ابھی تو میرے دل و دماغ سے فرشتوں جیسے وہ معصوم پھول بچے ہی نہیں محو ہو پا رہے تھے جو چند سال بیشتر میرے محلے پریڈلین راولپنڈی کینٹ میں درندوں کی سفاکی کا شکار ہوکر جنت کو سدھار گئے۔ ضبط کے پیمانے ٹوٹ چکے ہیں۔ ہر رگ وجاں میں محشر برپا ہے‘ قیامت کی گھڑی اور کب آئے گی۔ نوخیز رعنا‘ موسم بہار میں چہچہانے والے خوش رو اور خوش الحان پرندے‘ ماں باپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور‘ کیسے لمحہ بھر میں آرمی پبلک سکول میں وحشی درندوں کی وحشت کا شکار ہو گئے۔ صاحب اولاد جانتے ہیں کہ انسان اپنے بچوں کی محبت کے آشوب میں توازن برقرار رکھ ہی نہیں سکتا ہے جس نے تو اپنے ماموں جمیل فخری کو اپنے بیٹے کی مظلوم موت پر پیہم سلگتا پایا۔ ہر وقت اس کے ذہن و قلب کے ہر درودیوار پر ان گنت سوالات‘ واہمے اور وسوسے ابھرتے تھے کہ کیوں میرے بیٹے کو شہید کر دیا گیا۔ وہ سوچتا رہا سوچتا رہا کہ میں کس کے ہاتھ پہ اپنے جوان بیٹے کا لہو تلاش کروں اور پھر وہ بھی ضبط کا عہد اور شوق زندگی کے پیمانوں کو ٹھکرا کر اپنے محبوب بیٹے کے پاس راہیِ عدم ہو گیا۔ میں اپنے بارہ سالہ بیٹے کے چہرے کی طرف دیکھتا تو مجھے ایک سو چالیس معصوم فرشتوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے میں دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے میں صلیب پر جھول رہا ہوں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا تھا‘ کیسے وہ مائیں‘ باپ اور بہن بھائی زندگی کی رعنائیوں کی طرف لوٹ پائیں گے؟ کون ان کی بے کلی اور بے چینی پر مرہم رکھ سکتا ہے؟ ہمارے حکمرانوںکے فریب زدہ چہرے‘ کردار اور وحشت زدہ دل ودماغ کیسے جھوٹ اور فریب کے حروف دلداری سے آزردہ زندگی اور موت کے درمیان آرزو کے برزخ میں کھڑے ماں باپ کے دکھوں اور اذیتوں کی گہری دھند کو روشنی کا اجالا دے سکتے ہیں۔
وہ راج دلارا جو ماں باپ اور دادا دادی کے گلے لگ کر اور دعائیں سمیٹتا، بہن بھائیوں اور دوستوں سے اٹکھیلیاں کرتا سکول گیا ہوگا اور وہ لمحوں میں الگ دنیا‘ الگ کائنات میں کھو جائے تو ان کے چاہنے والوں پر کیا گزرتی ہے۔ میں اس لئے جانتا ہوں کہ میں گزشتہ پچیس سال سے ایسے فرشتوںکے ساتھ رہتا ہوں اور اگر کبھی کوئی ایسا فرشتہ میرے اردگرد سے مقام لامکاں پر چلا جائے تو میں اور کالج کے اساتذہ اور اس بچے کے دوست احباب سبھی خود تراشیدہ اذیت کا اس قدر شکار ہوجاتے ہیں کہ ایسے لگتا ہے زندگی کا تاج محل کھنڈر بن گیا ہے۔ دل و دماغ پر برسوں گردوغبار چھائی رہتی ہے۔ اللہ کرے ہمارے مصلحت پسند اور منافق سیاسی اور مذہبی زعماء بھی ایسی آزمائشوں سے گزریں۔ ان کی بیویاں اور بیٹیاں بھی ان کے دامن کھینچ کھینچ کر پوچھیں کہ ہمارے بچے تمہاری مصلحتوں کے نذر ہو گئے ہیں۔ ان شاء اللہ وہ وقت ضرور آئے گا جب ان کے راج دلارے اور چاند قبر میں اتریں گے تو تب میں دیکھوں گا کہ سیاسی مشاورت میں حاکم وقت کس طرح اپوزیشن لیڈر سے ہنسی مذاق کرتا ہے۔
