گو کہ 1300 برس قبل فلسطین چھوڑ جانے کے بعد یہودی زیارت کیلئے بدستور فلسطین آتے رہے لیکن صہیونیت کو فروغ دینے کے حوالے سے اُن کی چھوٹے گروپوں کی شکل میں بالخصوص روسی علاقوں سے فلسطین واپسی کا پہلا تذکرہ 1908 میں ملتا ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی میں یہودیوں کو زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کے باعث مہمیز ملتی ہے۔ چنانچہ اِسی صیہونی منصوبے کے تحت برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں جب 1917 میں فلسطین میں اپنی فوجیں داخل کیں تو 2 نومبر 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ نے اعلان بل فور کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کا قومی گھر بنانے کا اعلان کر دیا۔ اعلان بل فور کے وقت تک عرب دنیا میں فلسطین کو امن و امان کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا لیکن 1920 میں فلسطین ظلم و تشدد کی نشانی بن چکا تھا۔1917 میں فلسطین کی کل آبادی سات لاکھ نفوس پر مثتمل تھی جن میں پانچ لاکھ چوہتر ہزار فلسطینی عرب مسلمان ، ستر ہزار عرب عیسائی اور تقریباً چھپن ہزار یہودی شامل تھے ۔ فلسطین پر برطانوی قبضے کے بعد1917 سے 1947 تک برطانوی فوج کی موجودگی میں نہ صرف مسلح یہودیوں کی جانب سے فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا ،ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے جس کا بدترین پہلو فلسطینی باشندوں کو اُن کی زمینوں سے بے دخل کر کے اِن زمینوں پر دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسایا گیا اُس کی تفصیل اب تاریخ کے صفحات کا حصہ ہے۔لیکن یہاں میں اسرائیل میں روس سے آنیوالی صہیونی ٹیم کے ایک اہم رکن چفشئی ناتھن کے مضمون "The bitter truth about the Arab Refugees" سے ایک اقتباس کی مثال ہی دینا چاہونگا جس میں وہ کہتے ہیں " حقیقت یہی ہے کہ جو لوگ فلسطین میں گذشتہ 1300 برس سے رہتے آئے ہیں کو ہم نے یہاں آنے کے بعد ایک ٹریجڈی کے ذریعے مہاجر بنا دیا ہے اور پھر بھی ہم اِس صورتحال پر شرمندہ ہونے کے بجائے تمام تر الزامات کا نشانہ اِن بدنصیب مہاجروں پر ہی لگاتے ہیں "۔
حقیقت یہی ہے کہ برطانوی انتداب کے 30 برس کے بعد جب امریکی اثر و رسوخ کے تحت 1947 میں اقوام متحدہ نے تقسیم فلسطین کی قرارداد منظور کی تو اُس وقت بھی فلسطین میں دنیا بھر سے لا کر بسائے گئے یہودیوں کی تعداد فلسطین کی کل آبادی کی 33 فیصد سے زیادہ نہیں تھی لیکن عرب اکثریت کو قطعی نظر انداز کرتے ہوئے تقسیمِ فلسطین کے حوالے سے فلسطین کے بیشتر حصوں کا مالک یہودیوں کو بنا دیا گیا۔ فلسطینی عربوں پر ظلم و ستم اور برطانوی حکومت کی عربوں کو آزادی دینے کی وعدہ خلافی اور فلسطین کو تقسیم کرنے کی پیش گوئی قائداعظم محمد علی جناح نے 15اکتوبر 1937 اور 26 دسمبر 1938 میں بالترتیب مسلم لیگ کے سالانہ اجلاسوں میں خطبہ صدرات پیش کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے کر دی تھی " میں محسوس کر رہا ہوں کہ برطانوی حکومت فلسطینی عربوں کے خلاف تشدد پر اُتر آئی ہے اورفلسطین کو تقسیم کرنے پر مصر ہے چنانچہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے فلسطینیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہماری تمام تر ہمدردیاں اُن بہادر غازیوں کیساتھ ہیں جو غاصبوں کے خلاف حریت کی جنگ لڑ رہے ہیں " ۔ 5 جون 1946 میں قائداعظم نے دہلی میں مسلم لیگ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وضاحت سے کہا " اینگلو امریکی کمیٹی نے فلسطین میں ایک لاکھ یہودیوں کو بھیجنے کی سفارش کی ہے جو قابل مذمت اور انتہائی بے ایمانہ فیصلہ ہے " ۔
البتہ فلسطین کی تاریخ میں 29 نومبر 2012 کا دن فلسطینیوں کیلئے ظلمات کے گہرے اندھیروں میں اُمید کی نئی کرن لیکر آیا جب امریکہ اور اسرائیل کی پُرزور مخالفت کے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 9 ووٹوںکے مقابلے میں 138 ووٹوں کی کثیر اکثریت سے فلسطین کو نان ممبر مبصر ریاست کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں نشست دینے کا اعلان کیا ۔ جنرل اسمبلی میں ووٹنگ سے قبل اسرائیل کے اتحادیوں نے فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس پر شدید دبائو ڈالتے ہوئے قرارداد کے ڈرافٹ میں بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا لیکن محمود عباس ڈٹ گئے۔
اسرائیل کے حامی مغربی ممالک فلسطین کی قرارداد کے متن میں اِن تبدیلیوں کے اِس لئے بھی خواہش مند تھے کیونکہ نازی اسرائیل کو یہ خدشات ہیں کہ اقوام متحدہ میں فلسطینی مبصر ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے بعد فلسطینی مبصر ریاست ، فلسطین کی territorial حدود کے تعین کیلئے 1967 سے قبل کی حدود بحال کرانے کی جدو جہد کو مہمیز دینے کے علاوہ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اور بمباری سے بے گناہ انسانوں جن میں کثیر تعداد میں شیر خوار بچے، طلباء و طالبات اور عمر رسیدہ خواتین شامل ہیں کے قتل عام کے خلاف اقوام متحدہ کے اداروں میں قانونی جنگ لڑنے کے قابل ہو جائیگی جس کی پہلی آواز فلسطین کے صدر محمود عباس کی جانب سے موجودہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف نہتے فلسطینی عوام کو عالمی تحفظ فراہم کرنے کے مطالبے میں جھلکتی ہے ۔ سوال یہی ہے کہ کیا صہیونی لابی فلسطینیوں کے قتل عام کے ذریعے اُن کے جذبہ آزادی کو دبانے میں کامیاب ہو سکے گی ؟ ایساگذشتہ نوے برس میں نہیں ہوسکا ہے البتہ وقت آئیگا جب اسرائیل کو انسانیت کے خلاف اپنے جرائم کا حساب ضرور دینا ہوگا۔ (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38