ایک بات تو طے ہے کہ اپوزیشن ہو یا حکومت مقاصد کسی کے بھی واضع نہیں ہیںکوئی پارلیمنٹ کو گالی دے رہا ہے تو کوئی اس کے تقدس میں سب کچھ پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ لیکن عوام کی توہین، ذلت، رسوائی اور پشیمانی کی کوئی بات نہیں کرتا، عوام کو کوئی دلاسا نہیں دیتا کہ اُس کے بچوں کی حفاظت کی جائے گی، اُسے روزگار فراہم کیا جائے گا، عوام کی توہین کی انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے نوجوان پولیس کے ہاتھوں جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جارہے ہیں۔ حکومت گردی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہر متاثرہ پاکستانی آرمی چیف اور چیف جسٹس کو پکار رہا ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور کی مال روڈ پر عوامی تحریک کے جھنڈے تلے ’’متحدہ اپوزیشن‘‘ نے ایک جلسہ کیا، جس کا مقصد ماڈل ٹائون کے شہداء کو انصاف فراہم کرنے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالنا تھا، جلسہ کامیاب تھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر طاہر القادری کی یہ جیت ہے کہ انہوں نے تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے اپوزیشن کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مذکورہ جلسے میں شیخ رشید اور عمران خان کی طرف سے پارلیمنٹ کے لیے نامناسب الفاظ کا استعمال کیا جسے میں اپنے کالم میں شامل کرنا بھی صحافتی اخلاقیات کے خلاف سمجھتا ہوں۔ پارلیمان کے خلاف گالم گلوچ کا آغاز کیا تو شیخ رشید صاحب نے تھا لیکن اسی رو میں عمران خان صاحب بھی بہہ گئے ہیں۔ شیخ صاحب تو بادشاہ آدمی ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔لیکن عمران خان کی اننگز لمبی ہے، ان کو الفاظ کے انتخاب میں زیادہ احتیاط کرنی چاہیے…
مجھ سمیت تمام پاکستانی یہ مانتے ہیں کہ پارلیمان میں سب کچھ اچھا نہیں، یہ بھی درست ہے کہ اسی پارلیمان نے غلط قوانین بھی بنائے اور یہ بھی حقیقت کہ پارلیمانوں میں بیٹھے کئی لوگوں پر بدعنوانی کے مرتکب ہونے کے الزام بھی ہیں اور سزا بھی ہوئی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی وہ ادارہ ہے جو پاکستان کے مجبور اور بے کس لوگوں کی نمائندگی کرسکتا ہے۔ درست یا غلط اسی میں بیٹھے وہ لوگ ہیں جن کو عوام نے اپنا ووٹ دیا ہے۔ وہی ووٹ جو عمران خان سمیت تمام سیاستدان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔جمہوری نظام میں یہی پارلیمان ہی ہوتی ہے جو آئین کے مطابق سب سے اعلیٰ ادارہ ہے۔ اگر کسی کو عوام کی بالادستی اور جمہوریت پر یقین ہے تو وہ پارلیمان کے ادارے کو گالی نہیں دے سکتا۔ تاہم پاکستانی سیاست کی پرآشوب تاریخ ایسے طالع آزماؤں سے بھری ہے جو پارلیمان، سیاسی جماعتوں اور ووٹ کی تذلیل کرتے ہیں تھکتے نہیں ۔لہٰذاپارلیمنٹ کو گالی دینا کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں، پارلیمنٹ میں بیٹھے پارلیمنٹیرین پر تنقید ہونی چاہیے ،کیوں کہ ہمارے لیے یہ باعث شرم بات ہے کہ جتنا پیسہ یہ ارب پتی پارلیمنٹیرئینز اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں، کرپشن کرتے ہیں اتنا شاید غریبوں پر لگتا تو وہ خوشحالی کی طرف گامزن ہو جاتے۔
آج ان ’’پارلیمنٹیرین‘‘ کی ماہانہ تنخواہ 2لاکھ اور شاہانہ الائونسز 12لاکھ روپے ماہانہ ہیں، ایک رکن اسمبلی اوسطاََ ڈیڑھ کروڑ روپے سالانہ اور پانچ سال میں قریباََ ساڑھے سات کروڑ روپے تک خرچ کرتا ہے۔ یعنی پوری قومی اسمبلی پانچ سالوں میں دو ڈھائی سو ارب روپے میں پڑتی ہے۔ ان دو ڈھائی سو ارب روپے میں ان ارب پتی اراکین اسمبلی کے گھروں کے بل سے لے کر تمام سفری اخراجات، ریفریشمنٹ، ٹیلی فون بل سمیت ملازمین کی تنخواہیں اور آفسز کی مینٹینس کے اخراجات شامل ہیں ۔ جبکہ ابھی چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کے کھربوں روپے کے اخراجات ان کے علاوہ ہیں۔ جبکہ صرف وزیر اعظم ہائوس کا مامانہ خرچ ایک کروڑ روپے ماہانہ اور 12کروڑ روپے سالانہ ہے۔ جبکہ اضافی اخراجات کا تخمینہ بعد میں لگایا جاتا ہے۔ اور تو اور یہ اراکین اسمبلی جو عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں آتے ہیں اپنے ذاتی مفادات کی خاطر حکومتی اور اپوزیشن ارکان اختلافات اور دشمنیاں بھلا کر ایک ہو جاتے ہیں اور ایوان میں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی تحریک کو منٹوں میں منظور کر لیاجاتا ہے۔اورارکان کے علاوہ سپیکر، ڈپٹی سپیکر، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کی تنخواہوں میں تین گنا اور باقی مراعات میں دس گنا اضافہ کر لیا جاتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ 71 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ، سپیکر اور چیئرمین سینٹ کی تنخواہ 4 لاکھ جبکہ ڈپٹی سپیکر اور ڈپٹی چیئرمین کی تنخواہ ساڑھے تین لاکھ روپے کر دی جاتی ہے۔
پیسے کا یہی وہ غیر ضروری اور بے حساب بہاؤ ہے، جو ہمارے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی رقوم کو نگل لیتا ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا سبب بنتا ہے۔الاماشاء اللہ یہ ایسے طبقہ کے بھی نمائندے ہیں جو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘ غربت‘ تنگدستی اور مفلسی کے ہاتھوں انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں ہو رہی ہیں‘ ناقص غذائوں اور غیرمعیاری پانی سے یہ لوگ مختلف بیماریوں کی بھینٹ چڑھ کے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اسی پارلیمنٹ میں کروڑوں کے قرض معاف کرانیوالے بھی موجود ہیں، کھربوں کی کرپشن میں ملوث لوگ بھی پارلیمان کا حصہ ہیں،نیب کی سپریم کورٹ میں پیش کردہ 150 میگا کرپشن کیسز میں کئی معزز ارکان کا نام موجود ہے اور اب ان میں سے کئی کی آف شور کمپنیاں بھی نکل آئی ہیں۔ اسکے علاوہ کھربوں روپے کے جائز جائیدادوں کے مالک، زمیندار، تاجر اور سرمایہ کار بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں مگر کوئی ایک رکن بھی اس حوالے سے بات نہیں کرتا کہ کھربوں روپے خرچ کرنے والی اسمبلی عوام کو کیا دے رہی ہے؟
ان اراکین اسمبلی کی آف شور کمپنیوں کے بیرونی ممالک اربوں ڈالر کی جائیدادیں اور کاروبار ہیں جو عموماً ناجائز پیسے یا کالے دھند سے بنائے گئے ہیں۔ پاکستان سے باہر جانیوالی دولت واپس آجاتی ہے تو پاکستان کے تمام قرض ادا ہو جائینگے‘ زرمبادلہ کے ذخائر آج 17 ارب ڈالر ہیں تو ان رقوم کی واپسی سے کھربوں ڈالر کے ہو جائینگے۔ اس کا حکومت کو زیادہ احساس ہونا چاہیے کیونکہ غیریقینی صورتحال میں الیکشن کسی وقت متوقع ہیں۔ تعجب ہے کہ ان حالات میں بھی پارلیمنٹیرین کو جمہوریت سے زیادہ اپنی مراعات میں اضافے کی فکر لگی رہتی ہے۔کیا خوب لکھا تھا حبیب جالب نے کہ
چند لوگوں کی خوشیوں کو لیکر چلے
ایسے دستور کو میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
اور پھریہ پارلیمنٹ ایک ایسا ادارہ بن گیا ہے جس میں ناموس رسالتؐ کے حوالے سے ایک بل پاس ہو جاتا ہے اور اس کو کوئی پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتا، اور بعد میں سب لوگ صفائیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ بغیر پڑھے نکل گیا ہے۔
زینب جیسی بیٹیوں کا جینا دو بھر کر دیا جاتا ہے اراکین اسمبلی اس پر بھی سیاست شروع کردیتے ہیں … چیف جسٹس لوگوں کی آہ و پکار سننے کے لیے ہسپتالوں کا دورہ کرتے ہیں یہ کھرب پتی اراکین اسمبلی اس کو بھی متنازع بنا دیتے ہیںاور آج چیف جسٹس جن چیزوں پر سو موٹو ایکشن لے رہے ہیں ان کاموں کے لیے پارلیمنٹیرین نے کوئی کام کیا ہوتا تو پاکستان کا چہرہ اتنا مسخ نہ ہوتا جتنا شاید آج ہے۔ ہمار اکا صرف صبح شام اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگا نا رہ گیا ہے کہ وہ ملک بھر میں سازشیں کر رہی ہے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہم لوگ گوارہ نہیں کرتے۔ اگر ان پارلیمنٹیرین نے بچوں کی جانوں کی حفاظت کے حوالے سے کوئی قانون بنایا ہوتا تو آج عوام ان گالیوں کا ضرور جواب دیتے جو اس ادارے کو دی جارہی ہیں۔ مگر افسوس اگر اس ادارے میں بیٹھے وڈیروں، جاگیرداروں، گیلانیوں، شریفوں ، قریشیوں سمیت ہر طبقے کو عوام کا خیال نہیں تو عوام کو بھی کوئی پرواہ نہیں کہ کون کس ادارے کو گالی دے رہا ہے، اور کیوں دے رہا ہے!!!