دریائے توی میں سیلاب آیا اور کئی دیہات ڈوب گئے۔ دیگر دریاﺅں میں سیلاب آیا۔ سیالکوٹ میں نالہ ڈیک اور نالہ ایک میں طغیانی آگئی۔ میڈیا میں دہائی ڈالی گئی کہ انڈیا نے پانی چھوڑ دیا۔ انڈیا نے پیشگی اطلاع نہیں دی۔ دریائے توی مقبوضہ کشمیر میں کالی کنڈی گلیشیئر سے نکلتا ہے۔ گلیشیر سے گزرنے کے بعد پہاڑوں سے پِگلا ہوا برف کا پانی شامل ہوتا ہے۔ میدانی علاقہ میں دریائے توی کی آب گیرہ (Catchment) میں اوسطاً 150 سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے۔ توی کی آبگیرہ میں ستمبر کے مہینے میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جو طغیانی کا سبب بنتی ہیں۔ دریائے توی جموں شہر کے وسط میں سے گزرتا ہے۔ میری دانست میں ابھی تک دریائے توی پر انڈیا نے کوئی ڈیم نہیں بنایا ہے۔ البتہ بھاگوتی نگر کے قریب شہری آبادی کے پینے کیلئے جھیل بنانے کا منصوبہ ضرور ہے۔ دریائے توی کو مست دریا کہتے ہیں۔ اس کی مستی میں آنے کا کوئی شیڈول نہیں ہے۔ جب مون سون میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو اچانک طغیانی آتی ہے اور تیزرفتاری کے ساتھ نیچے کے بہاﺅ میں تباہی مچاتا ہے۔ دریائے چناب کے بہاﺅ سے باہر Off Channal ڈیم بنا کر دریائے توی اور نالہ ایک نالہ ڈیک کے پانیوں کو ذخیرہ کرکے سیلاب کی تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر ڈیم بنانے کے معاملے میں حکومت چڑ جاتی ہے۔ ڈیم ہی تو نہیں بنانے۔ پھر اگر حکومت کو پیشگی اطلاع مل بھی جائے تو حکومت کیا کر سکتی ہے۔ انسانوں کے ساتھ عمارتیں‘ انفراسٹرکچر اور فصلوں کو کیا اونچائی پر اٹھا کر رکھ دیں گے تاکہ پانی اتر جائے تو پھر تمام عمارتیں‘ انفراسٹرکچر اور فصلوں کو دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ دیں۔ ڈیم بنائے بغیر سیلاب کی تباہ کاری سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ جو انسان بچ بھی گئے تو غربت اور تباہی کے اثرات سے متاثر ہوکر کسمپرسی کی زندگی گزاریں گے۔ کیا ان کا یہی مقدر ہے۔ سندھ طاس معاہدہ 1960ءکے تحت انڈیا کو دریائے بیاس‘ دریائے ستلج‘ دریائے راوی دیئے گئے۔ انڈیا نے دریائے بیاس کی روانی پر مختلف مقامات پر 23 پن بجلی گھر تعمیر کرکے 4495 میگاواٹ بجلی پیدا کی ہے۔ دریائے ستلج کے بہاﺅ پر مختلف مقامات پر 34 پن بجلی گھر تعمیر کرکے 8633 میگاواٹ بجلی پیدا کی ہے۔ ان تین دریاﺅں پر پانڈ ڈیمز بنا دیئے جن سے مجموعی طورپر 3420 میگاواٹ پن بجلی حاصل کر رہے ہیں۔ دریائے راوی‘ دریائے بیاس اور دریائے ستلج کے پانیوں کو استعمال کرکے مشرقی پنجاب‘ ہریانہ کے علاوہ بیکانیر‘ جیسلمیر اور راجستھان کی ریگستانی بنجر زمینوں کو زیرکاشت لاکر مجموعی طورپر 54 ملین ہیکٹر یا 133.4390 ملین ایکڑ یعنی تیرہ کروڑ چونتیس لاکھ انتالیس ہزار ایکڑ زمین زیرکاشت لائے ہیں۔ انڈیا نے دریائے راوی‘ دریائے بیاس اور دریائے ستلج کا ایک بوند پانی بھی سمندر میں نہیں پھینکا۔پاکستان کے پاس چار دریا رہ گئے۔ ان چاروں دریاﺅں میں گزشتہ سو برس کے ریکارڈ (1868-1968) کے مطابق پانی کا بہاﺅ درج ذیل ہے۔