وزیراعظم کہتے ہیں کہ ان معصوم بچوں کے قاتلوں سے بدلہ لیں گے۔ آرمی چیف کہتے ہیں کہ دہشت گردوں نے قوم کے دل پر وار کیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ جس نے بھی کیا‘ بڑا ظلم کیا مگر کون ان معصوم بچوں کے قاتلوں کو سزا دے گا کیونکہ قاتلوں کے دوست اور سہولت کار تو آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ وزیرداخلہ کس منہ سے وزارت پر براجمان ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کیوں برقرار ہے‘ تمہارے بچے تو سکیورٹی میں محفوظ ہیں کیونکہ غریب بچوں کے ماں باپ اپنے خون پسینے کی کمائی سے ان کی حفاظت کیلئے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ہمیں کہا جاتا ہے کہ اپنی حفاظت خود کریں۔ میرے کینٹ ایریا میں اعلیٰ سول اور فوجی افسران جنہوں نے ہماری حفاظت کرنی ہے اور اس کے بدلے وہ تنخواہیں لیتے ہیں‘ ہم ان کی حفاظت کیلئے سڑکیں ویران کر دیتے ہیں۔ ان کی رہائش گاہوں کے اردگرد ہزاروں سول اور فوجی سپاہی موجود رہتے ہیں۔ آئی جی پنجاب اور آئی جی خیبر پختونخوا صرف ایک سرکلر جاری کر دیتے ہیں کہ تعلیمی ادارے اپنی حفاظت کو یقینی بنائیں مگر جب دہشت گرد افغانستان سے نکل کرغریبوں کے بچوں کو شہید کرنے کیلئے پہنچ جاتے ہیں تو وہ کیسے تمہاری چیک پوسٹوں کو عبور کرتے ہیں۔ وہ اس لئے تمہاری چیک پوسٹوں کو عبور کرتے ہیں کہ کرپٹ سکیورٹی اہلکار یا تو پیسے کے عوض ان درندوں کے ساتھی بن جاتے ہیں یا پھر وہ ان کے نظریاتی ساتھی ہوتے ہیں۔ کاش اللہ ہمیں کوئی اتاترک دے دے جو ان دہشت گردوں کی نرسریوں کو اجاڑ کر رکھ دے۔ ان درندوں کی نسل کشی کر دے۔ ان درندوں کو مالی اسباب تربیت اور سہولت فراہم کرنے والوں کی اولادوں کو حرام کی کمائی کا ایک لقمہ بھی نصیب نہ ہونے دے تو تبھی اس مظلوم قوم کے زخموں کو سینچا جا سکتا ہے مگر مجھے اپنے حکمرانوں سے کوئی امید نہیں ہے۔ یہ ان ظالمان کے ساتھی ہیں‘ ان کے جلسوں اور دھرنوں میں کوئی دھماکہ نہیں ہوتا ہے مگر پاکستان کی مسلح افواج سے منسلک اداروں‘ افراد اور ان کے بچوں اور عورتوں پر حملے کئے جاتے ہیں کیونکہ دشمن کو پتہ ہے کہ پاکستان کی سا لمیت کی حفاظت کرنے والا ادارہ صرف اور صرف فوج ہی ہے۔ ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہئے جس میں ہمارے سیاستدان شیخ مجیب الرحمن ہوں۔ بزدل اور بے حمیت ہوں‘ ظالم کو ظالم نہ کہیں‘ حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں‘ سڑکوں اور موٹرویز اورمیٹروز کیلئے ان کے پاس فنڈز ہوں کیونکہ اس میں انہیں کمیشن ملتا ہے جبکہ ملک کے دفاع کیلئے وہ ضرب عضب بھی شکستہ دل کے ساتھ کرنے دیں۔ ؎
خودی قاتل‘ خودی منصف‘ خودی شاہد ٹھہرے
اقربا میرے خون کا دعویٰ کریں کس پر
