عجب بدنصیبی ہے کہ جمہوریت پاکستان کوآمریت کی طرف دھکیل رہی ہے انتخابات، حق رائے دہی اور جمہوری عمل ہمیں محاذ آرائی کی طرف لے جارہاہے دینی جماعتوں کی سیاست ایک رنگ و روپ میں جلوہ گر ہو رہی ہے جماعت اسلامی کی راکھ سے تحریک لبیک یا رسول اللہ اور حافظ سعید کے جان فروش وابستگان کی ملی مسلم لیگ کا جنم' سیاسی ظہور ہو رہا ہے۔
ضمنی انتخابات میں ان نومولود دینی جماعتوں کو ملنے والے 13 ہزار ووٹ تخت لاہور کے سیاسی وارثوں کے لیے ڈراو¿نا خواب بن جائیں گے ۔جناب وزیراعظم نوازشریف کے نااہل ہونے کے بعد ان کی خالی کردہ نشست پر بیگم کلثوم نواز واضح اکثریت سے جیت چکی ہیں جس کا سارا کریڈٹ مریم نواز اوران کی چنیدہ ٹیم کوجاتاہے۔ لاہور شہر کے اس حلقے سے شریف خاندان کا سیاسی رشتہ ناتا اب نصف صدی ہونے کو آیا ہے لیکن مرکز اورپنجاب میں اپنی حکومتیں ہونے کے باوجود بی بی مریم نواز کو انتخابی مہم کے دوران بڑی پیچیدگیوں سے گزرنا پڑا تھا کہ حمزہ شہباز آغاز ہی میں میدان خالی کرکے لندن چلے گئے تھے۔ خود جناب شہبازشریف بھی بوجوہ عدم دلچسپی کا شکار تھے جبکہ ان کی دانشور اہلیہ تہمینہ درانی جناب نواز شریف کو ابدی سچائیوں پر مبنی ایسے مشورے دے رہی تھیں جو زمینی حقائق سے متصادم تھے محترمہ مریم نواز نے اپنی والدہ کی جیت کا اعلان کرتے ہوئے خطابِ فاتحانہ کے دوران احتیاط کادامن ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے کہا کہ عوام کی عدالت نے جناب نوازشریف کو نااہل قرار دینے کافیصلہ مسترد کردیا ہے ۔عوام نے نوازشریف کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اسی طرح انہوں نے الزام عائد کیا کہ کالے نقاب ڈال کر ہمارے دس حامیوں کو اغوا کیا گیاکسی ادارے کا نام نہیں لیا لیکن ان کا واضح ہدف فوج سے سے متعلقہ حساس آ دارے تھے انہوں نے ایک صاحب امجد نذیر بٹ کا نام لیا لیکن انکے اغوا پر اپنی صوبائی حکومت کی کسی کارروائی کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا کہتے ہیں ان تمام افراد کو انتخابی حکمت عملی کے تحت غائب کیا گیا تھا اب اعلان فتح کے بعد ان کا کوئی ذکر اذکار نہیں کیا جا رہا اگرچہ علم الکلام اورعلم اعداد کے ماہرین ان دعووں پر حیران و پریشان اور ششدر ہیں جوضمنی انتخاب میں جیت کے بعد کئے جارہے ہیں۔
دستیاب اعداد وشمار کے مطابق صرف 35 فیصد رائے دہندگان نے ووٹ ڈالے اس طرح بار بار کی اپیلوں کے باوجود 65 فیصد ووٹرز نے انتخابی عمل میں حصہ لینا ہی گوارانہیں کیا اسی طرح محترمہ کلثوم نواز کو 61 ہزار ووٹ ملے جبکہ ان کے مخالف 63 ہزار ووٹ دوسرے اُمیدواروں نے حاصل کئے اس طرح بھی انتخابی عمل میں حصہ لینے والے رائے دہندگان کی غالب اکثریت نے ان کے والد محترم جناب نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے عدالتی فیصلے کی توثیق کردی ہے ۔
یہ ہمہ پہلو انتخابی معرکہ تھا جس کے پاکستان کی انتخابی سیاست پر ہمہ گیر اور دور رس نتائج مرتب ہوں گے اس انتخابی عمل سے پنجاب میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی سیاست کا جنازہ نکل گیا اور لاہور شہر کی حد تک ان کا رہا سہا بھرم بھی جاتارہا اس کالم نگار کا ذاتی دکھ یہ ہے کہ برادر ضیاالدین انصاری جیسے اجلے کردار کے مخلص کارکن کو لاہوری گروپ نے اپنے ادنیٰ مفادات اور گھٹیا خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا دور طالب عملی میں بڑی بڑی معرکہ آرائیوں میں ہم دونوں شانہ بشانہ رہے تھے۔