1۔ دریائے کابل اٹک سے اوپر 27 (MAP) ملین ایکٹ فٹ‘ 2۔ دریائے سندھ اٹک سے اوپر 66 (MAP) ملین ایکڑ فٹ/ 93 (MAF)‘ 3۔ دریائے جہلم منگلا کے پاس 23 (MAF) ملین ایکڑ فٹ‘ 4۔ دریائے چناب مرالہ کے پاس 5 (MAF) ملین ایکڑ‘ 5۔ دیگر 147 (MAP) ملین ایکڑ فٹ
ابھی تک دریائے سندھ اور دریائے جہلم پر ایک ایک ڈیم بنایا گیا ہے۔ دریائے چناب پر کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا۔ ان تینوں دریاﺅں کا پانی لنک کینالوں کے ذریعے دریائے راوی اور دریائے ستلج میں ڈالا گیا ہے۔ دریائے سندھ‘ دریائے جہلم اور دریائے چناب میں سیلاب آتا ہے تو دریائے راوی اور دریائے ستلج میں زیادہ پانی رواں کرکے سیلابی پانی کو خارج کیا جاتا ہے۔ مگر پنجند کے مقام پر پھر سے یہ تمام پانی دریائے سندھ میں یکجا ہوکر صوبہ سندھ میں داخل ہوتا ہے۔ محکمہ آبپاشی کے ماہر انجینئروں کی پوری کوشش اور منصوبہ بندی یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح پانی کو سمندر میں پھینک دیا جائے۔ اگر بیراجوں کی گنجائش سے زیادہ پانی ہو تو دریا کے بند توڑ دیئے جاتے ہیں جس سے لاکھوں ایکڑ فصل برباد ہوتی ہے ، انسانی آبادیاں‘ انفراسٹرکچر برباد ہوتا ہے اور پورے ملک میں غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ڈوبی ہوئی آبادی میں انسانی المیہ جنم لیتا ہے۔ لوگ اوپر کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیلی کاپٹروں سے پھینکی ہوئی غذائی سامان کی وصولی کیلئے پریشان رہتے ہیں۔ حکومت کے وزرائ‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ لمبے بارانی بوٹ پہن کر ہمدردی کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ آئے دن کی اس انسانی المیہ کو رفع کرنے کیلئے کچھ نہیں کرتے۔
دوسری طرف ملک میں تقریباً 22 ملین ایکڑ قابل کاشت بنجر زمین کے باسیوں کے نصیب میں پینے کیلئے جوہڑ کا گندا پانی ہے۔ بے تحاشا پانی کے ہوتے ہوئے دو کروڑ بیس لاکھ ایکڑ قابل کاشت زمین بنجر پڑی ہے۔ اس کو زیرکاشت لانے کیلئے پانی کے ذخیرہ کرنے کے ڈیم نہیں بناتے۔
ماضی میں پاکستان میں دو ڈیم بنتے تھے جن کا مجموعی قابل استعمال پانی 16.04 MAF ملین ایکڑ فٹ تھا۔ یعنی منگلا ڈیم پر 5.34 ملین ایکڑ فٹ اور تربیلا ڈیم MAF 9.7 تھا جو ڈیم کی جھیلوں میں ریت / مٹی بھر جانے کی وجہ سے کم ہوکر 2014 میں منگلا ڈیم 7MAP 3.5 ملین ایکڑ فٹ اور تربیلا ڈیم 6.45 MAF ملین ایکڑ فٹ رہ گیا ہے۔ منگلا ڈیم کی اپ ریزنگ کرکے اونچائی میں 30 فٹ کا اضافہ کیا گیا جس سے 2.88 MAF ملین ایکڑ فٹ کا اضافہ ہوا۔ اب مجموعی قابل استعمال پانی ذخیرہ کی گنجائش 13.12 MAF ملین ایکڑ فٹ ہے۔ سندھ میں چوٹیاری ڈیم بن گیا ہے۔ جس کے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 0.75 MAF ملین ایکڑ فٹ ہے۔ چوٹیاری ڈیم کو بھرنے کیلئے LBOD کا زہرآلودہ پانی ڈال دیا جاتا ہے اس لئے چوٹیاری ڈیم کی جھیل کا پانی غیرمعیاری اور پینے کے قابل نہیں ہے۔
