جی ہاں میں ہوں گلو بٹ‘ میں نے سانحہ ماڈل ٹا¶ن میں لوگوں کی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی‘ میں طویل عرصے سے حکمران جماعت سے وابستہ اور پولیس ٹا¶ٹ کے عہدے پر فائز رہا میں ایک چھوٹا سا مقامی بدمعاش تھا جس کی آواز قومی میڈیا نے پوری دنیا میں پہنچا کر حق ادا کر دیا۔ مجھے گلو بٹ ہونے پر فخر ہے اور کیوں نہ ہو کہ میری وجہ سے ہم جیسے چھوٹے سیاسی کارکنوں اور مقامی بدمعاشوں کے تلخ اوقات کار سے دنیا کو آگاہی ہوئی‘ یہ ہمارے جیسے چند سیاسی ورکر ہی تھے جو آج حکمران جماعت میں بڑے عہدوں پر فائز ہیں بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی ہم جیسے سیاسی ورکروں کی کمی نہیں‘ آخر ماضی میں جمہوریت کی گاڑی کی توڑ پھوڑ کرنیوالے آج وزیراعظم بھی تو ہیں ناں! وہ تو شرمندہ ہونگے مگر میں اب بھی شرمندہ نہیں‘ انہوں نے بھی ٹھیک کیا تھا میں نے بھی ٹھیک کیا ہے‘ ماڈل ٹا¶ن کے سانحے کے بعد مجھے یہ محسوس ہوا کہ میڈیا نے میرے ہاتھوں گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کے مناظر کو کچھ غلط انداز میں پیش کیا ہے میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ماڈل ٹا¶ن کے سانحے میں میرے ڈنڈے سے ایک بھی انسانی جان نہیں گئی‘ اسکے باوجود میری پولیس ریمانڈ سے جان ہی نہیں چھوٹ رہی جبکہ گولیاں چلانے والے پولیس کے تمام افسران و اہلکار ابھی بھی قانون کے شکنجے میں نہیں آئے۔ کمال ہے کہ گاڑیوں پر ڈنڈے چلانے کے باعث میں تو ابھی تک جیل میں ہوں اور انسانوں پر گولیاں چلانے والے انسانوں کیلئے باقاعدہ کمیشن بنا کر ان سے محض سوال جواب ہی کیا جا رہا ہے کیا اس ملک میں ڈنڈا چلانے والے کی کوئی عزت نہیں کیا ہمیں بچپن سے یہ نہیں پڑھایا گیا ؟کہ ہم ڈنڈے کی قوم ہیں اور ڈنڈوں سے حکمرانی کرنیوالوں نے ہمارے ملک کیلئے کتنی عظیم خدمات سرانجام دیں۔ کیا ”ڈنڈا کرنا“ ہمارے قومی ادب اور الیکٹرانک میڈیا کے مباحثوں میں استعمال نہیں ہوتا؟ اور پھر آج تک لاکھوں پاکستانیوں پر جو ڈنڈے برسائے گئے اسکے جرم میں کتنے پولیس والے اور بدمعاش لوگ میری طرح جیلوں میں پڑے ہیں۔ جس ملک میں لوگ صرف اس لئے زیادہ بچے پیدا کرتے ہوں کہ خدانخواستہ کوئی دہشت گردی ‘ ریاستی غنڈہ گردی ‘ یا ذاتی عناد کا شکار ہو بھی گیا تو بڑھاپے کے سہارے کیلئے دوسرے بچے بروقت جوان ہو چکے ہونگے ‘ اس ملک میں ڈنڈا رکھنا کتنا بڑا جرم ہے میرے جیسا بندہ اپنے اسلحہ لائسنس کیلئے اپنے کونسلر‘ ایم پی اے اور ایم این اے کی سفارش بھیک کی طرح مانگتا ہے اور پھر بھی لائسنس نہیں ملتا تو کیا ایک غریب آدمی ڈنڈا بھی نہیں رکھ سکتا۔ ظاہری بات ہے جس کے پاس جو ہوتا ہے وہی استعمال کرتا ہے میرے سیاسی لیڈران شادی بیاہ‘ مجروں اور جھگڑوں میں اسلحے کی فائرنگ کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرتے ہیں تو کیا میں اپنی مایوسیوں اور محرومیوں کا غصہ گاڑیاں توڑ کر نہیں تو اپنے سیاسی قائدین کی کھوپڑیوں پر ڈنڈے چلا کر اتاروں؟ اب میں اتنا بے وقوف بھی نہیں جتنا میڈیا نے مجھے بنا رکھا ہے بہرحال میں میڈیا کا مشکور ہوں کہ میری تحریک کو مناسب کوریج دیکر غریب سیاسی کارکنوں کی آواز بھی سنی گئی‘ میرے ساتھیوں نے اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ پر حملہ کرکے ”عوامی ڈنڈے“ کی طاقت کا لوہا منوایا تھا ابھی بھی میرے جیسے ہزاروں گلو بٹ تمام سیاسی جماعتوں بلکہ مختلف قومی اداروں میں ملک و قوم کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں جن کی میڈیا میں پذیرائی ان کا بنیادی حق ہے دوسری طرف سیاسی اور غیر سیاسی گلو بٹ آئے دن جمہوریت کی گاڑی کے شیشے توڑتے رہتے ہیں مگر انکی ایسی پذیرائی نہیں ہوتی جیسی میری ہوئی ہے فرق صرف اتنا تھا کہ جمہوریت کی گاڑی کے شیشے توڑنے والے ان گلوبٹوں کو عزت اور احترام سے اقتدار کے ایوانوں میں بٹھایا گیا اور عدالتوں اور پولیس نے بھی اپنے فیصلوں اور رپورٹوں میں ان کی خدمات کو سراہا۔ ایسے حالات میں پولیس کی طرف سے تھانے میں مجھے چائے پیش کئے جانے پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے میرا میڈیا اور عدالتوں سے ایک ہی سوال ہے کہ ایک گاڑی کا شیشہ اور آئین توڑنے میں کتنا فرق ہے! مجھے تو وقوعہ کے فوراً بعد گرفتار کر لیا گیا اور میری فلمیں چلا کر میڈیا نے بھی خوب مال کمایا مگر 12 اکتوبر 1999 اور 3 نومبر 2007 کو جنرل مشرف نے جو آئین توڑا کیا اس کی فلمیں میڈیا کے پاس نہیں تھیں کیا 2007 ءمیں جو کچھ مشرف نے کیا اسکی ویڈیو اس کی گرفتاری کیلئے کافی نہیں تھی؟ کیا ہمارے ملک میں گاڑی کا شیشہ توڑنا آئین توڑنے سے بڑا جرم ہے؟ گاڑی توڑنے والے کو تو تھانے اور حوالات میں بٹھایا جاتا ہے اور آئین توڑنے والے کو اسلام آباد کے وسیع العریض فارم ہا¶س میں رہائش دی جاتی ہے کیا میں بھی ماڈل ٹا¶ن میںتوڑ پھوڑ کے بعد ایک شاندار گارڈ آف آنر کا حق دار نہیں تھا؟کیا گاڑی توڑنے کی پاداش میں کچہری کے اندر وکلاءکے مکے‘ تھپڑ ‘ ٹھڈے اور لاتیں صرف چھوٹے بدمعاشوں کا مقدر ہیں ؟ 12 مئی 2007ءکو کراچی میں جو قتل عام ہوا اور اس سے پہلے لال مسجد اور اکبر بگٹی کا قتل کیا وہ سب میرے ڈنڈے نے کیا تھا ؟ کیا یہ جنرل مشرف کا وہ ڈنڈا نہیں جو انہوں نے ایک تقریب میں جنرل کیانی کے حوالے کیا اور آج کل وہ وزیراعظم ہا¶س کی چند ملاقاتوں کی تصاویر میں نمایاں نظر آتا ہے۔ جو نقصان ہمارے ملک اور آئین کو اس ڈنڈے نے پہنچایا ہے اتنا نقصان تو میرا ڈنڈا کبھی بھی نہیں کر سکتا۔ حکومت اور میڈیا کو میرا ڈنڈا ہی کیوں برا لگتا ہے ڈاکٹر طاہر القادری ‘ عمران خان اور دوسرے سیاسی قائدین کو جتنا دکھ ماڈل ٹا¶ن کے سانحے اور میرے ڈنڈے کا ہے اتنا ہی دکھ ان لیڈران کو جنرل مشرف کے دور میں 12 مئی کو کراچی کے قتل عام اور مشرفی ڈنڈے کا کیوں نہیں ؟
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہم آہ ! بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
میں گلو بٹ دعوے سے کہتاہوں کہ مذکورہ دو ڈنڈوں کی اگر آج بھی عوام میں نیلامی کی جائے تو گلو بٹ کا ڈنڈا زیادہ قیمت پر بکے گا کیونکہ گلو بٹ کے ڈنڈے نے نہ صرف ہمارے معاشرے کو آئینہ د کھایا ہے بلکہ ہمارے سیاستدانوں اور بندوق برداروں کو بھی کچھ پیغام دینے کی کوشش کی ہے جبکہ دوسرے ڈنڈے نے ہمیشہ صحت مند بحث اور اظہار رائے کی کھوپڑی پر وار کیا ہے آخر ہماری سیاسی قیادت اور عدالتیں کب تک مجھ جیسے گلو بٹوں کے ڈنڈوں کو قبضے میں لیتی رہیں گی۔آخر کب تک ہم جیسے چھوٹے بدمعاش اپنی سوٹے بازی کی سزا کاٹتے رہیں گے اور بڑے بدمعاشوں کے حواریوں سے پٹتے رہیں گے ؟ میں اس امتیازی سلوک کیخلاف آواز احتجاج بلند کرتا ہوں۔یہ کیسا دستور زمانہ ہے کہ مجھ جیسے کارکنوں کو ستارہ جمہوریت دینے کی بجائے عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
ایسے دستور کو ‘ صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا
ہاں میں ایسے نظام کا باغی ہوں‘ مجھ پر بھی بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے اگر نہیں تو ڈنڈے کے بے جا استعمال کے جرم میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ قائم کیا جائے اور خصوصی عدالت تشکیل دی جائے میں تاریخ کی درستگی کیلئے ”سب سے پہلے پاکستان“ کے عنوان سے کتاب بھی لکھوں گا اور آئندہ نسلوں کو بتا¶ں گا کہ ہم ڈنڈے کی قوم ہیں اور کبھی کبھی ڈنڈا چلانا کتنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہ نظام اب ہم جیسے گلو بٹوں کو ڈنڈا چلانے یا ملک سے باہر جانے سے نہیں روک سکتا میں واضح کردوں کہ میرے خلاف مقدمے کے باعث تمام جماعتوں کے سیاسی کارکنوں میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے اور ان کا مورال نیچے آگیا ہے ایک ایسے وقت میں جب جمہوریت کی بقاءکیلئے جنگ جاری ہے میرے خلاف مقدمہ جمہوریت کے مستقبل کیلئے خطرناک ثابت ہوگا....
تم کتنے گلوبٹ مارو گے
ہر گھر سے گلو بٹ نکلے گا
میرا بٹ ‘ تیرا بٹ .... گلو بٹ گلو بٹ
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38