14اگست کے بعد سے حکومت کی قسمت کا ستارہ عروج سے زوال کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سرکرنا کٹھن کام ہے لیکن نیچے آتے ذرا دیر نہیں لگتی۔ مینڈیٹ ہلکا ہو یا بھاری اعمال کی کمزوری اسے لے بیٹھتی ہے۔ زبانی باتوں سے کوئی کب تک رعایا کو بہلا سکتا ہے۔ حکومت کے اندر رہ کر باتیں بنانا مشکل جبکہ باہر رہ کر باتیں بنانا آسان ہوتا ہے۔ سہانے سپنے حکومت سے باہر رہ کر ہی دکھائے جاتے ہیں۔ کسی فرد واحد یا حکومت کی کارکردگی جا نچنے کیلئے 16ماہ کم تو نہیں ہوتے۔ مخالفین کی باتیں سن کر انسان چونک جاتا ہے۔ 60دن کے دھرنے اب جلسوں میں بدلتے جا رہے ہیں۔ حکومت کی بغل میں بیٹھنے والی فرینڈلی اپوزیشن بھی جلسوں کے میدان میں اتر آئی ہے۔ چاروں طرف مخالفت کا شور و غوغا سن کر بھی حکومت نے کان بند کر رکھے ہیں۔ اسے یہ یقین ہے کہ آصف علی زرداری نے رات دن مخالفت کے باوجود بالآخر 5سال پورے کر لئے تھے تو نواز شریف کا گراف تو ان سے اونچا ہے وہ 5سال پورے کیوں نہیں کر پائینگے۔ 2018ابھی بہت دور ہے سیاست کی ہانڈی تو 2014 سے ہی ابلنا شروع ہو چکی ہے ۔زیادہ ہوشیاری اور چالاکی انسان کو لے بیٹھتی ہے ۔بجلی کے اضافی بلوں کے ذریعے 70 ارب روپے جمع کرنے کی ہوشیاری مہنگی پڑیگی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو بجلی کے اضافی بلوں کی وصولی سے روک دیا ہے۔ پنجاب میں بھی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے اہلکاروں نے پچھلے سال کی نسبت 50فیصد سے زائد اضافہ کر کے چالان تقسیم کر دیئے۔ پراپرٹی ٹیکس دہندگان کیلئے ایسا انجکشن بری گورننس نہیں تو اور کیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ Ebolaکی طرح مہلک بیماری ہے جس سے پہلے ڈاکٹر آصف علی زرداری اور اب ڈاکٹر نواز شریف ذرا سا افاقہ نہ دلا سکے۔ جدید دور کی زندگی اور ترقی بجلی ہی کی محتاج ہے۔ اللہ نے رزق کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن بجلی اور گیس کا بندوبست تو انسانوں نے کرنا ہے۔
جتنا قیمتی وقت اہالیان پاکستان کا سڑکوں پر ضائع ہو رہا ہے دنیا کے کسی اور ملک کے شہریوں کا نہیں ہو رہا۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے زندگی کا پہیہ اگر جام نہیں تو جوں کی چال ضرور چل رہا ہے۔ پاور کمپنیوں کے ہاتھوں پوری قوم بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ دھرنے اور جلسے اب تک تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ دنیا بھر میں سستی بجلی کی فروانی ہے چین ہو یا عرب امریکہ ہو یا یورپ ہر ملک بجلی کی فروانی سے جگمگا رہا ہے۔ قابل ستائش ہیں وہ طالب علم جو چھ سال سے گھروں میں یو پی ایس کے بغیر پڑھ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو گئے۔
نواز شریف تو وژن2050سامنے لا چکے ہیں لیکن ویژن 2014ءکو تو لوڈ شیڈنگ کے بادلوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ پانی ہوا اور سورج کی توانائی سے توانائی کا مسئلہ حل کر دینے کے دعوے ہو رہے ہیں۔ 2050تک جوہری توانائی سے بھی 42ہزار میگا واٹ بجلی میسر آئیگی۔ باتیں جتنی کر لی جائیں کم ہیں پلاننگ کمیشن ہو یا صوبائی سطح پر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے محکمے، ماضی میں بھی پنج سالہ منصوبے پیش کرتے رہے اور اب وژن 2050کی فلم چلا رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ تیل کیلئے کنوﺅں کی کھدائی ہو رہی ہے، بجلی کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے لیکن ہانڈی کب تک تیار ہو گی اس بارے میں Cookحتمی طور پر کچھ بتانے سے معذور ہے۔ ملک میں گیس کی پیداوار 4.2ارب کیوبک فٹ یومیہ ہے جبکہ گیس کی طلب 6.5ارب کیوبک فٹ ہے۔ بھاشا ڈیم جب بنے گا دیکھا جائیگا، فی الحال تو بجلی کا 5ہزار میگا واٹ کا شارٹ فال کون دور کریگا۔ تھر کول 25کھرب ڈالر مالیت کا خزانہ ہے۔ بات تو تب ہے یہ خزانہ ہاتھ آ جائے ۔
