روسی اخبارSputnik کی ایک حالیہ خبر کے مطابق روس میں متعین بھارتی سفیر پنکج سارن نے روس میں دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا :’’بھارت کی نظر میں روس اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون ایک غلط خارجہ پالیسی ہے۔ہم نے روسیوں پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان ایک دہشتگرد ملک ہے۔ دہشتگردی پاکستان کی حکومتی پالیسی ہے لہٰذا پاکستان کے ساتھ تعاون سے یقینا مستقبل میں کئی مسائل پیدا ہوں گے جبکہ روس اور بھارت کا دفاعی اور تکنیکی تعاون پوری دنیا میں امن اور استحکام کی ضمانت ہے۔اس لئے روس پاکستان کو چھوڑ کر بھارت سے تعاون کرے‘‘ بھارت کی نظر میں روس کی پاکستان کے ساتھ ’’دوستی 2016‘‘ فوجی مشقیں ایک غلط پالیسی کی ابتداء ہے کیونکہ مستقبل میں ان دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ مزید فوجی اور معاشی تعاون کے معاہدے بھی ممکن ہیں۔ یہ معاہدے اور قربتیں یقینا روس کو بھارت سے دور کر سکتی ہیں ۔ چین اور پاکستان چونکہ پہلے ہی مختلف معاہدوں میں منسلک ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مثالی دوستی بھی قائم ہے۔ چین پاکستان میں 46بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔دوسری طرف چین کے روس کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔
دونوں ممالک کے بہت سے مفادات مشترک ہیں لہٰذا یہ تعاون مستقبل میں روس ْ ، چین اور پاکستان کو معاشی اور دفاعی بلاک میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اگر یہ بلاک بن گیا تو کسی مناسب موقع پر افغانستان اور ایران بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان ایک مضبوط و مستحکم ملک بن کر سامنے آئیگا جبکہ بھارت خطے میں تنہا رہ جائیگا۔ مزید یہ کہ مضبوط پاکستان بھارت کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ اسی لیے جس دن سے روس پاکستان فوجی مشقیں شروع ہوئی ہیں بھارت انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔ روس اور پاکستان کی کسی بھی قسم کی قربت بھارت سے برداشت نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ مشترکہ فوجی مشقیں۔
بھارت شروع سے ہی روس کا ساتھی رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مختلف دفاعی ، معاشی اور ثقافتی معاہدے قائم ہیں۔ روس نے ہر مشکل مرحلہ پر بھارت کی مدد کی حتیٰ کہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں بھارت کے حق میں ویٹو تک کا استعمال کیا۔ مختلف بین الاقوامی پالیسیوںمیں بھی بھارت کو روس کا تعاون حاصل رہا جو تاحال قائم ہے۔ 1971 میں بھارت نے روس کی مدد سے ہی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کیا تھا جبکہ پاکستان کا اتحاد امریکہ اور نیٹو ممالک کے ساتھ رہا۔ پاکستان امریکہ کا ’’نان نیٹو‘‘ اتحادی اور ’’فرنٹ لائن‘‘ سٹیٹ بھی بنا۔ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے روس کوافغانستان میں شکست دیکر وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ یہ شکست روس کیلئے اتنی بھاری ثابت ہو ئی کہ وہ اپنی سا لمیت بھی برقرار نہ رکھ سکا اور1991 میں ٹوٹ گیا۔ کئی ایک وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوگئیں۔ یہ تھے وہ حالات جنہوں نے ہمیشہ روس اور پاکستان کو ایک دوسرے سے دور رکھا اور بھارت نے ان حالات سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اب روس کا پاکستان کی طرف جھکائو جبکہ چین پہلے ہی پاکستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری کررہا ہے تو بھارت کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارت بھلا یہ تبدیلی کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ اس پس منظر میں بھارتی سفیر کا انٹرویو بھارت کی مایوسی اور پریشانی ظاہر کرتا ہے۔
