ہندو شناس یا ہندو مزاج؟
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے اپنے والد ہمایوں کی شکست اور ناکامیوں پر غور کرنے کے بعد ایک جاہلانہ روش اختیار کی تھی کہ ہندوستان کے تمام لوگ اگر ایک ہی مذہب اپنا کر متحدہ قوم بن جائیں تو مغلیہ سلطنت کو دوام مل جائے گا اور ہندوستان پر ہمیشہ کیلئے مغل خاندان کی حکومت رہے گی لیکن ہندو اور مسلمان ایک مذہب اپنا کر متحدہ قوم کیسے بن سکتے ہیں؟ اس کیلئے موصوف نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا اور اسے دین اکبر یا دین الٰہی کا نام دیا اور فرمان جاری کیا کہ سب ہندو اور مسلمان اس میں شامل ہو کر ایک قوم بن جائیں!
مگر بادشاہ نے ظالمانہ حماقت یہ کی کہ یہ کام اپنے ہندو وزیر اور سپہ سالار کے سپرد کر دیا اور خود بھی ایک ہندو عورت کو اپنی ملکہ بنا کر بزعم خویش نہ مسلمان رہا نہ ہندو مگر اسکے ہندو کارندوں نے دین الٰہی کے نام پر مسلمانوں سے زبردستی اسلام چھڑوانا شروع کر دیا اور ”مغل اعظم“ کے سایہ میں جو مظالم ڈھائے وہ ہماری درد ناک تاریخ کا حصہ ہیں، دلچسپ بات یہ تھی کہ ان ہندو کارندوں نے نہ تو کسی ایک ہندو سے اس کا مذہب چھڑوایا اور نہ خود اکبر کے دین الٰہی میں شامل ہوئے، اپنے آخری ایام حکمرانی میں بادشاہ نے اپنے کارندوں سے حساب لیا تو یہ جان کر حسرت و ندامت کی موت مر گیا تاہم ان مظالم سے بہت سے مسلمان اسلام پر عمل کی بجائے ہندو، مسلمان ایک ہیں کے قائل ہو گئے اور ہندﺅں سے پوری طرح گھل مل گئے اور ایک نئی روش اپنا لی! اس روش کو حضرت مجدد الف ثانی نے ”ہندو مزاج مسلمان“ یعنی ہندوﺅں میں اس طرح گھل مل جانیوالے مسلمان کہ نہ اسلام کے رہیں اور نہ ہندو مت کے مگر اس سے مسلمانوں کی ایک نئی قسم پیدا ہو گئی جن کی اگلی نسل ہندو بن گئی!
اکبر کی اس اسلام دشمن روش نے ہندو برہمنی کے حوصلے بلند کر دیئے اور وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ اسلام کو بھی بدھ مت اور جین مت کے گھاٹ اتار کر ختم کیا جا سکتا ہے! یہیں سے برہمن کی ”ہندو توا“ جنم لیتی ہے اور ہندو مزاج مسلمان تیار ہوتے ہیں جو سابق بھارتی مسلمان صدر عبدالکلام کا کردار ادا کرتے ہوئے مندر اور مسجد کو برابر سمجھتے ہیں، اسکے نزدیک خدا اور بت بھی برابر ہو جاتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور مسلمان کو جتنا نقصان ایسے ہندو مزاج مسلمان سے پہنچا ہے اتنا خود ہندو برہمن بھی نہیں پہنچا سکا!
نرندر مودی کا منصوبہ یہ تھا کہ گجرات والا ڈرامہ دہرا کر بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کو زبردستی ہندو مت کی طرف مائل کر لینے کے علاوہ پاکستان کو بھی سیدھا کر لیا جائے گا اور یوں اکبر دور حکومت کی طرح مودی کے عہد حکمرانی میں بھی ”ہندو مزاج مسلمان“ یعنی ہندو سے گھل مل جانےوالے مسلمان پیدا کرنے کی راہ ہموار ہو جائےگی اور ”بھارت ماتا“ میں رام راج یعنی برہمن کا ہندو راج بھی قائم ہو جائیگی مگر مسلمانوں سمیت بھارت کی تمام غیر ہندو اقلیتوں کے شدید ردّ عمل اور بیرونی لعن طعن کے دباﺅ نے مودی کا پتا پگھلا دیا ہے، اس لیے وقتی طور پر ہی سہی اسے تشدد کے بجائے نرم پالیسی اختیار کرنا پڑ گئی ہے، چنانچہ پیرس میں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے سرگوشی کے بعد سشما سوراج میٹھی زبان بولنے اور مسکراہٹیں بکھیرنے کیلئے پاکستان کے دور ے پر تشریف لے آئیں، دیوی جی مسکراتے اور میٹھی زبان بولتے ہوئے جامع مذاکرات کا نیا جال پھینک کر واپس جا چکی ہیں مگر اس جال کا خوفناک اور خطرناک کانٹا یہ مانگ ہے کہ پاکستان اپنی موٹر وے بھارت کیلئے کھول دے تاکہ پاکستان کے اندر ”بھارتی خدمت گاروں“ تک آسان رسائی اور براہ راست روابط کے علاوہ افغانستان میں ”سب کام کرنا“ بھی مشکل نہ رہے!
