شاید زندگی میں سبھی سوالات کے جوابات نہیں ملتے۔ ہو سکتا ہے مل رہے ہوں تو ہماری آگہی اور فہم کے فریم میں فِٹ نہ ہوتے ہوں۔ پھر ایسا بھی تو ہے نا‘ جب دیوانگی کسی فراست کو آپ کی دہلیز پار ہی نہ کرنے دے تو پھر کسی کو موردِ الزام کیا ٹھہرانا؟
تم میرے لئے اب کوئی الزام نہ ڈھونڈھو
چاہا تھا تمہیں اک یہی الزام بہت ہے
حیرت اس بات کی ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو جو 1973ءکا آئین دے کر‘ 90 ہزار قیدیوں کو چھڑوانے کے بعد‘ اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے بعد‘ مزدوروں اور غریبوں کے لئے خلیج ممالک کے دروازے کھلانے کے بعد‘ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے بعد‘ شاہ فیصل‘ کرنل قذافی‘ یاسر عرفات سمیت کئی مسلم لیڈرز اور بیک وقت امریکہ اور روس سے زیرک کہلانے کے بعد‘ اپنے دور میں متعدد بہترین تعلیمی ادارے دینے کے بعد (ایشیا میں پہلی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی وغیرہ) ہاریوں میں ذاتی زمین تقسیم کرنے کے بعد‘ ضیائی کوشش کے باوجود مالی کرپشن سے پاک ہونے کے بعد‘ اپنے ابتدائی دور میں دنیا کا بہترین وزیر خارجہ ہونے کے باوجود‘ اقوام متحدہ میں رعب اور دبدبہ رکھنے کے باوجود اور بہترین مقرر ہونے کے بعد قائد عوام کہلایا لیکن بالآخر اس کا مقدر تخت کے بعد تختہ بنا۔ دوسری جانب آئین شکنی‘ بھٹو مخالف کی امداد‘ بغیر کسی کارنامے یا کسی جنگ میں شرکت کر کے لوہا منوانے کے باوجود بھٹو کی عنایت سے آرمی چیف بننے اور مارشل لاءلگانے کے جرم کا مرتکب ہونے کے باوجود وہ آمر مردِ مومن اور مرد حق کہلایا۔ نوائے وقت کی ایک سرخی ”اُدھر تم‘ اِدھر ہم“ جس چیف نیوز ایڈیٹر نے جمائی وہ عباس اطہر خود بھٹو کا فین تھا لیکن اس سرخی نے سب کچھ ”سُرخا“ کر دیا۔ المیہ نہیں تو کیا ہے‘ بھٹو کو اقتدار تھمایا کس نے؟ اور کیوں تھمایا؟ نکیل اقتدار اگر بھٹو کو نہ تھمائی جاتی تو کیا ہوتا؟ یہ کم لوگ سوچتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے اپنے وقتوں کے آفتاب و ماہتاب اور قومی اتحاد کی ”نظام مصطفےٰ“ تحریک کے مرکزی اور اہم لیڈر پروفیسر عبدالغفور کہتے کہتے مر گئے کہ‘ حکومت اور اپوزیشن (بھٹو اور اینٹی بھٹو) میں سب کچھ طے پا گیا تھا لیکن جرنیل نے نتیجہ خیز مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔ آج سیانے کہتے ہیں کسی سیاسی لیڈر پر پرسنل اٹیک نہ کریں اس سنجیدہ دور میں بھٹو پر انتہائی غیر سنجیدہ الزامات لگائے گئے اور لگائے بھی کسی ساجھے ماجھے نے نہیں بلکہ اپنے وقت کے راہبران و زاہدان اور اکابرین و مجاہدین نے۔ یہ درست ہے کہ جواباً سٹیج پر پھر پرخچے اور دھجیاں بھٹو بھی اڑاتا تھا۔ لیکن جواباً!!! الیکشن 1977ءمیں اپنے وقت اور اپنی روایات کے مطابق دھاندلی ہوئی‘ بلاشبہ و بلامبالغہ بھٹو فاتح تھا لیکن دھاندلی کے عناصر کہیں کہیں پائے گئے۔ نہ پائے جاتے تو بھی عظیم فتح تھی چند حلقے چھوڑ کر پی پی پی کے علاوہ تھا ہی کچھ نہ لیکن بھٹو ازم والوں اور بھٹو کے ناداں دوستوں کی وجہ سے فتح شکست ہی میں نہیں موت میں بدل گئی۔
دونوں‘ بھٹو اور بے نظیر بھٹو جونہی ناقابل تسخیر جانے گئے‘ اڑا دیئے گئے! المیہ یہ بھی ہے کہ پی پی پی اسٹیبلشمنٹ سے وفاداری یا ”خوف داری“ بھی نبھائے تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ۔ مسلم لیگ کبھی کسی شکل میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی جڑیں بھی کاٹے تو ”اَنٹی“ اسٹیبلشمنٹ۔ شاید یہی عالمی اور پاکستانی پولیٹیکل سائنس ہے؟ جاتے جاتے پاکستانی جمہوریت کو جو بی بی نے بہترین تحفہ دیا وہ میثاق جمہوریت تھا۔ آج کی حکومت کو 2008ءکی حکومت میثاق جمہوریت کا تحفہ ہیں جس کے بدلے میں بی بی کو پہلے گولی کا تحفہ جواباً ملا اور مرنے کے بعد قاتل نہ ملے!!! دو دفعہ ”کرپشن“ کے سبب بی بی حکومت ختم ہوئی اور دو ہی دفعہ میاں صاحب کی حکومت کا خاتمہ ”کرپشن“ کے سبب ہوا۔ آصف علی زرداری کو تو 10 پرسنٹ کا تحفہ ملا لیکن ”انصاف“ یہ کہتا ہے کہ میاں صاحب 100 فیصد درست ہے۔ ہمارے ایک پیارے دوست جو پی ایچ ڈی ہی نہیں نفسیات میں پی ایچ ڈی ہیں اور بے شمار ماہر نفسیات سماجی گرو بھی ہیں ان کے نزدیک ”زرداری صاحب آج بھی 10 پرسنٹ اور میاں صاحب پاناما شریف کے بعد 100 پرسنٹ درست ہیں“ کس کی نفسیات کو کس کے سر کریں‘ کہ المیہ کے سر کریں؟ خیر مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کے خالق جنرل حمید گل نے براہ راست ایک ملاقات میں بے نظیر بھٹو کو آئرن لیڈی قرار دیا اور ان کی حب الوطنی کو چیلنج بھی نہ کیا تاہم ان کے بنائے ہوئے لیڈران بے نظیر بھٹو کو ببانگ دہل سکیورٹی رسک کہتے رہے حالانکہ اس کے کھاتے میں کوئی کلبھوشن بھی نہ پڑا تھا۔ بے نظیر کی اسمبلی توڑنے میں ایک معاون‘ آرمی چیف جناب اسلم لیگ نے نوائے وقت کے اوراق پر اپنے کالم میں‘ مشرف دور میں‘ بے نظیر بھٹو کو بہادر لیڈر قرار دیا‘ نہ جانے ان سبھی تضادات میں المیہ کیا ہے اعلامیہ کیا ہے؟ پاکستان میں پولیٹیکل سائنس رائٹرز اور تاریخ دانوں کو چاہئے کہ اپنا پروفیشنل کردار تعصبات کے بغیر ادا کریں‘ اس طبقے کا بھی ایک المیہ ہے کہ وہ تعصبات کی نفسیات سے باہر نہیں نکلتے۔ پی پی پی کا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ 1977ءکے بعد سے پنجاب سے آ¶ٹ ہے۔ بے نظیر بھٹو نے الیکشن 1988ءمیں 94 سیٹیں حاصل کیں۔ وزارت اعلیٰ پنجاب کے امیدوار فاروق لغاری ایک ووٹ نہ بڑھا سکے۔ جبکہ میاں نوازشریف نے اپنے (آئی جے آئی) 108 ووٹوں میں سبھی آزاد ممبران کا اضافہ کیا۔ اسی لغاری کو 1997ءمیں صدر پاکستان بنانا بھی المیہ تھا۔ کیا یہ المناک نہیں کہ صدر بننے کے بعد بے نظیر بھٹو کو دھوکہ دے کر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں نوازشریف سے مل گئے۔ صف اول کے ایک صحافی کو میاں صاحب اور چودھری نثار نے جب کوئی شورش بھی برپا نہیں تھا یہ بتا دیا کہ بے نظیر جا رہی ہے اور میاں صاحب وزیراعظم آ رہے ہیں۔ الیکشن 2002ءمیں جب بے نظیر بھٹو جلاوطن تھیں‘ پی پی پی نے عددی اعتبار سے سب سے زیادہ ووٹ لئے‘ قومی اسمبلی میں ممبران بھی زیادہ تھے لیکن ایک پیٹریاٹ بنائی گئی فیصل صالح حیات اور را¶ سکندر اقبال جیسے لوگ حکومت میں چلے گئے اور مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا۔ الیکشن 2008ءکے بعد پنجاب میں ق لیگ سے مل کر حکومت بن سکتی تھی مگر ن لیگ سے میثاق جمہوریت تھا وہ الگ بات کہ بالآخر میاں شہباز شریف نے پی پی پی 7 وزراءکو چلتا کیا اور وفاق میں پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنانا پڑا۔ آصف علی زرداری کے ضمن میں بد سے بدنام برا کے علاوہ ”پابند سلاسل صدارت“ کے غیر عوامی عمل‘ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی پوری فیملی کا شب خون مارنا پھر اسی 2008ءتا 2013ءمیں عالمی سطح پر مہنگے پٹرول‘ مہنگے کوکنگ آئل‘ مہنگے ڈالر نے سانس نہ لینے دی حالانکہ اپنے دور کے بہترین لوگ یعنی شوکت ترین اور ڈاکٹر حفیظ پاشا کو وزیر خزانہ بنایا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی سے آج تک پی پی پی میڈیا کے لئے قابل کشش نہیں رہی۔ پی پی پی میڈیا مینج کرنے کے کبھی قابل ہی دکھائی نہیں دی‘ سعید غنی سے قمر زمان کائرہ تک اور آج کے چودھری منظور تک سبھی ہیرو بنتے رہے اچھے ترجمان نہیں۔ بہترین لیڈران فہرست رکھنے والی پی پی پی اور عام آدمی بہت بڑا گیپ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلاول اردو پڑھنا سیکھیں اور اردو اخبارات سے بھی استفادہ کریں جس طرح میاں صاحبان میڈیا پر نظر بھی رکھتے ہیں اور مینج بھی کرتے ہیں۔ زرداری خود غالب نہ ہوں بلاول کو غالب ثابت کریں‘ زرداری صاحب نصرت بھٹو اور نوابزادہ نصراللہ کا سا کردار چنیں۔ آصفہ اور بختاور کو بھی اردو سکھائیں‘ ذوالفقار علی بھٹو نے باقاعدہ اردو زبان سیکھی تھی۔ یاد رکھئے‘ دیوانگی‘ خوش فہمی اور غلط فہمی دہلیز پر قدم جما لے تو فراست کو دامن اور آنگن میں قدم رکھنے کا موقع نہی ملتا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38