دنیا جانتی ہے کہ بھارت امریکا و اسرائیل، افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں مگر بھلا ہو پاک فوج کا اور پاکستان کے خفیہ اداروں کا کہ وہ دشمن کی ہر سازش کو بھانپ کر اُسے ناکام بنا دیتے ہیں اور خاص طور پر بھارت کو منہ کی کھانا پڑتی ہے، کبھی وہ پاکستان کے اندر سیاستدانوں سے مرضی کے بیان دلوا کر پاک فوج کو دباﺅ میں لاتا ہے تو کبھی پاکستان کے اندر سہولت کاروں کو استعمال کرکے تخریبی کارروائیاں کرواتا ہے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب ایک عرصے سے بھارت کی یہ ”کارروائیاں“ کامیاب نہیں ہونے دی جا رہی ہیں مگر اب اس نے نے ایک نئی چال چلتے ہوئے پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کروانے کا آغاز کیا ہے۔ مقاصد وہی ہیں کہ پاکستان کو بدنام کیا جائے.... لیکن ان نئی چالوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان کے کمزور اور حساس معاملات کو اُٹھایا جائے اور پوری دنیا میں اُس حوالے سے واویلا کیا جائے.... پہلے یہ واویلا پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے تھا مگر اب یہ ”آزاد بلوچستان“ کے حوالے سے شروع ہو ا ہے۔ جس میں یورپی و مغربی ملکوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ اس حوالے سے لامحدود فنڈز کا استعمال کر رہی ہے۔ جس کی فنڈنگ سے اس کام کا آغاز یورپی ملک سوئٹزر لینڈ سے ہوا ہے، سوئٹزرلینڈ میں آزاد بلوچستان سے متعلق مہم بھارتی خفیہ ادارے کی پشت پناہی پر ایک این جی او کی جانب سے چلائی جا رہی ہے جبکہ براہمداغ بگٹی سمیت دیگر پاکستان مخالف لابیوں کو بھی مہم میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پر پاکستانی رد عمل آنا یقینی تھا اور پاکستانی دفتر خارجہ نے سوئٹزرلینڈ میں پاکستان مخالف پوسٹرز لگائے جانے پر اسلام آباد میں تعینات سوئس سفیر تھوماس کولی کو طلب کر کے باقاعدہ ”رسمی“ احتجاج کیا ہے۔ یہ خطرناک کھیل ایسے وقت پر کھیلا جا رہا ہے جب پاکستان کے وزیر اعظم اقوام متحدہ کی اسمبلی میں خطاب کر نے جا رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کام میں سوئٹزر لینڈ کی حکومت کیوں استعمال ہو رہی ہے؟ کیا یہ واقعی گریٹ گیم ہے ؟ جس میں حکومتیں ملوث ہو رہی ہیں، یا یہ آزادی حق رائے دہی کا غلط استعمال کیاجا رہا ہے.... میں نے اس حوالے سے بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کا سرسری سا جائزہ لیا لیکن وہاں کوئی ایسی چیز میری نظر سے نہیں گزری جس میں لکھا ہو کہ ایک ملک دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایسی مہم جو کسی بھی دو ممالک کے باہمی تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے، اس کی ممانعت ہوگی ، بین الاقوامی قانون کے مطابق پاکستان یہ مطالبہ بھی کر سکتا ہے کہ اسے بتایا جائے کہ اس مہم کے پیچھے کون سے عناصر ہیں۔حالانکہ مختلف ممالک کے مابین ایسے کئی معاہدے ہوتے ہیں، جن کے تحت آپ کو دوسری ریاستوں کی جغرافیائی وحدت اور خود مختاری کی عزت کرنا ہوتی ہے۔اوریورپ میں تو قوانین پہلے ہی بہت سخت ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر بھی کئی ممالک قانوناََ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کے ہاں سے کسی بھی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہ کی جائے۔
لیکن پھر بھی ایسا کیوں ہوا؟ کیا امریکا، اسرائیل اور مودی کا الائنس اس خطے کی باﺅنڈریز کو تبدیل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے؟ اور اس کام میں وہ یورپی ملکوں کو استعمال کر نے والا ہے اور کیا اس مکروہ فعل میں انہیں پاکستان کے اندر موجود کچھ عناصر کا تعاون حاصل ہے؟ اور کیا اس حوالے سے چوہدری نثار علی خان جن خطرات کی نشاندہی کرتے رہے ہیں وہ یہی ہیں؟ کیوں کہ چند ماہ قبل انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو سنگین خطرات کا سامنا ہے جس سے واقفیت صرف مجھ سمیت آرمی چیف، وزیراعظم اور باقی تین لوگوں کو ہے، مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ یہی گفتگو ہے جس کی طرف وہ اشارہ کرتے آئے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ کی حالیہ مہم دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے دنیا بھر میں کتنی سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔ اور پاکستان مخالف لابیاں کس قدر سرگرم ہو چکی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے اندر سے اُن کے لیے بلوچستان میں سہولت کار کا کام کون کر رہا ہے.... حالات اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ مہینے بھر میں تمام پاکستان مخالف قوتیں ، لابیاں اور ممالک ”آزاد بلوچستان“ کا اعلان کریں تاکہ پاکستان پر دباﺅ بڑھایا جائے جس کا براہ راست فائدہ کشمیر سے دنیا کی نظر ہٹا کر بلوچستان پر لگادی جائے اور کلبھوشن یادیو کے معاملے میں پاکستان سرنڈر کر جائے۔