بھارت کے ساتھ یہ مذاکرات کسی نہ کسی شکل میں پہلے سے جاری رہے ہیں اور گزشتہ تقریباً ستر سال سے جاری چلے آتے ہیں جن میں پاکستانی وزیر خارجہ بھٹو مرحوم اور بھارت کے ایک ”ہندو مزاج سکھ“ مسٹر سورن سنگھ کے مذاکرات، شیخ مجیب اور بھارتی جاسوسوں کے مذاکرات اور بنگلہ دیش قائم کرنے کیلئے مکتی باہنی کے روپ میں بھارتی فوجیوں کے افواج پاکستان سے ”مذاکرات“ کے علاوہ کشمیر دینے اور سیاچن لینے کیلئے بھارت کی سات لاکھ فوج کے نہتے کشمیریوں سے ”مذاکرات“ بھی آج تک جاری چلے آتے ہیں، اب یہ سشما سوراج والے مذاکرات کا ڈول بھی مزید ستر یا سو سال تک جاری رہے گا اور اس دوران مکار برہمن جھپٹ مارنے کی تاک میں لگا رہے گا اور جیسے ہی موقع ملے بنگلہ دیش کی طرح پاکستان کے ساتھ بھی مشہور سوامی کی بدکلامی کے مطابق چار ٹکڑے کر دینے آسان ہو جائیں گے!؟میری رائے میں سشما دیوی کے اس جال کا مقصد جہاں پاکستان سے مزید فوائد اور رعایات کا حصول ہے اور اسکے علاوہ اندرونی اور بیرونی دباﺅ سے مودی کی وقتی نجات بھی مقصود ہے، حقیقت میں مزید ستر بلکہ سو سال کی مہلت کے سوا اس مذاکراتی جال کا کوئی مقصد نہیں ہے! پاکستان کے بیدار مغز اور دور اندیش لیڈروں کو ان جامع مذاکرات کیلئے قائد اعظم کا دماغ اور زبان درکار ہو گی!
مودی اور ان کے ہمنوا ہندو گروہ کا کمال یہ ہے (بلکہ کارنامہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہو؟) کہ اس گروہ نے ہندو کے اصل عزائم اور منصوبوں کو پوری دنیا کے سامنے کھول کر بلکہ ننگا کرکے رکھ دیا ہے اور محمد علی جناح کے اس دعوے کی تصدیق کر دی ہے کہ ”ہندو ایک بروٹل میجارٹی“ یعنی ایک درندہ صفت اکثریت ہو گی! گزشتہ ستر سال کے دوران میں ہندو نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ واقعی ایک خونخوار اور درندہ صفت اکثریت ہے۔ ایک ”ہندو دیوی“ سروجنی نائیڈو جو قائد اعظم کی گرویدہ تھی وہ انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہتی تھی، ایک پنڈت موتی لال نہرو اس سے پریشان ہو گیا تھا کہ آزاد ہندوستان کا قائد اور وزیر اعظم ایک مسلمان ہو گا اور اسکے لاڈلے شہزادے جواہر لال نہرو کا سکوپ مارا جائے گا اس لیے موتی لال کے ہندو چمچوں نے قائد اعظم کو تنگ کرکے بلکہ انکے راستے تنگ کرکے کانگرس چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا، وہ سمجھ گئے تھے کہ ہندو کیا ہے اور کیا چاہتا ہے پھر مولانا آزاد کو کانگرس کا نمائشی مسلمان صدر بنایا گیا تھا جسے آزادی کا موقع آتے ہی دھکیل کر ہٹوا دیا گیا تھا یہ کام گاندھی کے سایہ میں جواہر لال نہرو نے خود کیا تھا اور ثابت کر دیا تھا کہ اعلیٰ عہدوں پر کوئی مسلمان کبھی فائز نہیں ہو گا بلکہ یہ عہدے اونچی ذات کے ہندوﺅں کیلئے ہی ہونگے اور اس پر بھارت کی ستر سالہ تاریخ گواہ ہے!مگر اب تو مودی نے یہ بھی واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ مسلمان کیلئے نہ صرف بھارت میں بلکہ برصغیر میں عزت اور آزادی سے رہنا ممکن نہیں ہو گا لیکن دراصل ہندو کی یہ خواہش ناممکن ہے ! داخلی اور خارجی دباﺅ نے ہندو کی اس خواہش کو ٹھکرا دیا، اونچی ذات کا ہندو اکثریت میں نہیں ہے بلکہ یہاں مسلمانوں سمیت دیگر تمام غیر ہندو اقلیتیں مل کر غیر ہندو اکثریت بنتے ہیں، یہ بات دنیا پر واضح ہے اور اب عالمی سطح پر اس حقیقت کو منوانا کچھ مشکل نہیں رہا، اس لیے ہندو کے جھانسے میں آنے اور اسکے ساتھ گھل مل کر ”ہندو مراج“ بننے کے بجائے ہندو شناس بننا چاہیے! یہ جامع مذاکرات نہیں ہونگے بلکہ پہلے کی طرح ”مذاق رات“ ہونگے اگر انصاف کیلئے ہندو تیار نہ ہو تو جامع مذاکرات بیکار ہیں، یہ موقع محض گھل مل جانے کے بجائے ہندو کو جاننے پہچاننے کا ہے، اب ہندو مزاجی نہیں ”ہندو شناسی“ درکار ہے۔