پاکستان کو ہولناک تیسری عالمگیر جنگ کا میدان کارزار بنایاجارہا ہے پاکستان میں جاری دہشت گردی کی تازہ لہر کابراہ راست تعلق سی پیک سے ہے عالمی کھلاڑی ہمارے گلی کوچوں میں قوت بازو کے مظاہرے کررہے ہیں تاریخ کے نازک موڑ پر غیر معمولی حالات ،غیرمعمولی اقدامات کاتقاضاکررہے ہیں اور ہم حالات وواقعات سے نظریں چراکر پاناما ،پاناما کھیل رہے ہیں۔
امریکہ اور اسکے یوروپی اتحادی شدید نظری اور فکری اختلافات کا شکار ہیں۔صدرٹرمپ نے اپنے نامناسب رویوں سے امریکی وفاق کو شدید خطرات سے دوچارکردیاہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے صرف تین عشروں بعد متعدد امریکی ریاستیں ٹرمپ کے خلاف میدان میں ہیں جو نتائج سے بے نیاز ہوکرطاقتورامریکی ذرائع ابلاغ اور عظیم روایات کی حامل عدلیہ کو للکار رہے ہیں جس کی وجہ سے وفاق ہائے امریکہ کی ادارہ جاتی ہم آہنگی عدم توازن کا شکار ہورہی ہے۔
جنوبی کوریا اور جاپان کے ذریعے چین کا محاصرہ کیاجارہا ہے ظلم وبربریت اور جارحیت کی طویل تاریخ رکھنے والے جاپانیوں کے بوتل میں بند جن کو فوجی طاقت بناکر دوبارہ عالمی منظرنامے پرلانے کی تیاریاں ہورہی ہیں، جس میں فلپائن ،ویت نام اور کیموڈیا سمیت تمام قابل ذکر ممالک امریکی پرچم تلے صف بندی کررہے ہیں۔ چین نے اپنی برق رفتار پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے کیلئے مشرق وسطی میں تیل کے ذخائر تک تیز رفتاری رسائی کیلئے سی پیک تو 2030تک پوری طرح بروئے کار لانے کا ہدف حاصل کرنے کیلئے سر دھڑکی بازی لگادی ہے جبکہ جنوبی ایشیا میں سی پیک کی تکمیل کوروکنے کیلئے امریکی بھارت کو میدان میں لے آئے ہیں اگر شاطر اورچالباز امریکی سی پیک منصوبہ تباہ کرنے کیلئے بھارتی جنونی مودی کو آمادہ و تیار کرلیتے ہیں تو ہولناک ایٹمی جنگ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے جنوبی ایشیا کامقدر ہوگی جس کی ہولناکی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا لیکن تیزی سے بگڑتی ہوئی عالمی صورت حال میں پاکستان اسی ہولناک عالمی جنگ کامیدان بنتا دکھائی دے رہا ہے پاکستان کے طول وعرض میں دہشت گردی کی تازہ لہر کا تعلق، جی ہاں براہ راست تعلق۔۔۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے ہے ان احمق ظالمان، طالبان کو سات پردوں میں پوشیدہ اجیت کمار ڈول کے شہ دماغ حکمت کار نئی دہلی میں بیٹھ کر کنٹرول کررہے ہیںاوریہ بے وقوف وہم موھوم ،خراسانی خلافت کیلئے اپنے پاﺅں پرکلہاڑاماررہے ہیں جس میں وفا ناشناس افغانی انکے دست و بازوبنے ہوئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ جب کبھی کوئی عظیم طاقت اپنے ہی بوجھ سے لڑکھڑاتی ہے تو اپنے جاہ وجلال کو بچانے کیلئے ہولناک خونیں جنگ کا سہارا لیتی ہے انسانیت کاماضی ایسی خوفناک مثالوں سے بھرا پڑا ہے ۔تاریخ کا یہ چلن دنیا،کےلئے اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کیلئے کوئی اچھا پیغام نہیں لا رہا۔
