ہلالِ رمضان اپنے ساتھ رحمتوں کی بارات اور برکتوں کی سوغات لےکرطلوع ہوتاہے،ہر طرف نور ہی نور اورفضاو¿وں میں عجیب سا کیف وسرورنظر آتا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ یکایک سب کچھ بدل گیا،چشم زد ن میں کوئی انقلاب برپاہوگیا، ہرآن ملائکہ کا نزول، عاصیوں کےلئے غفران وقبول، آسمانوں سے انعامات کی بارشیں ، زمین پر ہر لمحہ نوازشیں ، نیکو کاروں کےلئے بلندی و درجات کی بشارتیں ، دعاو¿ں کی قبولیت بھری ساعتیں ، تراویح اورتہجد کی حلاوتیں ،سحری کے ایمان افروز لمحات، افطار کی بابرکت گھڑیاں ، تلاوت قرآن کی چاشنی، روزہ داروں کے بارونق چہرے، مساجد میں مسلمانوں کا جم غفیر، صدقات و خیرات کے ذریعہ غرباءکی امداد،اعمال کے اجروثواب میں اضافہ و ازدیاد۔ یہ سب کچھ رمضان کی برکتوں کا نتیجہ ہے ایسے میں ہر جانب افطار پارٹیوں کی اہمیت ایک خاص مقام رکھتی ہیں جہاں اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ دوست احباب کا میل ملاپ ہو جاتا ہے۔ لیکن پچھلے ایک عرصے سے سیاسی پارٹیاں بھی اپنے کارکنوں ، میڈیا کے لوگوں اور اہم شخصیات کےلئے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتی ہیں جہاں اس بابرکت مہینے میں کئی پرانے دوستوں سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے اور ملکی ،قومی اور عوامی مسائل پر غو رو فکر اور تبادلہ خیال بھی ہو جاتا ہے جو اپنی جگہ پر ایک نیکی ہے۔
سب سے پہلے لاہور میں ہوئی پی ٹی آئی کی جانب سے ایک افطار پارٹی کا ذکر کرتا ہوں جو ولید اقبال اور حماد اظہر نے منعقد کی تھی کیوں کہ وہ ایک شاندار نظم و ضبط کا نمونہ تھی ، جس کے انتظامات اور کارکنوں کا جوش و خروش دیدنی تھا، 2ہزار کے قریب کارکنوں کی افطاری کا بہترین نظام موجود تھا، ہر کارکن کو اس کی ٹیبل پر کھانا اور افطاری کا سامان مہیا کیا گیاتاکہ کسی بھی بد انتظامی سے بچا جا سکے۔ بلا شک و شبہ اگر کسی جماعت کے ساتھ اتنے زیادہ بہترین اور Dedicatedکارکن ہوں تو وہ نتائج تبدیل کر سکتی ہے۔لیکن اس افطار پارٹی میں سینئر قیادت کا نہ ہونا کسی کو بھی شائبے میں ڈالنے کےلئے کافی تھا، یہ نہیں معلوم کہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت نے شرکت کیوں نہیں کی، شاید کچھ ”مجبوریاں“ ہوں یا مختلف اختلافات بھی ہو سکتے ہیں جو پارٹی کے اندر ابھی بھی موجود ہیں جن کا میں اکثر ذکر کرتا آیا ہوںاس لیے یہ سینئر قیادت کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے ایک ہی دن میں لاہور میں پی ٹی آئی کی دو تین افطاریاں کیوں رکھیں کیا یہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا یا کوئی اور فیکٹر ہو سکتا ہے، میرے خیال میں لوگ اس کا خاصا اثر لیتے ہیں اور لاہور کی سابقہ و موجودہ قیادت خصوصاََ علیم خان کو بھی چاہیے کہ انہیں پنجاب اور لاہور سے آگے نکلنے کی ضرورت ہے، اور انہیں اپنے امیج کو بہتر بنانے کےلئے سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے،تاکہ وہ اپنے امیج کو بدل کر اچھے سیاسی ورکرز اور تحریک انصاف کے نظریے سے محبت کرنےوالوں کو ساتھ لے کر چل سکیں۔
