1:۔ تاش کے کھیل برج میں جس کھلاڑی کے پاس مضبوط اور تگڑے پتے ہوں وہ اعلان کرتا ہے (NO TRUMP) اس کے جیتنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ سیاست کے کھیل میں اس کے معانی اور مفاہیم بدل جاتے ہیں ۔ امریکہ کے صدارتی الیکشن میں بعد از خرابی بسیار ارب پتی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک ہی نعرہ ہے ۔ NO TRUMP ۔ ٹرمپ نامنظور ! اسے مکافات عمل بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ٹرمپ نے دوران الیکشن واضح اعلان کیا تھا کہ وہ ہار کی صورت میں نتائج تسلیم نہیں کرے گا اور سارے امریکہ میں مظاہرے شروع کروائے گا ۔ اب اس کی تجویز کردہ کڑوی گولی اسے خود ہی نگلنا پڑ رہی ہے ۔
2:۔ امریکہ کی تاریخ میں اس قسم کا الیکشن پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئی ہیں ۔ سب تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ۔ سیاسی پنڈت سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں ۔ تجزیہ نگاروں نے انگشتِ بدندان ہیں،یہ کیا ہو گیا ہے ! یہ کیسے ہوا ہے ؟ انہونی ہو گئی ہے ۔ برائی نے اچھائی کو نگل لیا ہے ۔ ایک ایسا شخص جس نے ہر اخلاقی ضابطہ توڑا ہے ۔ جس نے صنف نازک کا صرف تمسخر ہی نہیں اڑایا ، دست درازی بھی کی ہے ۔ جو برہنہ گفتار ہے ۔ دریدہ دہن ہے ۔ نسل پرست ہے ۔ ٹیکس کی تفصیلات بتانے سے گریزاں ہے ۔ تینوں مباحثے ہار چکا ہے ۔ جسے اس کی اپنی پارٹی بیچ منجھدار چھوڑ گئی ہے ۔ بین الاقوامی امور کی رفت اور بود تک نہیں جانتا ۔ وہ واضح الیکٹورل ووٹ سے میدان مار گیا ہے ۔
3 :۔ "But We Have To See Things As They Are Not As They Ought To Be" ایک حقیقت ابھر کر سامنے آ گئی ہے جس سے کسی طور مفر نہیں۔ اگر ٹرمپ ایک برائی ہے تو تمام دنیا کو چار سال تک اس برائی کو بھگتنا ہو گا ۔ اگر وہ بین الاقوامی نظام کے لئے خطرہ ہے تو اس سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرنا ہونگے ۔ الیکشن کے دوران جو کچھ اس نے کہا ، جو وعدے کیے ان پر عملدرآمد کی صورت میں تمام دنیا متاثر ہوگی ۔ خوش فہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے دوران ووٹ حاصل کرنے کے لئے وعدے وعید ہوتے رہتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ ان پر جیت کی صورت میں عمل بھی کیا جائے ۔ حکومت میں آ کر معروضی حالات کو دیکھنا پڑتا ہے ۔ لوگوں کی یاداشت کمزور ہوتی ہے ۔ چار سال بعد کسی کو یاد نہیں رہنا کہ امیدوار نے کیا کہا تھا ۔ ہو سکتا ہے یہ ہم جیسے ملکوں کے لئے تو درست ہو لیکن مغربی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا ۔ بیدار پریس ہمہ وقت حکمرانوں کو ان کے وعدے یاد دلاتی رہتی ہے اور کہے ہوئے شبد سناتی رہتی ہے ۔ ٹرمپ نے جس طرح امریکی میڈیا کے ساتھ سینگ پھنسائے ہیں یہ اسے کسی صورت بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے ۔ اگر وعدے مبہم انداز میں کئے گئے ہوں تو باہر نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالا جا سکتا ہے لیکن جو باتیں بار بار واشگاف الفاظ میں کہی گئی ہوں ان سے انحراف ممکن نہیں ہوتا ۔
3:۔ ٹرمپ نے جس طرح اور جس انداز میں لوگوں کے جذبات بھڑکائے ہیں ناکامی کی صورت میں BACK LASH بھی ہو سکتا ہے ۔ اس قسم کا غیظ و غضب جو اس کی صدارت کو تنکے کی طرح بہا کر لے جائے گا ۔ آئیے اس کے اعلانات کا غیر جذباتی انداز میں جائزہ لیتے ہیں۔
