قصور میں زینب کا اغواء ‘ زیادتی اور قتل جیسا بدترین واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بچوں اور بچیوں کے اغوائ‘زیادتی اور قتل کے واقعات ملک بھر خصوصا پنجاب میں کثرت سے ہوئے ہیں۔ہمارا معاشرہ اب اس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے جہاں معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔پنجاب کے کئی درجن ایسے واقعات میڈیا میں آرہے ہیں لیکن چند کیسوں میں مجرم نا معلوم ہے باقی میں باقاعدہ نشاندہی ہونے کے باوجود مجرم آزاد ہیں۔اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں16سالہ لڑکی کو برہنہ کرکے بازار میں گھمانے والے لوگوں کا اب تک کیا ہوا؟سب سے پہلے واقعہ پر اگر وزیر اعلی ‘آئی جی اور مقامی انتظامیہ حرکت میں آکر مجرم کو کیفر کردار تک پہنچاتی تو ان واقعات کا اعادہ نہ ہوتا او ر زینب بھی درندگی سے بچ جاتی۔پہلے واقعے پر کارروائی کیوں نہ ہوئی؟کیونکہ وہ واقعہ میڈیا میں نہیں آیا تھا اگر پہلے واقعے کی اسی طرح موثر میڈیا رپورٹنگ ہوتی تو یقینا اس طرح کے واقعات مزید نہ ہوتے لیکن زینب کے واقعہ پر میڈیا کوریج پر پنجاب حکومت سیخ پا ہے اور کئی اینکرز کے ساتھ ناشائستہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔میڈیا کا کام معاشرے کے مسائل کو اجاگر کرکے ذمہ داران کی نشاندہی کرنا ہے۔ہمارا میڈیا بہترین طرز پر فعال ہے۔زینب کے اغواء سے لاش ملنے تک کے عرصے میں با اختیار پولیس کارروائی کیوں نہ کرسکی؟حالانکہ یہ ہی پولیس ماڈل ٹاون میں14بے گناہ عورتوں اور بزرگوں کیلئے شیر تھی۔زینب کے واقعہ کے بعد احتجاج کرنیوالوں پر فائرنگ کرنے کیلئے شیر بن گئی لیکن اصل مجرم تک پہنچنے میں اب تک نا کام ہے۔مجرم کی عدم گرفتاری پر میڈیا سوالات پر پنجاب حکومت کا رویہ تشویشناک ہے۔سنا ہے زینب کی لاش ورثاء کو دینے کیلئے بھی پولیس نے رشوت طلب کی تھی۔میں ذاتی طور پر ن لیگ حکومت کی مجموعی کارکردگی سے مطمئن ہوں لیکن اس معاملے میں پنجاب حکومت کے پاس سوالات کے جواب نہیں ہیں۔وزیر اعلیٰ رات کے اندھیرے میں زینب کے گھر آئے جس سے عوامی غم وغصے کا احساس مزید اجاگر ہوتا ہے۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ اپنے علاقوں میں پولیس و انتظامیہ اپنی مرضی کی تعینات کراتے ہیں تا کہ علاقے کے عوام کے کام اپنے اشاروں سے کراسکیں۔موجودہ نظام میں پٹوار خانے اور تھانے پر سیاستدانوں کی اجارہ داری ہے۔اب زینب کا معاملہ ہو یا کئی اور واقعات‘ جن میں مجرموں کا پتہ نہیں چل رہا اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انتظامیہ و پولیس کی تقرری میرٹ کے بجائے سفارش ورشوت کے عوض ہوتی ہے۔زیادہ امکان یہی ہے کہ زینب سمیت ایسے واقعات کے اصل کرداروں سے نہ صرف پولیس اچھی طرح واقف ہے بلکہ جان بوجھ کر چشم پوشی ہو رہی ہے۔اسی لئے تو زینب کے والدین نے آرمی چیف اور چیف جسٹس سے اپیل کی کہ اس معاملے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔آرمی چیف سے اپیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت‘ پولیس اور انتظامیہ پر زینب کے والدین کو بالکل ہی اعتماد نہیں ہے۔اب شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملزم کی کی تلاش میں دن رات کوشاں ہیں اور سارے معاملے کی خود نگرانی کر رہا ہوں۔وزیر اعلی پنجاب کو چاہئے کہ پولیس و انتظامی بھرتی کے طریقہ کار کو میرٹ پر لائیں اور میرٹ پر آنے والے لوگ ہی کامیابی سے امن قائم کر سکتے ہیں۔وردیوں کا رنگ تبدیل کرنے سے ادارے کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔
سیاستدانوں کی ذاتی پسند و نا پسند پر تعینات ہونے والے پولیس افسران کی اس کارکردگی کے ذمہ دار خود سیاستدان ہیں اور اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ قصور و گردنواح میں ہونے والے ایسے 8واقعات کا ذمہ دار ایک ہی شخص ہے۔یعنی زینب 8واں شکار بنی۔ اس سے قبل 7کیسز میں بھی کچھ نہیں ہوا۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایک شخص اس قدر وارداتیں کر رہا ہے لیکن پولیس کی پکڑ سے آزاد ہے۔اس قدر نا قص کارکردگی اس بات کی شاہد ہے کہ ملزم کا ایسا کوئی سر پرست ہے جو اسے ان تمام گھنائونی وارداتوں کے بعد میڈیا و سول سوسائٹی کے دبائو کے باوجود گرفتاری سے بچا بیٹھا ہے۔پولیس کی اس قدر ناقص ترین کارکردگی کے باوجود پنجاب کے وزیر قانون آخر کار اس کا دفاع کیوں کر رہے ہیں؟زینب سے قبل ہونے والے کئی درجن واقعات میں کیوں کچھ نہ ہو سکا؟قوم تو تمام واقعات کے مجرموں کو سڑکوں پر لٹکانے کا پر زور مطالبہ کر رہی ہے لیکن ان سے تو صرف زینب کے واقعے کا مجرم نہیں پکڑا جا رہا۔ڈیرہ غازی خان ہو یا پنجاب و سندھ کا کوئی علاقہ‘بلوچستان ہو یا گلگت بلتستان یہ تمام علاقے اس ملک کا حصہ ہیں جو ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا اور اب سول سوسائٹی اگر اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہی ہے تو یہ کیسے کہاجا سکتا ہے کہ زینب کے واقعے پر سیاست کی جا رہی ہے۔زینب سے قبل ہونیوالے درجنوں واقعات جو میڈیا پر نہ آسکے ان پر نہ احتجاج ہوا نہ کسی نے سیاست کی۔ ان واقعات کا کیا ہوا؟ان واقعات میں تو مجرموں کا علم ہونے کے باوجود مقامی پولیس نے کچھ نہیں کیا؟
ہمارے ملک میں زیادتی کے تو اکثر واقعات کی رپورٹ ہی درج نہیں ہوتی کیونکہ پہلے زیادتی ہو چکی ہے اور مزید بدنامی سے بچا جا سکے۔جن کی رپورٹس درج ہوئی ہیں تو انہیں کونسا انصاف مل گیا ہے؟ پنجاب حکومت کو اپناطرز عمل درست کرنا ہوگا اور سب سے پہلے میرٹ اپنا کر راشی‘سفارشی اور نا اہل افراد کو فورا ہٹائیں اور میڈیا سے اپنے رویئے کو درست کریں۔پنجاب بھر میں ہونے والے ایسے واقعات اور ان پر ہونیوالی کارروائی کی رپورٹ دیکھ کر وزیر اعلی شہباز شریف خود ان تمام مقدمات میں ملوث افرار کو قرار واقعی سزا دلوانے کیلئے ذاتی دلچسپی لیں اور چشم پوشی برتنے والے افراد کو سخت سزائیں دی جائیں۔اس وقت یہ صورتحال ہے کہ لوگ اپنے بچوں اور بچیوں کو اسکول بھیجتے ہوئے فکر مند ہیں اور اس تشویشناک صورتحال کے خاتمے کو اولین ترجیح بنا کر ہی حکومت درست اقدامات اٹھا سکتی ہے۔وفاق و صوبے میں دیگر تمام کامیابیوں کے باوجود عوام میں بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے حکمران جماعت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
بچوں کے اغوائ‘ زیادتی اور قتل کے واقعات بدترین وحشیانہ عمل ہے ۔ ان تمام واقعات کی آڑ میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو پاکستان کے اسکولوں میں جنسی تعلیم کو رائج کرنا چاہتا ہے۔ غیر مسلم ممالک کی طرز پریہاں غیر اخلاقی و غیر اسلامی تعلیم نہیں دی جاسکتی۔ حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایسی کوئی سازش بھی کسی صورت میں کامیاب نہ ہو جس سے ہمارا معاشرہ مادرپدر آزاد ہوجائے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024