قوم کو مبارک باد ہو کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پاکستانیوں کی چھپائی ہوئی دولت ظاہر ہونے والی ہے۔ دو سو ارب ڈالر کی خطیر رقم کے بارے میں 2 مارچ 2017ءکو پاکستان پہنچنے والی اس چٹھی پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے شادیانے بجانا شروع کر دیئے جیسے یہ لوٹی ہوئی رقم پاکستان کو ملنے والی ہے۔ ابھی تو معلومات کے تبادلے کا معاہدہ بھی نہیں ہوا جس پر سوئٹزرلینڈ حکومت نے ٹیکسوں میں مراعات سمیت کئی مطالبات کئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے جس پُھرتی میں مجوزہ معاہدے سے دو اڑھائی ہفتہ پہلے ہی اپنی حکومت کی کامیابی و کامرانی کا قومی اسمبلی میں ڈھول پیٹا اس پر انکی دوربینی ماننا پڑے گی۔ تاریخ نے ایسے کئی دوربینوں یا ڈاروں کے اس نوع کے زریں فیصلے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
اس زمیندار کی مشرقی دانش کا مقصد اگر ڈار صاحب کو معلوم ہوتا تو وہ یقیناً اس کو بھی سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک لائٹر نوٹ کے طور پر اسمبلی کے ارکان کو ہنسنے ہنسانے کا موقع ضرور فراہم کرتے۔ زمیندار ساہوکار سے قرضہ تو لے بیٹھا تھا کہ ساہوکار آتے جاتے اسے قرضے کی واپسی یاد کرا جاتا۔ زمیندار اس چھچھورے اور جلدباز ساہوکار سے تنگ آ گیا۔ وہ اپنی حویلی کے باہر سڑک کنارے ایک کھائی کھود کو اسکے مصرف کے بارے میں اپنی منصوبہ بندی کو آخری شکل دے رہا تھا کہ ساہوکار کو دور سے آتے دیکھا۔ وہ جلدی سے اندر گیا اور ساہوکار کے پہنچنے سے پہلے آ کر کھائی کے کنارے بیٹھ گیا۔ اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی بند کر لی اور حقے کے کش لگانے لگا۔
ساہوکار کو دیکھ کر گھبرا جانے والے زمیندار میں ایک بلا کا اعتماد تھا، نہ اس نے اسکی آﺅ بھگت کی نہ بہانہ تراشنے کا تکلف نہ کوئی وعدہ نہ روایتی مہمان نوازی کا انداز۔ ساہوکار زمیندار کے بدلے تیور دیکھ کر پریشان ہو گیا اور آمدم برسر مطلب کے تحت اپنی عزت بچانے کیلئے رقم کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ زمیندار نے حقے کا کش معمول سے زیادہ کھینچا، منہ سے دھویں کا مرگولا بنا کر بڑی حقارت سے ساہوکار کی طرف پھینکا، مصنوعی سا قہقہہ لگا کر بولا میں نے تجھ جیسے کمینے سے قرضہ لیکر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی اور تیرے یہ بار بار کے تقاضے سے تنگ آ کر میں نے سوچ لیا ہے کہ تیری رقم تیرے منہ پردے ماروں۔
ساہوکار کو غصہ تو بہت آیا کہ آج زمیندار بہت ہی اشتعال انگیز زبان استعمال کر رہا ہے لیکن رقم کی واپسی تک وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ زمیندار کے کڑوے کسیلے فقرے جنہیں گالیاں کہنا زیادہ مناسب اور حقیقت پسندانہ ہو گا، ساہوکار کی برداشت کے امتحان میں اسے واقعتاً اے پلس کا حقدار بنا چکے تھے، وہ بڑے ملائم انداز میں بولا چلو زمیندار صاحب! اب بہت ہو گئی، لایئے میری رقم۔ اپنا ہاتھ اسکی بند مٹھی کی طرف بڑھایا۔ زمیندار نے مٹھی کھولنے سے پہلے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی مگر ساہوکار رقم کے ہاتھ آنے سے پہلے اسکی خوشامد اور نرم لہجے کو ترک کرنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔ آخر زمیندار نے مٹھی کھولی، اس میں پیسے تو نہیں تھے۔ ساہوکار ذرا سنجیدہ ہو کر بولا یہ کیا ہے؟
زمیندار کہنے لگا یہ بیج ہیں.... ان کو اس کھائی میں دبا دوں گا، اوپر مٹی ڈالوں گا، پانی دوں گا، چند دنوں میں یہ سطح زمین پر نمودار ہونگے، پھر یہ قدآور درخت بنیں گے، کیکر کے درخت، کپاس کے سیزن میں جب میرے زمیندار بھائی اپنی کپاس کو گڈوں پر لاد کر ٹیکسٹائل مل میں لے جائیں گے تو انکی کپاس کیکر کے کانٹوں میں پھنس جائیگی، میں اسے اتار کر اسکی روٹی کو کات کر اس سوت کو جولاہے کو دوں گا جو اپنی کھڈی پر کھیس بنائے گا، میں وہ کھیس شہر لے جا کر بیچوں گا اور تیری رقم ادا کر دونگا۔ ساہوکار نے زمیندار کو اس تفصیلی گفتگو پر زور کا قہقہہ لگایا۔ زمیندار بڑی سادگی سے کہنے لگا آج تمہیں صحیح معنوں میں خوشی ملی ہے کیونکہ آج تیری ڈوبی ہوئی رقم جو مل رہی ہے۔