روس تیزی سے اپنے آپ کو ”سوویت سینڈروم“ سے باہر نکال کر یوکرائن سے شام تک مختلف محاذوں پر امریکیوں کوبڑے محتاط انداز میں چیلنج کررہا ہے چینی بھی جدید چین کے معمار ڈنگ ژویاﺅپنگ کے اقتصادی طاقت بننے کاہدف حاصل کرنے تک سرجھکا کر رہنے کی وصیت پر کاربندرہے اب دنیا کی واحد اقتصادی طاقت بننے کاہدف 2030سے 13سال پہلے حاصل کرکے میدان عمل میں نکلے ہیں کہتے ہیں کہ اس عظیم فلاسفر اورہنما ڈنگ ژویاﺅپنگ نے کہا تھا کہ 2050کے بعد دنیا میں کسی طاقت کے پاس چین سے جنگ کرنے کی ہمت، طاقت اورسکت نہیں ہوگی لیکن عالمی منڈیوں تک تیز رفتار رسائی والے ،پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (CPEC) نے بساط الٹ کر رکھ دی اب ساﺅتھ چائنہ سمندر میں چین کی راہ روکنے کیلئے امریکہ جاپان کی قیادت علاقائی ممالک کی صف بندی کررہا ہے۔
سابق سفارت کار عدنان رندھاوا نے اپنے تازہ ترین تجزےے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ جاپان کو چین کے مقابل لانے کے بعد امریکی شہ دماغ جاپان کو ایٹمی طاقت بنانے کیلئے نئے دلائل تراش رہے ہیں نئے فلسفے اپنا رہے ہیں جبکہ اس بحربے کراں میں چین نے مصنوعی جزیرے بناکر طاقت کایک طرفہ توازن پلٹ کررکھ دیا ہے اس وقت ہیبت ناک امریکی بحریہ کے کئی دستے وہاں گشت کررہے ہیں اور کشیدگی عروج پر ہے ۔
عدنان رندھاوا' صرف خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہنے والے مثالیت پسند آدمی نہیںہیں مقابلے کے امتحان میں سرفراز رہے خارجہ اُمور گروپ کےلئے منتخب قرار پائے چند برسوں میں اکتا گئے پھر عمران خان کے ’انقلابی خیالات‘ کے ایسے اسیر ہوئے کہ سب کچھ تیاگ دیاکپتان خان سے قربت ہوئی توشخصی تضادات کھل کر سامنے آئے جنہیں یہ جوا ں سال دانشوربرداشت نہ کرسکا ،الگ ہوگیا اپنی ذاتی سیاسی جماعت پاکستان عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی اب وکالت ذریعہ روزگارہے کالم نگاری سے بھی گاہے شغف فرماتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ونفوذپر ڈالروں کی جھنکار پر رقص کرنیوالے سیاہ رو ،چڑی باز دانشور بھی ایسٹ انڈیاکمپنی کی مثالیں دے کر دبے دبے لہجے میں تنقید کرکے حق وفاداری ادا کرتے رہے ہیں جنہیں اس کالم نگار نے قابل توجہ نہیں سمجھاکہ اپنا ضمیر گروی رکھنے والے دانشور ہمیشہ تاریخ کے کوڑے دان میں جگہ پاتے ہیں لیکن عدنان رندھاوا پاکستان کیلئے درد دل رکھتے ہیں اس لےے انکے سوالات پر غور کیا جانا چاہےے وہ کہتے ہیں "امریکہ اور روس کی کشیدگی اور جنگ کی صورت میں پاکستان شاید براہ راست متاثر نہ ہو لیکن امریکہ اور چین کی کشیدگی اورجنگ کا خمیازہ پاکستان کو براہ راست بھگتنا ہے اس لئے پاکستان کے تزویراتی منصوبہ ساز وں کو اس بارے میں بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے۔