نریندر مودی ایک کٹر اور جنونی بنیاد پرست ہندو ہے۔ وہ پاکستان کیخلاف سخت پالیسی اپنانے کے وعدے ہی کی بنیاد پر اقتدار میں آیا۔ اقتدار میں آکر اس نے اپنا وعدہ سچ ثابت کرنے کیلئے پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ مودی نے پاکستان کے خلاف اپنی پالیسی کی بنیاد تین نقاط پر رکھی۔ اول یہ کہ فوجی لحاظ سے بھارت کو اتنا مضبوط کر دیا جائے کہ پاکستان بغیر جنگ کئے ہوئے بھارت سے مغلوب ہو جائے۔ سکم،بھوٹان اور نیپال کی طرح سیٹیلائیٹ سٹیٹ بن جائے۔ اس مقصد کیلئے اس نے روس کے ساتھ اتحاد کی قدیم پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے روس مخالف امریکی کیمپ میں چلا گیا۔ امریکہ سے سٹریٹجک معاہدہ کیا جس سے اسے جدید امریکی ہتھیاروں کے حصول تک رسائی ملی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق 15ارب ڈالرز کے ہتھیار خریدنے کی بات چیت ہو رہی ہے۔ امریکہ سے دوستی کی وجہ سے یورپی ممالک نے بھی اپنے ہتھیاروں کی سیل کے دروازے کھول دئیے ۔ لہٰذا فرانس سے 9ارب ڈالر کے 46 رافیل لڑاکا طیارے خریدے جا رہے ہیں۔ مختلف یورپی اور امریکی آرمز کمپنیوں سے بھارت میں ہتھیاروں کی فیکٹریاں لگانے پر بھی بات چیت جاری ہے۔ امریکہ اور یورپ دوستی ہی روس سے دوری کا سبب بنی۔ روس بھی اپنے پرانے اتحادی کا امریکی کیمپ میں جانا پسند نہیں کر سکتا۔ پاکستان مخالف بھارتی پالیسی کے دوسرے دو نقاط میں پاکستان کو سیاسی طور پر تنہا کرنا اور پاکستان کو ایک دہشتگرد ملک ثابت کرنا ہے۔ بھارت کی یہ پالیسی بھی تاحال کامیاب جارہی ہے۔ بھارت نے ہمارے پڑوسی مسلمان ممالک ، عرب امارات اور سعودی عرب سے مختلف معاہدے کرکے پاکستان کیخلاف ان ممالک کو ورغلانے میں کوشاں ہے۔ سارک کانفرنس کے معاملہ میں افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال کو ساتھ ملا کر پاکستان کو تنہا کر چکا ہے۔رہا سوال پاکستان کو دہشتگردثابت کرنے کا تو وہ یہ معاملہ دنیا کے ہر فورم پر اٹھا رہا ہے۔ G-20، آسیان اور حال ہی میں برکس کانفرنس کے مواقع پر بھارت کا واویلا اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ دراصل امریکہ سے دوستی کا بھی ایک مقصد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں دراڑ ڈالنا اور پاکستان کو امریکہ کی نظروں میں دہشت گرد ثابت کرتا ہے۔
اب روس کو پاکستان کے قریب جاتے ہوئے دیکھ کر نریندر مودی میں پاکستان دشمنی کی آگ ایکدفعہ پھر بھڑک اٹھی ہے۔ روس کو پاکستان سے دور کرنے اور اپنے قریب لانے کیلئے دوبارہ کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس مقصد کیلئے بھارت نے 15اکتوبر کو گوا میں ہونیوالی برکس (Brics) کانفرنس کو استعمال کیا۔برکس سربراہ کانفرنس کے موقعہ پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولا دیمیر پیوٹن نے دفاع ،سرمایہ کاری،توانائی ، جہاز سازی اور خلا کے شعبوں میں اربوں ڈالرز کے 20معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی بھارت روسی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار تھا اور بھا رتی فوج کے تقریباً70فیصد ہتھیار روسی فیکٹریوں کے ہی تیار کردہ ہیں۔ موجودہ معاہدوں کی مالیت دس بلین ڈالرز بتائی جاتی ہے اور یہ سابق معاہدوں کی تجدید ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق بھارتی لسٹ میں کئی قسم کے خطرناک اور تباہ کن ہتھیار شامل ہیں۔ اس میں بھارت پانچ S-400Triumf لانگ رینج ائیر ڈیفنس سسٹم خرید رہا ہے جو نہایت جدید اور تباہ کن سسٹم ہے ۔ یہ 40کلومیٹر سے لیکر 400کلومیٹر تک ہر قسم کے جہازوں بشمول ریڈار پر نظر نہ آنیوالے جہازوں تک کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ سسٹم پاکستان ائیر فورس کی پاکستان کے اندر بھی پروازوں کو فائر کر سکتا ہے۔
دوسرے نمبر پر 28ہیلی کاپٹرز اور اپ گریڈڈ Sukhoi30MK1فائٹرز ہیں۔ 1.5بلین ڈالرز کی Akulaکلاس سب میرین اور چار عدد ایڈمرلGrigorovich کلاس گائیڈڈ میزائیل نظر نہ آنیوالے فریگیٹ بھی شامل ہیں۔ انکے علاوہ 5th جنریشن فائٹر ائیر کرافٹ ، نئی قسم کے 200ہلکے ہیلی کاپٹرز اور براموس کے جدید اور چھوٹے سائز کے کروز میزائیل بھارت میں تیار کئے جائینگے۔ یہ میزائیل پہلے ہی بھارتی فوج استعمال کر رہی ہے۔ جدید قسم کے چھوٹے میزائیل300کلومیٹر تک جا سکیں گے جو پاکستان کے اندر دہشتگردی کے انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ میزائیل زمین، ہوا اور سب میرین سے بھی فائر کئے جاسکتے ہیں۔مزید یہ کہ 30 بلین ڈالرز کے دو نیو کلیئر پاور ری ایکڑز کی تعمیر کا معاہدہ بھی زیر غور ہے۔ ان ہتھیاروں کے حصول کے بعد بھارت پاکستان کی سلامتی کیلئے یقینا ایک بہت بڑا خطرہ بن جائیگا جسکا پاکستان کو ابھی سے ادراک ہونا چاہیے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024