1953ءمیں کالاباغ ڈیم کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس میں تمام انفراسٹرکچر مکمل کیا گیا۔ ضرورت کی تمام زمین حکومت نے خرید لی تھی۔ ڈیم کی تعمیر پر کام کا آغاز بھی ہو چکا تھا مگر تیس برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اس ڈیم پر کام رکا ہوا ہے۔ کالاباغ ڈیم واحد ڈیم ہے جس کے ذریعے سیلابوں کو روکنے کی کامیاب منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ بلندی پر بنجر زمین زیرکاشت لائی جا سکتی ہے۔ صوبہ پنجاب میں میانوالی‘ بھکر اور چولستان وغیرہ‘ خیبر پختونخوا میں ٹانک‘ کرک‘ ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ اور سندھ میں تھر کا ریگستان اور بلوچستان کا کوہ سلیمان کی مشرقی وادی کی بنجر زمینوں کو زیرکاشت لایا جا سکتا ہے۔ ملک کی تین بڑی جماعتوں میں سے PTI نے عوام کے ساتھ کالاباغ ڈیم بنانے کا وعدہ کرکے پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا میں زیادہ حلقے جیت لئے ہیں۔ سٹیٹس کو کے جمود کو ختم کرنے کے نعرے لگانے والی سیاسی جماعت کے قائد نے کالاباغ ڈیم کے معاملے میں سٹیٹس کو کا جمود اختیار کیا ہوا ہے۔PML (N) اور PPPP ہر محاذ میں یکجا ہوکر کام کرتے ہیں مگر کالاباغ ڈیم کے معاملہ میں وہ بھی جمود کا شکار ہیں۔ عوام سیلابوں کی تباہی کے ستائے ہوئے غربت کی گہرائیوں میں دھنستے جا رہے ہیں اور حکمران غلط سہانے خواب دکھا کر عوام کو الجھا رہے ہیں۔
جوں جوں موجودہ دو عدد ڈیمز ریت اور مٹی سے بھر جائیں گے تو زراعت کیلئے فقط بارانی موسم کے 100 دن پانی ملے گا اور کپاس کی بروقت بوائی اور ربیع میں گندم کی آبیاری کیلئے پانی کی شدید قلت ہوگی۔ سیلابوں میں اضافہ ہوگا اور آہستہ آہستہ ملک میں کاشتکاروں کیلئے شدید بحران پیدا ہوگا۔ PPPP اور PML (N) اور PTI اور PAT کے رہبر و رہنماکرسی اور اقتدار کی جنگ و جدل سے باہر نکلیں۔ عوام کو جھوٹے وعدے اور خیالی جنت کے نظارے دکھانے‘ دھوکہ نگری سے باہر نکلیں۔ سیلاب عوام کی خوشحالی کو اور معیشت کو نگل رہے ہیں۔ عوام کو ابھی تک خوشنما وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ دھرنے دیئے بیٹھے ہوئے رہنماﺅ! حکومت سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مطالبہ بھی کرو۔ اگر عوام کے ساتھ سچے ہو تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا تحریری وعدہ بھی اپنے مطالبات میں شامل کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے کام کا آغاز مزید وقت ضائع کئے بغیر کرے۔ بصورت دیگر کاشتکاروں اور آبادکاروں کے عوامی سیلاب کے آگے کوئی بھی حکومت ٹھہر نہیں سکے گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024