اتنے بڑے خزانے کو للچائی نظروں سے کون نہیں دیکھے گا۔ امریکہ کی للچائی نظروں میں عربوں کے تیل گیس اور سونے کے خزانے ہی تو ہیں۔ بلوچستان بھی ایسے خزانوں سے مالا مال ہے لیکن یہ خزانے قسمت والوں کے ہاتھ ہی لگیں گے۔ حکومت دھرنوں اور جلسوں کو اپنے لئے لمحہ فکریہ نہیں سمجھ رہی۔ ملتان میں جاوید ہاشمی کے مقابلے میں عامر ڈوگر کی کامیابی ووٹروں کی سوچ میں تبدیلی کا عندیہ دے رہی ہے۔ حکمران مخالفوں کی ہر بات کو رد کر کے اپنا مینڈیٹ نہیں بچا سکتے۔ دور حاضر میں جمہوریت کو بچانے کی باتیں کرنیوالے قد آور سیاست دان در اصل اپنی سیاست اور اقتدار کو گرم ہوا سے بچانا چاہتے ہیں۔ حکومت لوڈ شیڈنگ اوور بلنگ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی بجائے میگا پراجیکٹس کی باتیں کرتی ہے۔ سماج میں برائیاں زور پکڑ رہی ہیں جرائم اور سماج دشمن سرگرمیوں پر ٹی وی چینل کیا کچھ نہیں دکھا رہے۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں لازمی ڈینگی پیریڈ کی ہا ہا کار مچی ہے ڈینگی پیریڈ نہ لینے والے اساتذہ کے سروں پر ملازمت سے برطرفی کی تلوار لٹکائی جا رہی ہے یہی تلوار کم تولنے والوں نا جائز منافع خوروں ملاوٹ کرنے والوں کے سروں پر کیوں نہیں لٹکائی جاتی۔ بجلی، پولیس ،ایکسائز ،کسٹم ،انکم ٹیکس میں کونسا سرکاری ملازم ایسا ہے جو پارسائی کا دعویٰ کر سکے۔ زمینی حقائق کو نہ کوئی جھٹلا سکتا ہے نہ ان پر پردہ ڈال سکتا ہے۔کراچی میں بلاول بھٹو زرداری کے جلسے کے بعد پی پی پی نے بھی کمر کسنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کی کتاب علیحدہ ہے ۔انہیں کلیات میں نہیں بدلا جا سکتا۔ ہر کتاب کے مصنف کی سوچ اور فکر جدا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور 40سال سے سیاست کی مار کھانے والوں کےلئے بلاول ایک امید اور ایک خزانہ ہے۔ نوجوان میدان میں اترتے اور جم کر کھیلتے ہیں تو تجربہ کاروں کو روٹی ملتی اور دال گلتی ہے۔ عمران نوجوانوں کو Attractکر رہے ہیں تو جیالوں کو بلاول Attractکرینگے۔ یہی کشش پی پی پی کے تنِ مردہ میں جان ڈل دے گی ورنہ پی پی پی کے پاس شہادتوں کے اثاثے کے سوا کچھ نہیں۔ اسکے اپنے ادوار حکومت میں عام لوگ تو خوار ہی رہے ہیں۔ آنیوالے دور کی سیاست میں برادری، گدی یا دھڑے زیادہ موثر ثابت نہیں ہونگے۔ جاوید ہاشمی کا باغی کہلوانا کوئی خوبی کی بات نہیں انہیں اعتراز احسن کی طرف دیکھنا چاہئے جنہوں نے ہر سرد و گرم میں پی پی پی کے ٹینٹ سے نکلنے کی کوشش نہیں کی۔ انہیں آج بھی اپنے جیالا ہونے پر فخر ہے۔نیا پاکستان سمجھنے میں کچھ لوگوں کو دشواری ہو رہی ہے اس کا مطلب ہے کہ 67سال میں پاکستان کے چہرے پر کرپشن اور آمریت نے جو گرد ڈالی ہے اسے صاف کر دینے سے قائد اعظم نے جس پاکستان کا سوچا تھا وہ چہرہ سامنے آ جائیگا۔ کیا 67سال ووٹروں سے جھوٹ نہیں بولا جاتا رہا۔ بلاول کہتے ہیں ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کا واحد حل بھٹو ازم ہے حالانکہ بھٹو ازم نے ہی ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا تھا۔ نیشنلائزیشن بھٹو ازم تھا۔ اب ملکی سیاست بلوغت کی طرف جا رہی ہے۔ جہاں ضیاءازم چلے گا نہ بھٹو ازم۔ اس دور کا المیہ ہے کہ سیاست کی زبان میلی ہوتی جا رہی ہے نا بالغ سیاستدان بالغ سیاستدانوں کو کہیں مداری اور کہیں کٹھ پتلیاں کہہ رہے ہیں۔ کہیں ایک دوسرے کو پادری اور کہیں ڈیزل کہتے ہیں۔ ایوب خان سے لیکر آج تک کے سیاستدان آمریت کا فیڈر منہ سے لگا کر جوان ہوئے بھٹو صاحب بھی جلسوں میں مخالفین کا مذاق اڑایا کرتے تھے کسی کو آلو خان اور کسی کو توفیل (طفیل)کہتے تھے تمسخر اڑانے کی وہی کتاب کسی جیالے نے بلاول کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔ یہ ٹھیک ہے نواز شریف کو عوام نے 5سال کا مینڈیٹ دیا ہے لیکن کچھ کرنے کیلئے دیا ہے۔ عمران خان اثاثے ڈکلیئر کرنے کی بات کرتے ہیں تو ان کی بات ماننے میں کیا حرج ہے۔ سارے سیاستدان ایک دوسرے کو ایجنٹ کہتے ہیں۔ سیاسی سکرپٹ کی بات کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے ساری سیاست ایک ڈرامہ ہے مضبوط سکرپٹ والا ڈرامہ باکس آفس پر کامیاب ہو گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024