(i چونکہ میکسیکو سے لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ آ کر آدھی تنخواہ میں کام کرتے ہیں اس طرح امریکیوں کا حق مارتے ہیں ۔ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان دیوار کھڑی کی جائے گی جس کا خرچ میکسیکو برداشت کرے گا۔
(ii مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کر دے گا ۔ یہ لوگ تخریب کار ہیں ۔ 9/11 انہوں نے ہی کیا تھا۔
(iii اوبامہ کیئر ہیلتھ پروگرام کا چارج لیتے ہی خاتمہ کر دے گا ۔
(iv چین امریکہ کی COST پر معاشی ترقی کر رہا ہے ۔ تمام امریکی کارخانہ داروں کو حکم دیا جائے گا کہ اپنے کارخانے واپس امریکہ لے آئیں ۔ بصورت دیگر انہیں بھاری ٹیکس دینا پڑے گا۔
(v ایران ایک ناپسندیدہ ملک ہے اس سے معاہدہ امریکہ کی کمزوری ظاہر کرتا ہے ۔ اس معاہدے کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا۔
(vi نیٹو کا مقصد یورپی ممالک کا دفاع ہے ۔ حیران کن بات ہے کہ یورپ کے دفاع کا خرچ امریکہ برداشت کر رہا ہے۔ انہیں کو کہا جائے گا کہ اپنے حصے کی رقم ادا کریں۔
(vii شکیل آفریدی کو دو دن میں پاکستان سے امریکہ لایا جائے گا۔
(viii امریکہ جاپان ، جنوبی کوریا اور فلپائن کی سکیورٹی پر خطیر رقم خرچ کر رہا ہے یا تو وہ امریکی فوج کے اخراجات اٹھائیں ، بصورت دیگر اپنا دفاع خود کریں۔
ان اقدامات سے امریکہ کی کھوئی ہوئی عظمت بحال ہو جائے گی ۔ نوکریاں زیادہ ہونگی اور بندے کم پڑ جائیں گے ۔ سفید اکثریت کا 2040ء تک اقلیت میں بدلنے کا خطرہ ٹل جائے گا ۔ گویا یہ پروگرام نہیں امرت دھارا ہے ۔ مسائل کا کوہ گراں روئی کے گالوں کی طرح دھنک کر رہ جائے گا ۔مصائب کے سمندر کا پانی بھاپ بن کر فضا میں اڑ جائے گا ۔۔۔۔ ٹرمپ جو بھی ہے ایک ماہر نبض شناس ضرور ہے ۔ اس نے سنہری مستقبل کے خواب دکھانے کا جو سفوف تیار کیا ہے ہر کسی نے اسے چٹکی بھر چکھا ہے ۔ غنودگی کے عالم میں اذہان مائوف ہو جاتے ہیں ۔ امریکہ میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔
5:۔ یہ درست ہے کہ میکسیکو نے امریکہ کی ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ یہ اذخان پاوندوں کی طرح ’’چورس‘‘ بارڈر سے غیر قانونی طور پر گھُس جاتے ہیں اور آدھی تنخواہ کو ہی پوری سمجھ لیتے ہیں ۔ اگر امریکہ چاہے تو امیگریشن لاز سخت کر کے انہیں کسی حد تک روک سکتا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جو کام یہ کرتے ہیں انہیں کرنا امریکی عربوں کی طرح کسر شان سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے ایک حد تک انکو لانا بھی ضروری ہے ۔ دیوار بنانا ایک مشکل عمل ہے ۔ پہلے تو میکسیکو نے ایک ٹکہ بھی نہیں دینا ۔ پھر کیا ٹرمپ ایک اور کیوبا کھڑا کرنا چاہتا ہے ؟ لاطینی امریکہ کی ہمدردیاں لا محالہ میکسیکو کے ساتھ ہونگی ۔ ان حالات میں REMEDY WILL PROVE WORSE THEN THE DISEASE مسلمانوں کا داخلہ بند کرنے سے عالم اسلام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ جائے گی۔ امریکی تیل کمپنیوں کو مشرق وسطیٰ سے نکلنا پڑے گا ۔ کوئی امریکی مسلم ممالک میں نہیں جا سکے گا ۔ حضرت ٹرمپ خود کیا منہ لیکر ان ممالک کا دورہ کریں گے جو مسلمان قانونی طور پر امریکہ میں مقیم ہیں ان کا حق بھی اس ملک پر اتنا ہی ہے جتنا صدر کا ہے ۔ گنتی کے چند جوا خانے چلانا آسان ہے ۔ امور مملکت نبٹانا کار دارد ہے ۔ ایسا کرنے سے دہشت گردی بڑھے گی ، کم نہیں ہو گی۔
ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ٹرمپ جاپان کی تاریخ اور اس کی قوم کے مزاج کو نہیں سمجھتا ۔ جنگ کے بعد انتقامی کارروائی کرنے کی بجائے امریکہ نے جاپان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہا ، پیسیفک کمانڈ کے جنرل ڈمگی میک آرتھر نے یوشیدا کے ساتھ ملکر آئین بنایا جو سراسر جمہوری تھا انتقام کی آگ بھڑکنے نہ دی بلکہ تندو سرکش شعلوں کو سرد کیا ۔ قومی غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ جاپان ٹرمپ کو ٹکا سا جواب دے گا۔ جاپان کو کسی سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے ۔ امریکی فوجیں واپس آنے کی صورت میں ایک نیوکلیئر جاپان ابھرے گا ۔ جاپان کو صرف چین سے خطرہ ہو سکتا ہے جو ایک امن پسند ملک ہے ۔ دراصل سکیورٹی کا ڈھکوسلا محض چین کو (Contain) کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے ۔ اس قسم کا اتحاد سپر پاور کی مجبوری ہے ۔ یہی حال جنوبی کوریا کا ہے ۔ کمیونسٹ شمالی کوریا ایک جوہری طاقت بن چکا ہے ۔ ابھی سے اس نے امریکہ کو دانت دکھانے شروع کر دیئے ہیں ۔ یہ سوچ کر ہی کہ شمال اور جنوب جرمنی کی طرح متحد ہو سکتے ہیں امریکہ بہادر پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے ۔ ٹرمپ کے کہنے پر امریکی سرمایہ دار کبھی چین سے امریکہ میں اپنے کارخانے منتقل نہیں کریں گے۔ چین میں چیپ لیبر ہے ۔ اربوں ڈالر تعمیر پر خرچ ہو چکے ہیں ۔ درآمدات پر ڈیوٹی لگانے سے چین کو تو نقصان ہو گا ہی لیکن امریکی معیشت کا بھی بھٹہ بیٹھ جائے گا ۔۔۔۔۔۔ نیٹو سے چھیڑ چھاڑ بھی ٹرمپ کو مہنگی پڑے گی ۔ کیا حضرت چاہتے ہیں کہ امریکہ ایک گلوبل پاور سے ریجنل پاور بن جائے ؟ صدر منروکی DOCTRRINE یعنی (splendid isocation) ٹرمپ ڈاکٹرائین کیا ہو گی ؟ (Abject Isolation and out right humiliation)
البتہ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ وہ شکیل آفریدی کو دو دن میں امریکہ لا سکتا ہے اس کی حسِ مزاح کو بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے ۔ ہمارے دوست ملک صاحب کہنے لگے ۔ (That Bit Of Typical Trumpian Humour Could Be Accepted With Grace) ’’حاضر جناب‘‘ حکومت سے یہ کام چشم زدن میں بھی لیا جا سکتا ہے ۔ امداد بند کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔ جو حکومت کانسی کو چاندی کی طشتری میں رکھ کر پیش کر سکتی ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کو بصد احترام واپس بھیج سکتی ہے ۔ اسامہ آپریشن پر بغلیں جھانکنے لگتی ہے ۔ کولن پائول کی ایک فون کال پر کپکپانے لگتی ہے ۔ اسے بھلا ایک غیر معروف شخص کی حوالگی پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔ البتہ! اس خدمت کے عوض ان داتا اگر کوئی ٹپ دینا چاہے تو یہ اسکی ’’روشن ضمیری‘‘ ہو گی ۔ پرانی پنجابی کہاوت ہے ۔ کسی نے طنزاً کہا ۔ ’’ فقیرا ڈھڈ ڈنگا ای‘‘ (تمہارا پیٹ ٹیڑھا ہے) اس پر گدائے بے حیا مسکرا کر بولا ۔ ’’ٹُکڑے ای اڑ اڑیں ہن‘‘ (روٹی کے ٹکڑے ہی اندر کرنے ہیں) ٹکڑوں پر انحصار کرنے والے عزتِ نفس کی چِنتا نہیں کرتے۔
6:۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ اس قدر بلند بانگ دعوئوں کو پورا کرنا ایک ناتجربہ کار سیماب صفت شخص کے لئے مشکل ہو گا لیکن یہ عجیب دنیا ہے ۔ لوگوں کا مزاج بدل رہا ہے ۔ لوگ اپنے خیالات کے اسیر ہو رہے ہیں ۔ جذبہ قومیت ایک مرتبہ پھر سر اٹھانے لگا ہے ۔۔۔۔۔ اگر برطانیہ میں بریگزٹ ہو سکتا ہے ۔ امریکہ میں ایک خبطی الیکشن جیت سکتا ہے تو کچھ بھی ہونا نامکمن نہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38