پاکستان اس وقت ایک ایسا ’’ طلسم ہوشربا ‘‘ بنا ہوا ہے جہاں پر نئے دور کے ’’ سیاسی جادوگروں ‘‘ نے اپنے کمالات سے ’’ پرانے عہد ‘‘ کے ’’ سامری جادوگروں ‘‘ کو مات دے رکھی ہے۔ ’’ سامری جادوگر ‘‘ تو اپنے جادو سے انسانوں کو پتھر کی مورتیاں یا شہزادوں اور شہزادیوں کو چرند پرند بنا کر طلائی پنجروں میں قید کر کے اپنے طلسم کدوں میں سجا لیا کرتے تھے جبکہ آج کے ’’ سیاسی جادوگر ‘‘ اپنے جنتر منتر سے ایسی قیامتیں اور عذاب ڈھا رہے ہیں کہ کسی کو بھی پل بھر کیلئے آرام و سکون میسر نہیں ہے۔ ایک طرف آگ اور خون کی ہولی رچی ہے تو دوسری طرف مہنگائی کا بھوت ’’ آدم بو … آدم بو ‘‘ کی ہڑبونگ مچا کر انسانوں کو ہڑپ کر رھا ہے۔ اس کے ساتھ لوڈشیڈنگ کے اندھیروں نے ہمیں تاریک راہوں کا مسافر بنا رکھا ہے۔کہیں سے روشنی کی کوئی کرن نمودار ہوتی ہے تو دوسرے ہی لمحے ’’ سیاسی جادوگر ‘‘ اسے اپنی ’’ سیاہ …ست‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ نجانے کب ہماری زندگی میں امیدوں کے جگنو چمکیں گے تو چمکتے ہی رہیں اور تتلیاں رنگ بکھریںگی تو بکھیرتی ہی رہیں گی۔ طالبان سے مذاکرات کے نتیجہ میں ملک میں جاری خون ریزی میں تھوڑی بہت کمی آچکی ہے۔ مہنگائی کو نکیل ڈالنے کے جتن کئے جارہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کیلئے نئے منصوبے جاری ہیں۔ قومی خزانہ بھر رہا ہے۔ پاکستان کو محرومیوں اور دکھوں سے نجات دلانے کیلئے طرح طرح کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ آس و امید کے ان خوشگوارلمحات میں دو وزیروں باتدبیروں نے ’’ مشرف غداری کیس ‘‘ کے حوالے سے ایسے بیانات داغے جس سے فوج اور حکومت کے درمیان تلاطم برپا ہوگیا۔ جس پر موجودہ سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ بعض ناقدین نے اسے حکومت اور فوج کے درمیان نئی کشیدگی قرار دیا۔ اس ضمن میں ایک معروف ٹی وی چینل نے وزیر دفاع خواجہ آصف کی جو گفتگو ٹیلی کاسٹ کی وہ چند برس پرانی تھی مگر اس گفتگو نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس سے قبل کے کشیدگی مزید بڑھتی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں حکومتی اور عسکری قیادت کی جانب سے ملک کو در پیش چیلنجوں سے نمٹنے کے معاملے میں یکساں حکمت عملی اختیار کرنے پر اتفاق کیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ملکی سلامتی اور استحکام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے طالبان سے قانون اور آئین کے مطابق مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ تمام اداروں کے وقار کو مقدم رکھا جائے گا اور سب ادارے ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ قومی سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں حکومتی اور عسکری قیادت کے درمیان کوئی بنیادی اختلاف نہیں تھا۔ اسی طرح وزیر اعظم نواز شریف نے کاکول میں پاک افواج کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ملک کے ناقابل تسخیر دفاع کیلئے پاک فوج کو تمام ممکنہ وسائل مہیا کرے گی۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ مستحکم معیشت اور دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر مضبوط ملکی دفاع کا قیام نا ممکن ہے۔
جناب وزیر اعظم …آپ اس بات کا یقین رکھیں کہ سپہ سالار جنرل راحیل شریف کا ماضی اور حال اس بات کا گواہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہیں وہ مکمل طور پر غیر سیاسی ہیں۔ڈسپلن کے عادی ہیں اور ملک کی خاطر جانیں قربان کرنے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں انہیں آپ کی حکومت گرانے اور خود ایوان اقتدار میں براجمان ہونے کا کوئی شوق نہیں انہیں اپنی حدود و قیود کا بخوبی علم ہے اس طرح آپ کے وزراء کو بھی اپنی حدود و قیود کا علم ہونا چاہیے۔ آپ کے وزراء سکیورٹی اداروں کے خلاف بیان بازی کریں گے تو آپ کی راہ میں روڑے اٹکائیں گے۔حکومت اور عسکری قیادت میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہو چکا ہے مگر دوسری طرف معروف صحافی حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملے نے ایک نیا طوفان برپا کر دیا ہے۔ حامد میر کے بھائی عامر میر نے یہ حملہ کھلم کھلا آئی ایس آئی کے چیف پر ڈال دیا ہے جو کہ قطعی طور پر مناسب نہیں۔ پہلے اس گھناؤنے اقدام کی تحقیقات ہونی چاہیے پھر ملزموں کو نامزد کیا جائے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم نواز شریف نے اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطح پر عدالتی کمیشن قائم کر دیا ہے۔ جو نہایت احسن اقدام ہے۔