لہٰذاپاکستان کو ایک تو یہ سوچنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اُسے کیا کرنا چاہیے؟ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مضبوط پالیسی بنانے کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔ اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ گزشتہ چار سال تک وزیر خارجہ کے نہ ہونے کا نقصان کیا ہوا ہے؟ اور اس کا ازالہ کیسے ممکن ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم خارجہ پالیسی کو لے کر تذبذب کا شکار ہیں.... گرتی ہوئی معیشت، بڑھتے ہوئے قرضے اور ناکام خارجہ پالیسی پاکستان کو تباہی اور بربادی کی طرف لے کر جا رہے ہیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا ، جذباتی گفتگو کی حد تک تو میں اُن سے مطمئن ہوں مگر غلطیاں کرکے اور اُن غلطیوں پر پردہ ڈالنا یا اُن غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش نہ کرنا اور اُن فیکٹرز پر کام نہ کرنا جو علیحدگی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
کامیابی کے لیے تو یہ ہے کہ لوگ سازشیں کرتے رہیں آپ کو ایک قوم کے طور پر مضبوط ہونا چاہیے کہ آپ دنیا کے ہر شخص کی سازش کو ناکام بنا دیں ۔ لیکن ہمارے ہاں اس کا فقدان نظر آتا ہے۔ ایک تو فوج کو یہ کام کرنا چاہیے کہ وہ بلوچستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرے، بلوچستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قوتوں کے ساتھ بیٹھ کر اسٹیک ہولڈرز کو مطمئن کریں اور اُن کی خواہشات کا احترام کریں۔
ڈائیلاگ کا عمل مسلسل قائم رہنا چاہئے، تاریخ بتاتی ہے کہ محض معاملات کو ٹھنڈا کرنے کا عمل قومی سلامتی کے لئے تباہ کن نتائج لیکر آتا ہے۔ خاندانی حکمران اور ان کے مسلح گروہوں سے بات کرنا ایسا ہی ہے کہ بلوچ عوام کو غلامی کی زنجیر میں ہمیشہ بندھا رہنے دیا جائے۔ بندوق کی نوک پر کسی بھی چھوٹے گروہ سے مصالحت کرنا مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ بلوچستان میں مقیم بلوچ اورغیربلوچ کو بھی ان کی سرزمین میں مدفون خزانے سے اپنی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کا حق ہونا چاہئے، جس کا انتظار یہ لوگ صدیوں سے کر رہے ہیں۔ بلوچوں کو ان کی زندگیوں سے احساس محرومی اور احتیاج سے نکالنا چاہئے، ہماری تمام تر ہمدردیاں ان بلوچ عوام کے ساتھ ہیں۔ ہر وہ بلوچ قبائل کا رکن جو بلوچستان سے باہر اپنی روزی روٹی کماتا ہے اسے اپنے قبائل کے سردار کو کچھ حصہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں حقیقی جمہوریت تب ہی قائم ہوسکتی ہے جب بلوچستان کا ہر بلوچ آزاد ہو۔
بلوچستان مستقبل کا سوئٹزر ہے اور اس سوئٹزر لینڈ کی آمدنی کا حق وہاں کے لوگوں کا ہے۔ اگر ہم پاکستانی آج بلوچستان پر توجہ دیں ، پنجابی، سندھی ، پٹھان اور دوسرے لوگ وہاں جا کر آباد ہوں اور بلوچستان کی ترقی میں کردار ادا کریں اور وفاق بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ ایک طرف رکھ کر وفاقی فنڈز میں سے نئے شہروں کو بسانے کا کام کرے، جس میں پاکستان کے تمام صوبوں کو یہ دلچسپی ہونی چاہیے کہ وہاں پر روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور بلوچوں کو پاکستان کے تمام دوسرے حصوں میں آباد کیا جائے بلوچوں کو ہمارے ڈی ایم جی گروپ میں قدرے نرم پابندیوں کے ساتھ آنے کا موقع دیا جائے۔ جس طرح فوج بلوچوں کو سہولتیں فراہم کررہی ہے بالکل اسی طرح سول حکومتوں کو بھی چاہیے کہ انہیں Accomodate کرے۔ بلوچی محب وطن پاکستانی ہیں اور وہ پاکستان کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں ۔ لیکن اگر آپ سازشوں کو ناکام نہیں بنائیں گے تو آپ کو مشرقی پاکستان والا سانحہ نہیں بھولنا چاہیے۔ (انشاءاللہ ایسا وقت نہیں آئے گا)
ہمیں ناصرف دشمنوں کو ناکام بنانا ہے بلکہ اپنے لوگوں کو مطمئن بھی کرنا ہے اور کامیاب پاکستانی بھی بنانا ہے۔ ہمیں ان چیزوں کو مل کر کامیاب بنانا ہے اور یہ کامیابی اُسی صورت میں مل سکتی ہے جب عسکری اور سول حکومتیں مل کر ملک کے لیے کام کریں ، تو لہذا ان دونوں قوتوں اور بلوچستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو آپس میں مل بیٹھ کر ان سب چیزوں کا حل نکالنا ہے۔ سوئی والوں کو گیس نہیں ملتی تو اس کی کیا وجہ ہے، گوادر اگر اتنا ہی بڑا گیم چینجر ہے تو گوادر کے عوام کو اس گیم چینجر کا کوئی فائدہ کیوں نہیں پہنچا؟ نواز شریف نے رائلٹی کی مد میں کوئٹہ کے لیے پانچ ارب روپے کا وعدہ کیا تھا تاحال نہیں ملے۔ خدارا حکمران کچھ تو خیال کریں اور اس ملک کو گریٹ گیم کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024