تو جناب ڈار صاحب! سوئٹزرلینڈ کے بنکوں سے مشروط معلومات کے تبادلے سے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات پر اگر آپ کو کچھ قہقہے سنائی دیں تو کانوں میں اس زمیندار کے کیکروں کے کانٹوں میں پھنسنے والی روئی لیکر کانوں میں ڈالنے کی کوشش نہ کرنا، یہاں تو جس چھپائی ہوئی دولت کا معلومات کے تبادلے کے کسی مشروط معاہدے کے بغیر پتہ ہے اس پر یہ بدنصیب قوم کف دست ہی مل رہی ہے اور اسکی واپسی کے لئے اس پٹھان والا فارمولا استعمال کیا جا رہا ہے جس نے قرض کی واپسی کا تقاضا کیا تو مقروض پٹھان بولا خاناں قرض واپس کرے گا، جتنا قرض لیا ہے اس سے دوگنا منافع دے گا یعنی ایک ہزار کے تین ہزار اور دیکھو ہم جانتا ہے دوگنا دو ہزار ہوتا ہے مگر ہم اسے ایک دفعہ دوگنا کیا دو ہزار ہوا، چونکہ دوگنا کیا ہے اور انسان کا بچہ ہے زبان کا پکا ہے اس لئے دوسری دفعہ دُگنا کیا تو پھر ایک ہزار کا دو ہزار بنا اس طرح کل دوگنا تین ہزار ہوا۔
پٹھان بولا چلو یہ تو ٹھیک ہے واپسی کب ہو گی، اوہ خاناں دن یا تاریخ یا سال ہم نہیں بتائے گا بس اتنا یاد رکھو یہ رقم کشمیر کی آزادی کے اگلے دن تمہارے گھر آ کر دے دونگا۔ اب تمہاری قسمت کشمیر کل آزاد ہو گیا تو پرسوں تمہاری رقم سونے کی مہر کے طور پر تمہیں لوٹا دونگا۔ جاﺅ جا کر کشمیر کی آزادی کی دعائیں کراﺅ، جاﺅ شاباش جاﺅ۔
تو جناب ڈار صاحب! جن کے پیسے سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں ہیں مشروط معلومات کے تبادلے سے وہ نہیں ملیں گے، معلومات کیا، یہاں تو ثبوت دیئے جانے والے پیسے نہیں مل رہے۔ ایک ایک صفحے پر دستخط کر کے بیان حلفی تسلیم نہیں کئے جا رہے، وہ بیان جو بقائمی ہوش و حواس رضاکارانہ طور پر دیئے گئے، ان سے منحرف ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جا رہی اور بقول آپ کے ایک کولیگ وزیر خواجہ آصف کے حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے، شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ خواجہ آصف کا روئے سخن صرف اپوزیشن کی طرف ہے، فرینڈلی اپوزیشن کو اس میں سیاسی استثنیٰ حاصل ہے۔ ان کے نزدیک اس لوٹی ہوئی دولت کی حفاظت اقتدار اور اختیار دونوں سے زیادہ اہم ہے۔ اس کے لئے ان کے وزیراعظم نے وزارت عظمیٰ سے محروم ہونے کا صدمہ برداشت کر لیا تھا مگر اپنی لیڈرشپ کو ایمبیرس کرنے کے بہت ہی کم چانسز پر بھی سوئس حکومت کو خط لکھنے سے انکار کر دیا تھا اور سپریم کورٹ کی حکم عدولی پر سزا بھگت لی تھی لیکن اپنی وفاداری جو لوٹی رقم کے تحفظ سے وابستہ تھی نہ بدلی تھی نہ اس میں کمی کی تھی۔
ڈار صاحب! آپ یہ بھی جانتے ہونگے کہ مشرف کے دور میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں کرپٹ قرار دیئے جانے والے لاہور ہائیکورٹ کے جج کو ہائیکورٹ سے نکالے جانے کے بعد صرف اس لئے اٹارنی جنرل آف پاکستان بنایا گیا تھا کہ وہ اپنی مہارت سے سوئٹزرلینڈ سے اس لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کا بندوبست کرنے کا دعویٰ کرتے تھے، یہ سارے دعوے نقش برآب ثابت ہوئے، ہر کسی نے اپنی اپنی بانسری بجائی اور چلتا بنا، آپ نے اپنی بانسری بجا دی ہے۔ قوم کو بے وقوف بنانے والے سُر اسکی سماعتوں سے نہیں ٹکرا سکتے اس لئے یہ قومی اسمبلی تک ہی محدود رکھئے، وہاں آپکے پیٹی بھائی اسکی داد بھی دیں گے اور آپ کی ہر بات پر کان بھی دھریں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024