جناب وزیر اعظم … قوم نے آپ کو کچھ اور بھی ذمہ داریاں سونپی ہیں جس میں تعلیمی نظام کی بہتری بھی شامل ہے آپ نے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا عندیہ دے کر اس پر پیش رفت شروع کر دی ہے اور آئندہ بجٹ میں اس کے لئے 4 فیصد رقم مختص کی ہے۔ براہ کرم تعلیمی بجٹ کا ہدف حاصل کرنے کے لئے آپ اس رقم کو قومی بجٹ کا 5 فیصد کر دیں۔عوام کو تعلیم کی بہتری ، علاج معالجہ اور دیگر بنیادی سہولتوں کے بجائے صرف میلے ٹھیلے اور کھیل تماشے دیکھنے کو مل رہے ہیں یہ سب بھی قوموں کے لئے انہتائی ضروری ہوتے ہیں مگر سب سے پہلے انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی ضروری ہے۔ جناب وزیر اعظم … تعلیمی ایمرجنسی کے ساتھ صحت کے شعبے میں بھی ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔ چودھری پرویز الٰہی سے آپ کو نفرت ہی سہی مگر انہوں نے ریسکیو1122 قائم کرکے اس کے ساتھ کارڈیالوجی اور دیگر ہسپتالوں میں بہتری لانا ان کی عوام دوست کاوشوں کے بہترین شاہکار ہیں۔سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے بجائے عوام کو تعلیم ، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کی زیادہ ضرورت ہے اس کی طرف توجہ دیں۔
جناب وزیر اعظم … آپ نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار کا ایک سال پورا کر لیا ہے۔ بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی پر عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے آپ کی حکومت بجلی بحران کے خاتمے کے لئے آئی پیز کو 5سو ارب دے چکی ہے مگر لوڈشیڈنگ کے معاملات ابھی تک جوں کے توں ہیں۔ گرمیوں کی آمد آمد ہے قوم کو اس بار بھی 20,20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتنا پڑے گا اس ضمن میں آپ عوام کو ریلیف دینے کیلئے خصوصی اقدامات اٹھائیں۔ ملک کے بڑے شہر لاہور کے مکینوں کو گرمیوں کے آغاز میں ہی پوری طرح گیس کی فراہمی نہیں ہو رہی اور ہزاروں کے بل آرہے ہیں۔ عورتیں اور بچے اس کیخلاف ہاتھ میں برتن اٹھائے علامہ اقبال روڈ پر مظاہرے کرکے اپنے سر پھوڑ رہے ہیں۔ان کی اس بے بسی پر علامہ اقبال کی روح کیا سوچتی ہو گی کہ کیا میں نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ جہاں غربت اور افلاس لوگوں کی زندگی اجیرن کر دے اور لوگ خزانے کی تلاش میں اپنے گھر کو کھود کر اکلوتے بیٹے کو کھو دیں۔ جہیز نہ ہونے سے لڑکیاں پیا گھر نہ سدھار سکیں اور وہ اپنے بالوں میں چاندی سجائے اپنے بابل کی دہلیز پر بیٹھی رہیں۔ اس طرح فاقوں سے نجات کے لئے آئے روز اجتماعی خودکشیوں کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس میں مائیں اپنے جگر گوشوں سمیت اپنے ہاتھوں موت کو گلے لگا رہی ہیں۔
جناب وزیر اعظم… امیر المومنین حضرت عمرؓ کا دور یاد رکھیں آپ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا ذمہ دار میں ہوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی ملک و قوم کے لئے بہت فکر مند ہیں اور نیک نیتی سے ان مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی دن رات عوام کے دکھ درد اور مصائب ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں وہ انتہائی مشکلات کے باوجود ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہے ہیں مگر خدا کے لئے آپ مشاورت کا نظام بہتر کریں۔ اس کا دائرہ بڑھائیں اس میں اضافہ کریں قوم کا درد رکھنے والے درد مندوں کو اپنے ساتھ شامل کریں یہ بات ذہن سے نکال دیں یہ کس کا آدمی ہے۔سچے اور محب وطن پاکستانیوں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنائیں ان کے علم ، جذبے اور دانش کو استعمال کریں۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد پاکستان کے سارے بحران اور ساری بلائیں ٹل جائیں گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024