پشاور کے آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کو جس طرح ترپاترپا کر ان کے خون سے اپنی دہشت اور وحشت کی پیاس بجھائی گئی۔ ظلم ، بربریت اور سفاکیت کی خون کے آنسو رُلادینے والی جو تاریخ رقم کی گئی اس نے پاکستانیوں کو ہی نہیں پوری دنیا کے اہل درد کوترپا کر رکھ دیا ۔کونسا ایسا ملک ہو گا جہاں سے تعزیت افسوس اور ہمدردی کے پیغامات موصول نہیں ہوئے ۔خود پاکستان میں ایسی کونسی ماں ہو گی جس کا دل چند لمحوں کیلئے بند نہیں ہواہوگا۔ کونسا ایسا باپ اور بھائی ہو گا جس پرلرزہ طاری نہیں ہوا ہو گا کونسی ایسی بہن ہو گی جو شہید ہونے والے بچوں کاتصور ذہن میں لاتے ہوئے اشکبار نہیں ہوئی ہو گی/محسوس کرو گے توگزر جاؤ گے جاں سے / وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے /سب کا یہی حال ہے ۔16دسمبرکو صبح 10 بجکر 35 منٹ پر 1360بچوں کی حاضری والے سکول میں جب پہلا خود کش دھماکہ ہوا تو عینی شاہدین کے مطابق خود کش بمبار نے 30-35 بچوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کر لیا تھا اس دھماکہ سے ان بچوں کے چیتھڑے کیسے اڑے ہونگے اور پورے سکول میں کھلبلی اور قیامت ِ صغر یٰ کی کیا کیفیت ہوگی سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ یکے بعد دیگرے 4پھر دھماکے ہوئے اور چنگیز خانی دہشت گردوں نے بچوں کو پکڑ پکڑ کر ان کے سروں میں گولیاں مارنی شروع کر دیں۔ایک خاتون ٹیچر کو پکڑ کر آگ لگا دی اور معصوم بچوں کو اسے جلتا ہوا دیکھنے پر مجبور کیا گیا اس سے ہندو ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے جو عورتوں کو ستی کر کے زندہ جلاتے ہیں گویا دہشت گردوں کی تربیت کسی بھارتی ٹرینگ کیمپ میں ہوئی ہو گی تاہم اسی اثناء میں برق رفتاری سے فوجی کمانڈو سکول میں داخل ہوئے پھر بھی انہیں اپنی بیرکوں سے نکل کر سکول تک پہنچنے میں آدھا گھنٹا تو ضرور لگا ہو گااور اس آدھے گھنٹے میں 103بچے خون میں نہا چکے تھے اور پھر آمنے سامنے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا 7دہشت گرد مختلف بلاکس میں پھیل گئے تھے ابتدائی اطلاعات میں 3دہشت گرد کمانڈوز کی گولیوں کا نشانہ بنے رفتہ رفتہ ان کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا ۔ اور یہ خونی ، دلدوزاور خون کے آنسو رلا دینے والا ڈرامہ مغرب کی اذانوں کے بعد اس وقت ختم ہوا جب آخری دہشت گرد کی ہلاکت کی اطلاع ملی ۔ اس آپریشن میں ایک بریگیڈیئر سمیت کمانڈوز کے تین جانباز بھی زخمی ہوئے اس سے پہلے سکول میں موجود تین فوجی انسپکٹر پہلے ہی جامِ شہادت نوش کر چکے تھے ۔یہ پاک فوج کے ہی کمانڈوز کا ایک دستہ تھا جس نے آگ اور خون کے اس ڈریکولا پر قابو پایا ۔135بچوں اور عملے کے 9ارکان جن میں سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی شامل تھیں کی شہادت کے دوران زخمی بچوں کو ہسپتال پہنچائے جانے کا عمل بھی جاری رہا ۔زخمی ہونے والے بچوں کی تعداد 121بتائی گئی اس طرح پاک فوج 1107بچوں اور عملے کے 40ارکان کو سکول سے باہر بحفاظت نکالنے میں کامیاب رہی۔ کالعدم تحریک طالبان نے معصوم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی ذمہ داری قبول کر لی طالبان کے ترجمان عمر خراسانی کا اپنے ای میل پیغام میں کہنا تھا کہ سکول پر حملہ شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں آپریشن ضرب عضب کے جواب میں کیا گیا ۔پاک فوج کی کارروائیاں جو دن رات دہشت گردوں کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس دوران ہمارے سیاستدانوںکا کیا احوال رہا۔ سانحہ کی اطلاع ملتے ہی وزیر اعظم نواز شریف جو اس سے پہلے اسلام آباد میں تحریک انصاف کے پلان سی کا سدِباب کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے فوراً پشاور پہنچ گئے اور انہوں نے زخمی بچوں کی عیادت کے لئے سیدھا ہسپتالوں کا رخ کیا ۔اس کے تھوڑی دیر بعد عمران خان بھی اپنی بنی گالہ کی رہائش گاہ سے نکلے اور پشاور روانگی سے قبل انہوں نے حکومت سے مذاکرات اور18دسمبر کو ملک بھر میں شٹ ڈاؤن کی کال موخر کر دی ۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، جماعۃ الدعوۃ کے قائد حافظ سعید ، جمعیت علمائے اسلام کے روح رواں مولانا فضل الرحمان ، ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی ،ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور دیگر تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین نے نہ صرف بچوں کو شہید کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی بلکہ متعدد قائدین فوری طور پر پشاور پہنچے ۔ ان تما م سیاسی و مذہبی قائدین کو جو اس سانحہ سے صرف ایک دن پہلے اپنی اپنی ڈیڑھ یا دو اینٹ کی مسجدوں میں الگ الگ بانگیں دے رہے تھے ۔بالخصوص دو بڑی جماعتوں ن لیگ کے نواز شریف اور پی ٹی آئی کے عمران خان ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھے ایک اقتدار بچانے کی فکر میںاور دوسرا اقتدار حاصل کرنے کی جستجو میں ، عام آدمی اور اس کے مسائل کو بری طرح نظر انداز کر رہے تھے۔ 135بچوں کی شہادت کے بعد ایک میز پر اکٹھے ہوگئے ہیں ۔ دیکھ لیجئے آل پارٹیزکانفرنس میں سارے بڑے چھوٹے قائدین شامل ہیں اور انہوں نے ملکی سا لمیت اس کی بقا اور اس کے مفاد کو سب معاملات سے اہم تسلیم کر لیا ہے ۔ میں نواز شریف اور خاص طور پر عمران خان سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتاہوں کہ کیا انہیں 135بچوں کی شہادت کا انتظار تھا ؟ میرے وطن کے ننھے نونہال اپنے خون کا نذرانہ دے کر اگر انہیں یکجہتی کا درس دے گئے ہیں تو انہیں اس یکجہتی کا دامن اب ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے دھرنے کو کال آف کر کے اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار قومی اہمیت کا فیصلہ اپنے ذہن اور اپنے ضمیر کی آواز پر کیا ہے ورنہ اس سے پہلے وہ خود ساختہ فرزندِراولپنڈی شیخ رشید کی مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے اسی لئے ان کی ماضی کی ترجیحات غلط رہیں اور ان کے فیصلے خو دان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئے ۔ عمران خان نے دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہونے والے50ہزار سے زائد شہریوں اور دس ہزار کے لگ بھگ سیکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں کی شہادت کو بھی شیخ رشید کی نظر سے ہی دیکھا ہوگا اسی لئے طالبان کے بارے میں بھی ان کا نقطہ ِ نظر مختلف رہا مگر اب وہ طالبان کے گروپوں میں تمیز سمجھ گئے ہو نگے ۔ طالبان کا افغان گروپ بھی یہیں سرگرمِ عمل ہے اسی لئے جنرل راحیل شریف دو بار افغانستان جا کر صدر اشرف غنی سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اور اب ان کے سخت رویے اور خود دوبارہ جا کر ثبوت پیش کرنے کے کے بعد افغان حکومت نے ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ اُسے فوری طور پر پاکستان کے حوالے کر دیا جائے۔ آخری اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں ملا فضل اللہ کوہلاک کر دیا گیا ہے۔ ملا فضل اللہ کے روابط بیک وقت نہ صرف ازبک، افغان اور پاکستان طالبان کے ساتھ ہیںبلکہ بہاولپور میں بعض دہشت گردوں کے ساتھ بھی ان کے رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔اس طرح یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ آرمی سکو ل پر حملہ کرنے والے دہشت گرد افغان اور ازبک تھے اور انہیں بھارتی ایجنٹوں کی پشت پناہی حاصل تھی ۔عمران خان خود بھی دو بچوں کے والد ہیں اس حوالے سے ایک بار تو ان کا دل بھی بری طرح سہما ہوگا اور شاید اسی لئے انھوں نے اپنا راستہ بدلنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب خدا کرے وہ اس پر قائم رہیں اورڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے اس خدشے کو جھٹلا دیں کہ ہم پر اس قسم کی کیفیت چند روز تک ہی رہتی ہے اور اس کے بعد ہم اپنی پرانی بے ڈھنگی چال پر واپس آجاتے ہیں مگر اب ایسا نہیں ہو گا کیونکہ پھانسیوں کی سزائوں پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے اور آج ہی آرمی چیف نے خود چھ دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹس پر خود دستخط کئے ہیں۔اس سلسلے میں دو دہشت گردوں کو فیصل آباد جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے اور چار دہشت گردوں کو 20دسمبر کی رات کو پھانسی دے دی جائے گی اس طرح دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا عمل تیز کر دیا گیا ہے تاکہ ضرب عضب کی افادیت مزید فعال ہو سکے۔ پشاور میں پاکستان کا9/11ہو چکا اور یہی وہ لمحہ ہے جب 135جیتے جاگتے، ہنستے کھیلتے معصوم بچوں کے موت کی اندھیری وادی میں اتر جانے کے بعد ہم یہ حتمی طور پر تسلیم کر چکے ہیں کہ ہمیں اپنے بچاؤ ، اپنے بچوں کی زندگی اور ان کے مستقبل کے لئے ایک جنگ لڑنی ہے اور پاک فوج کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے یہ جنگ جیتنی ہے تاکہ آئندہ ہمیں اس طرح اپنے بچوں کی ہلاکتوںکا سوگ نہ منانا پڑے ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38