آج طالبان جو ہمارے اوپر ظلم و ستم کررہے ہیں‘ وہ پاکستان اور افغانستان کے قبائلی سماج کے اندرونی تضادات سے پیدا ہوئے ہیں اور ہم نے امریکہ اور اسلامی گروہوں سے مل کر اسی کی دہائی میں ان کی سرپرستی کی۔ اچھے اور بُرے طالبان کی اصطلاحیں وضع کیں‘ انہیں اسلام کے مجاہد اور بھٹکے ہوئے مسلمان تسلیم کیا مگر جب پاکستان کے شہروں میں جدیدیت کو فروغ حاصل ہوا تو ردعمل کے طورپر طالبان اور انکے سرپرست مذہبی اور قدیم پختونخوا روایت کا مرکب نظریہ جو اسلام کے نام پر فروخت کرنے کیلئے لے آئے لہٰذا کبھی یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ طالبان اور آئین پاکستان کے درمیان مفاہمت ہو سکے اور کبھی بھی تاریخ کے پہیے کو پیچھے گھما کر ہم جنگلیوں اور وحشیوں کے ساتھ امن اور مستقل بنیادوں پر نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کا ادراک پختون معاشرے کو بھی کرنا ہے جہاں سے یہ جنم لیتے ہیں جہاں یہ پناہ گاہیں بناتے ہیں۔ چاہے وہ بارڈر کے اِس پار ہوں یا اُس پار‘ کیونکہ ریاست پاکستان اور اس کے شہریوں کے خلاف طالبان کی مسلح جنگ اس طرز حیات کی نفی کرتی ہے جو ہمارے بچے اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہمارے معصوم بچوں اور بے گناہ شہریوں کو اس لئے ہلاک کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک ہمارا طرز زندگی کا فرانہ ہے۔ اسی لئے نہ تو منور حسن اور نہ ہی مولانا عبدالعزیز طالبان کے جنگ و جدل کو غلط کہتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ ہمارے حکمران اور مذہبی اور سیاسی رہنما کبھی ہمارے رہبر و رہنما نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے اندر کا کنواں بہت گندا ہے‘ ہم کوشش کرتے ہیں کہ پانی کے بہت سے ڈول نکال کر ان حکمرانوں کے اندر کا گند صاف کردیں مگر مرشد کہتا ہے کہ خالی پانی نکالنے سے کیا فائدہ۔ پہلے کنویں سے مردہ کتا تو نکالو پھر پانی کے ڈول نکالو گے تو کنواں صاف ہوگا۔ جناب نوازشریف‘ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق صاحب اپنے اندر کا کنواں صاف کرنے کیلئے طالبان کو ہمدردی کا مردہ کتا باہر نکالیں‘ عبدالحمید عدم کہتے ہیں ؎
ہر مسافر کو باخبر کردو
یہ میرے تجربے کا جوہر ہے
رہبروں کی فریب کاری سے
رہزنوں کا خلوص بہتر ہے
رہزن تو ہمیں اور ہمارے بچوں کو قتل کر دیتے ہیں مگر رہبروں کی طرح ہماری آنکھوں کے خواب تو نہیں چھینتے ‘ میرے جذبوں اورآرزوئوں کا استحصال تو نہیں کرتے مگر میں کس کا گریبان پکڑوں؟ اب تو دست اجل ہی جس سے سوال کر سکتا ہوں کر وہ ماں باپ کے لعل و گہر جن کے ساتھ ان کا دور تک ساتھ تھا اور زندگی کے درپیش سفر میں وہ ان کے کندھوں پر رخصتی کے آرزو مند تھے۔ تم نے انہیں کھلنے سے پہلے ہی کیوں نوچ ڈالا ؎
بزم جہاں میں جن سے اُجالا تھا‘ اے اجل
تو نے کہاں وہ چاند کے ٹکڑے چھپا دیئے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024