خیر چوہدری سرور وہاں موجودتھے، مگر اُن میں وہ ”دلکشی“ نظر نہیں آئی جو پاکستان آنے کے شروع کے دنوں میں تھی، مجھے لگتا ہے کہ چوہدری سرور نے اپنے آپ کو پاکستان کی سیاست سے یکسر الگ کر لیا ہے۔ اور تحریک انصاف کی انتظامی سیاست سے بھی اب ان کا کوئی تعلق نہیں رہا اس لیے چوہدری صاحب کے لیے بھی یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنا کیا پروگرام رکھتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں اور خصوصاََ پنجاب میں انکے فالورز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو انکی تقلید کرتی ہے لیکن فالورز اسی صورت میں آپ کے ساتھ رہتے ہیں جب تک آپ ایکٹو ہوتے ہیں جونہی آپ منظر عام سے ہٹتے ہیں لوگ آپ کو بھلا دیتے ہیںاور سنا ہے کہ آج کل چوہدری صاحب اپنے دو چار لوگوں کے علاوہ کسی کے رابطے میں نہیں ہیں ، ٹھیک ہے وہ چیرٹی کا کام کر رہے ہیں لیکن اگر انہوں نے سیاست میں عملی قدر رکھا ہے تو انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ سیاست کر سکتے ہیںاس لیے انہیں سیاسی میدان عمل میں ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ آنا چاہیے۔ کیوں کہ تحریک انصاف میں جس تعداد میں پیپلز پارٹی کے لوگ شامل ہو رہے ہےں۔ اُس سے پیپلز پارٹی کا کلچر آگے بڑھتا ہوا نظر آئےگا، حالانکہ میں ہمیشہ سے اس بات کا معترف رہا ہوں کہ پی ایم ایل کے مقابلے میں پیپلز پارٹی میں زیادہ اچھے کارکن موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے انکی لیڈر شپ کا امیج اس قدر برا ہے کہ ہر چیز بری نظر آنے لگتی ہے۔ تو یہی اگر پی ٹی آئی میں ہوگیا تو پاکستان ایک اور نظریاتی جماعت سے محروم ہو جائیگا۔
اسکے علاوہ سراج الحق صاحب کی افطار پارٹی میں بھی میرا جانا ہوا جہاں انکے ساتھ جو گپ شپ ہوئی اسکی تفصیل جگہ کی کمی کی وجہ سے میں یہاں نہیں لکھ سکتا مگر وہ آج بھی کرپشن کےخلاف اسی جذبے اور ہمت کے ساتھ نظر آئے، وہاں موجود جماعت اسلامی کی سینئر قیادت سے بھی بات چیت ہوئی ، لیکن مجھے یہی لگا کہ جماعت اسلامی پنجاب منصورہ سے نکل کر وہیں ختم ہوجا تی ہے حالانکہ قیادت کو یہ سوچنا چاہیے کہ منصورہ سے باہر بھی لوگ بستے ہیں جن سے میل ملاپ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اسکے علاوہ مجھے یہ لگتا ہے کہ جماعت اسلامی ابھی بھی یکسوئی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ پا رہی اور 2018کے انتخابات کےلئے وہ تیار نظر نہیں آرہی انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ پنجاب بھر میں یا کے پی کے اور سندھ میں کس کے ساتھ سیاسی اتحاد بنا کر آگے چلیں گے، لیکن جو قرین قیاس ہے وہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں، اور اگر ایسا ہوا تو ہو سکتا ہے کہ چند نشستیں ضرور بڑھ جائیں مگرجماعت اسلامی کو یہ سوچنا ہوگا کہ فضل الرحمن کا نظریہ مفاہمت اور مفادات ہیں اور کیا جماعت اسلامی نے بھی اپنا نظریہ تبدیل کر دیا ہے۔ کہ وہ اب نظریات سے بالاتر ہو کر اپنے مفادات کےلئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ مجھ سمیت ہر پاکستانی کو سراج الحق کے ماضی اور حال کو سامنے رکھ کر ایسا تو کسی صورت نہیں لگتا کہ وہ ایسا کرینگے،لیکن اگر ایسے فیصلے ہوئے تو انہیں جواب دینا پڑےگا .... اور قوم انہیں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ مفادات کی سیاست جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے آگے کیوں بڑھا رہے ہیں۔انہیں واضح فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کرپشن کےخلاف بہتر لوگوں کے ساتھ مل کر بہتر فیصلہ کرکے بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔
مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ میرے خیال میں اگر آج الیکشن ہوتے ہیں تو جماعت اسلامی کا پنجاب اور سندھ میں کوئی حصہ نہیں ہے۔اور کے پی کے کے حالات سراج الحق کے مفاد میں بہتر نظر آتے ہیں ، اور پاکستان میں سیاسی اثر و رسوخ کےلئے چاروں صوبوں میں آپ کی نمائندگی ضروری ہوتی ہے۔ اس کےلئے جماعت اسلامی سیاسی طور پر ناکام ہے ، اسکی ذمہ داری لاہور اور پنجاب کی لیڈر شپ بھی قصور وار ہے، کیونکہ انہیں غور کرنا چاہیے کہ وہ انتخابات میں شکست کیوں کھا رہے ہیں۔ انہیں اپنی غلطیوں کو اصلاح کی طرف بڑھانا ہوگا ورنہ 2018ءکے انتخابات کے بعد جماعت اسلامی کو قومی سطح پر پہچاننا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اور ہمیں افسوس ہوگا کہ سراج الحق جیسا مخلص اور منفرد آدمی اس ملک کےلئے دل و جان سے کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس خول سے باہر نہیں نکل پا رہا جس کی اشد ضرورت ہے۔ اور جماعت اسلامی کو آج کے دور کے مطابق اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کےلئے میڈیا پر اپنی پذیرائی کےلئے میڈیا ٹیم پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، یعنی اس کا تجزیہ آپ خود کر لیں کہ شام 7بجے سے رات 11بجے تک کسی چینل پر جماعت اسلامی کی نمائندگی نہیں ہوتی، اور اکا دکا چینل سراج الحق کی تصویر لگا کر ان کا موقف پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
اصغر صاحب اور امیرجماعت کو منصورہ سے نکل کر پنجاب کے عوام تک جانا چاہیے، کیوں کہ منصورہ میں عوام نہیں رہتے بلکہ منصورہ کے باہر عوام رہتے ہیں انکے ساتھ روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔ امیر العظیم اور قیصر شریف کو میڈیا کے حوالے سے ذمہ داریوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے کہ وہ ناکام کیوں ہو رہے ہیں۔ اور امیر العظیم کے پاس اتنا تجربہ اور وسائل بھی ہیں کہ وہ اس کام کو بخوبی سر انجام دیتے رہے ہیں اور دے بھی سکتے ہیں اس لیے انہیں اس بات پر ناراض ہونے کے بجائے اس پر توجہ دینی چاہیے کہ وہ اسے کیسے بہتر بنا سکتے ہیں ۔
اسکے علاوہ چند اہم Notableاراکین (منتخب ، آزاد اور اپنا اثر رسوخ رکھنے والے سیاستدان) جو اکثر و بیشتر افطاریوں پر مل جایا کرتے ہیں ، وہ یا تو آزاد ہیں یا اپنی ہی سیاسی جماعتوں میں غیر اہم ہوگئے ہیں لیکن ان کے حلقے بھی مضبوط ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ اپنی جگہ کھو رہے ہیں اور پاکستان میں آنیوالے انتخابات بہت مختلف ہونے جا رہے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ 1985ءکے بعد کے لوگوں کا ان انتخابات میں کوئی حصہ نہیں رہے گا، اور رہی بات چوہدری برادران کی تو انہوں نے رمضان سے پہلے بہت سے کنونشن منعقد کیے تھے ورکرز کو اعتماد میں لینے کی بھی بھرپور کوشش کی لیکن جماعت کے اثرات عوام تک نظر نہیں آرہے، انہیں بھی Notableاراکین کے ساتھ رابطے بڑھانے چاہئیں بلکہ اپنے سفر کو آگے بڑھانے کےلئے نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
اور سب کی بات ہو تو کرنل (ر) امجد حسین سید کی بات نہ ہو جو گزشتہ روز انتقال کر گئے وہ تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما اور گولڈ میڈلسٹ تھے، وہ مرحوم جنرل منیجر نوائے وقت گروپ مجاہد حسین سید‘ سابق معاون خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب، اٹارنی بار ایٹ لاءسپریم کورٹ واشنگٹن ڈی سی مواحد حسین شاہ‘ چیئرمین ڈیفنس کمیٹی اینڈ چیئرمین سی پیک پارلیمنٹری کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین سید‘ کنٹری ڈائریکٹر ورلڈ بنک ٹو واشنگٹن ڈی سی تحسین سید کے والد اور بانی نوائے وقت حمید نظامی مرحوم‘ معمار نوائے وقت مجید نظامی مرحوم کے دیرینہ دوست تھے۔جن کی خدمات کے حوالے سے پھر کبھی بات ہوگی، اللہ انکی مغفرت فرمائے (آمین)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38