی اہلیت تسلیم کر کے گھر چلے جانا چاہئے۔ احتجاج کا جو انوکھا انداز رضا ربانی نے اختیار کر کے اپنی سبکی میں اضافہ کیا وہ سینٹ کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کو مالیاتی معاہدوں سے آگاہ نہ کرنے اور عالمی معاہدوں کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کی بھی شکایت ہے مگر یہ کام وہ اپنی جماعت سے کیوں نہ کرا سکے جس نے پانچ سال حکومت کی اور ازاں بعد نواز شریف کی بی ٹیم کے طور پر اسے ہر بحران سے بچایا، باریاں طے کرنے والے اگر ان معاہدوں کو پارلیمنٹ میں نہیں لاتے تو یہ کسی فوجی یا جج کے دباﺅ کی وجہ سے نہیں‘ ذاتی اور گروہی مفادات کی وجہ سے ہے اسلئے سینٹ کے چیئر مین اپنی باتوں سے لوگوں کو بیوقوف نہ بنائیں ان کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔ اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکائت۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024