چین بھارت کی بڑھتی ہوئی طاقت کا توڑ کرنے کیلئے پاکستان کو”مضبوط“بنا رہا ہے۔امریکہ اور چین کی کشیدگی کا سب سے بڑا تھیٹر بحرجنوبی چین ہے جہاں امریکہ اور جاپان مل کر چین کا گھیراﺅ کر رہے ہیں۔چین کی ساری تجارت اور معیشت کا دارومدار اسی سمندر کے تجارتی راستوں پر ہے۔ امریکہ اور جاپان کے اس گھیراﺅ سے پریشان ہو کر چین اپنے آپ کو متبادل راستوں کے ذریعے یورپ اور مشرق وسطیٰ سے منسلک کرنے کی کوشش میں ہے۔یورپ کےساتھ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ذریعے سڑکوں اور ٹرینوں کا جا ل بچھا رہا ہے تو مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک رسائی کیلئے سی پیک کا منصوبہ تیزی سے مکمل کرنے کی کوشش میں ہے۔ جنگ کی صورت میں بحر جنوبی چین میں امریکہ جاپان کے ساتھ مل کر چین کی سمندری ناکہ بندی کرے گاتو چین کی مشرق وسطیٰ سے سی پیک کے ذریعے تیل کی سپلائی روکنے کیلئے جنگ کہاں منتقل ہوگی؟اس صورت میں امریکہ بھارت کے ذریعے یا براہ راست پاکستان کی سرزمین پر واقع سی پیک کو نشانہ بنائے گاتو پاکستان کے پاس جنگ سے باہر رہنے کیلئے کیا راستہ ہو گا؟
اگر چین سی پیک کی حفاظت کیلئے اپنی فوجیں ، طیارے یا بحری بیڑے پاکستانی حدود میں تعینات کرے گا تو کیا وہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا؟ وہ جنگ جوچین کی سرزمین پر لڑی جانی چاہئے، اگر پاکستان کی سرزمین پر لڑی جائیگی یہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا یا ہماری تباہی کا سبب بن جائیگا۔
تاریخ کا یہ بھی سبق ہے کہ جب سپر پاورز جنگ کرتی ہیں تو سب سے پہلے انکے اتحادی مارے جاتے ہیں اور جب وہ جنگ بندی کرتی ہیں تو کمزور اتحادیوں کو آپس میں بانٹ لیتی ہیں۔مشرقی یورپ اور مغربی یورپ کیسے وجود میں آئے تھے؟شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کیسے بنے؟ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کا وجود کیونکر ہوا؟سلطنت عثمانیہ کتنے حصوں میں تقسیم ہوئی؟ چین کو یورپی اور ایشیائی قوتوں نے کتنے حصوں میں تقسیم کیا؟ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
پہلی بار سنجیدہ مزاج تجزیہ نگار عدنان رندھاوا نے بالکل مختلف زاویے سے ان پیچیدہ معاملات کا جائزہ لیا ہے جن پر ہمارے شہ دماغ خارجہ اُمور کے ماہرین کو غور کرنا چاہےے ۔اس کالم نگار کی جواں سال رندھاوا سے شناسائی نہیں ہے لیکن انکے دلائل میں وزن ہے ہر پاکستانی کومادر وطن صرف اورصرف مادر وطن، پیارے پاکستان کی خیر مانگنی چاہےے اس کو مستقبل قریب کی ممکنہ مشکلات سے بچانے کیلئے غوروفکر کرنا ہوگا۔ متوقع خوفناک عالم گیرجنگ سے خود کو بچانے کیلئے پاکستان کو نئی حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی کہ غیر معمولی حالات ، غیرمعمولی اقدامات کا تقاضا کررہے ہیں۔کیاہماری اجتماعی دانش بروئے کار آئےگی کیا ہم اسکی صلاحیت رکھتے ہیں ہمیں جنگی بنیادوں پر ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہوگا ورنہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
حرف آخریہ کہ کالم کی طویل غیرحاضری کی وجہ، والد محترم رانا محمد اشرف خاں 15فروری، بدھ کوطویل علالت کے بعد وصال فرما گئے اس وجہ سے قارئین کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا تمام احباب سے درخواست ہے کہ انکی اگلی منزلوں کی آسانی کیلئے دعا فرمائیں۔