ایک وقت تو ایسا بھی آیا تھا دوربجران میں ہم دونوں جزولاینفک بن چکے تھے دن رات کا ساتھ تھا ہم ایک دوسرے کے ہم زاد تھے ان کی ا±میدواری کا سنتے ہی اس کالم نگار کے تن بدن میں آگ لگ گئی فون کیا ور جومنہ میں آیا عالم غیظ وغضب میں کہتا گیا ہمیشہ کی طرح بڑے صبر وتحمل سے ضیابھائی نے سب سنا اور اپنی اجتماعی زندگی کی مجبوریاں بیان کرتے بات ختم کردی جس پر جل کر اس کالم نگار نے کہا کہ اگر آپ نے صرف ایک ہزار ووٹ حاصل کرلئے تو میں آپ کو کامیاب تسلیم کرلوں گا لیکن میرے پیارے ضیاالدین انصاری اس سے صرف آدھے 562ووٹ ہی حاصل کرسکے سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی کی مقامی قیادت کو عوامی مقبولیت کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہ تھا ہرگز ایسا نہیں تھا وہ دراصل ایک پاکباز اورصالح کارکن کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھا کر سیاسی جوا کھیل رہے تھے ایک لمحے کے لئے سوچئے اگر برادرم ضیاالدین انصاری 15ہزار ووٹ لے کر آبرومندانہ طریقے سے شکست کھاتے تو صورت حال میں عملًا کوئی تبدیلی نہ ہوتی لیکن جماعت اسلامی کی مقامی قیادت کی نواز شریف پر دھاک بیٹھ جاتی کہ جماعت اسلامی پنجاب 20، 25 شہری انتخابی حلقوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کے بعد "لاہوری گروپ" داتاکی نگری سے قومی اسمبلی کی کم وبیش 5 نشستوں کامطالبہ کرکے اپنا مستقبل محفوظ بنالیتا ہے۔
خدا کا شکر ہے کام خراب کرنے والوں (Spoilers) کے اس کھیل کا مستقبل قریب تک خاتمہ ہوگیا ہے دو ملک گیر سیاسی جماعتوں' بزعمِ خود متحارب نظریاتی جماعتوں کی عوامی سیاست دم توڑ گئی ان کے نامزد امیداوار بلدیاتی کونسلر کی جیت کے لئے ضروری تعداد میں بھی ووٹ حاصل نہ کرسکے اور شرمناک شکست سے دوچار ہوگئے کہتے ہیں کہ جماعت کے ہمدرد اور متفقین اس حلقے میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں لیکن انہوں نے دوبارہ ادنیٰ مفادات کے اسیر 'لاہوری مافیا' کو شکست فاش دی ہے قبل ازیں بلدیاتی انتخاب کے دوران بھی روایتی طور پر پرجوش احباب اس گھناو¿نے انتخابی کھیل سے لاتعلق ہو گئے تھے۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کا سیاسی خاتمہ بالخیر ہوگیا جماعت اسلامی کی نیم دینی ' نیم سیاسی قیادت کی راکھ سے دو نئی دینی سیاسی قوتوں کی نقش گری ہوچکی ہے بریلوی نظریات کے حامل،خطیبِ عالی شان'عربی اور فارسی کے عالم بے بدل مولانا خادم حسین رضوی کی قیادت میں نمودار ہونے والی تحریک لبیک یارسول اللہ (تحریک لبیک پاکستان‘ اب اس کا سیاسی نام ہے) کے نووارد ا±میدوار اظہرحسین رضوی نے 7ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کرکے سیاسی تجزیہ نگاروں کو ششدر کردیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہونے کے باوجود اظہرحسین رضوی کو سرکاری کاغذات اورووٹرلسٹ میں آزاد ا±میدوار ظاہرکیا گیا تھا جو سمجھ سے بالاتر ہے۔
اخبارات اورٹی وی چینلز نے انتخابی مہم کے دوران خادم حسین رضوی اور ان کی جماعت کو کوئی اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی جس پر ان کاشکوہ بجاہے اگر تحریک لبیک یارسول اللہ لاہور کے قلب میں ووٹروں پر موثرطریقے سے اثرانداز ہوسکتی ہے تو پنجاب کے د یہی علاقوں میں اسکے سیاسی اثرونفوذ کونظرانداز کرنا 2018کے انتخابات میں ناممکن ہوگا اس طرح (Spoiler ) کا کردار جماعت اسلامی کی بجائے تحریک لبیک یارسول اللہ کرے گی۔ ملی مسلم لیگ کا احیائ، پاکستان کے اسلامی تشخص کے دشمنوں پر بجلی بن کر گرا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کی سٹیج پر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے ان کے بھائی بند بھی ان کے سیاسی سفر پر ناک منہ چڑاتے رہے ہیں این اے 120 کا ضمنی انتخاب ملی مسلم لیگ کا پہلا انتخابی معرکہ تھا کہ تاحال ملی مسلم لیگ الیکشن کمشن میں رجسٹریشن کی کاغذی کارروائیوں کے مراحل سے گذررہی ہے اس کے حمایت یافتہ ا±میدوار یعقوب شیخ 6 ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرکے تحریک لبیک یارسول اللہ سے صرف چند قدم پیچھے کھڑے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن آزاد امیدوار یعقوب شیخ کوانتباہی نوٹس جاری کرتا رہا۔ مودی کے مجرم، وفائے پاکستان کے جرم میں نظربند 'حافظ سعید کی تصاویر کے استعمال' انکی اشاعت پر وارننگ جاری کرتا رہا لیکن یہ طرفہ تماشا تھا کہ عالمی سطح پر کالی دولت کا کھیل کھیلنے کے جرم میں سپریم کورٹ سے سزا یافتہ نوازشریف کی تصاویر کے استعمال پر اسی الیکشن کمیشن نے چپ سادھ رکھی۔
اسی طرح مریم کی انتخابی مہم پر بھی کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا گیا جبکہ مادرپدرآزادیاں چاہنے والے نام نہاد روشن خیال ملی مسلم لیگ کے قیام پر ہی طعن توڑتے رہے کہ انہیں اسلام ہی نہیں اب اسلامی علامتوں سے بھی چڑ ہے حرف آخر یہ کہ این اے120 کی انتخابی مہم کے دوران ذرائع ابلاغ کے کردار پر بڑا خیال افروز تبصرہ واشنگٹن میں مقیم نوجوان دانشور اور مایا ناز براڈ کاسٹر اسد حسن نے کیا ہے وہ اپنے نادر و نایاب تجزیے میں سوال اٹھاتے ہیں کہ نتائج کم و بیش وہی آئے ہیں جو مختلف سروے رپورٹوں میں بتائے گئے تھے کلثوم نواز صاحبہ کو 51/52 فیصد ووٹروں کی حمایت ملی اور یاسمین راشد صاحبہ کو 31/32 فیصد ووٹ حاصل کرسکیں۔ پھر یہ میڈیا میں اتنا بڑا طوفان کیوں رہا خصوصی نشریات کا اہتمام کیوں کیا گیا ؟ بظاہر ڈگڈگی اور بندرتماشا لگتا تھا۔ جناب من یہ سب ریٹنگ کا کھیل تھا جس کی بنیاد پر نجی شعبے کے اشتہارات کا حصہ ملتا ہے، ورنہ معزول وزیراعظم کا حلقہ ' جہاں سے وہ تقریبا بلا مقابلہ ہی جیتا کرتے تھے، تین بار کے وزیراعظم ، ایک بار وزیراعلی رہنے والے راہنما کی اہلیہ اس حلقے سے انتخاب لڑ رہی تھیں۔ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت پوری تندہی سے اس حلقے میں مصروف عمل ہوں' برسوں کے رکے ہوئے کام دھڑا دھڑ ہو رہے ہوں۔
کچھ اخبارات تو غریب خاندانوں میں سرکاری وسائل سے 30 ہزار فی خاندان امدادی چیکوں کے نمونے بھی چھاپ چکے تھے۔ الیکشن کمشن گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑتے ہوئے کئی صوبائی وزرا اور وفاقی راہنماوں کو انتباہی نوٹس بھی جاری کر چکا ہے۔ مفلوج نظام حکومت میں جہاں نالیاں پختہ کرنے کا اختیار بھی ایم پی اے اور ایم این کے ہاتھ میں ہے، ووٹر بے وقوف ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو ناراض کر کے باقی کئی سال انہی اکھاڑپچھاڑ زدہ سڑکوں، دلدلوں، جوہڑوں میں زندہ رہیں؟
معزول وزیراعظم کے لیے ہمدردی کا بھی ووٹ موجود تھا، ان حالات میں ڈاکٹر یاسمین راشد کا خبروں میں رہنا کافی اور بھاری تعداد میں ووٹ لے جانا بہت بڑی کامیابی ہے؟ اتنی بھاری بھرکم سرکاری مشینری اور وسائل کی طاقت کے خلاف کسی چیلنجر کا پیدا ہو جانا کافی ہوتا ہے؟
اصل سوچنے کی بات دوسری ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کہاں گئی ؟ اگر ایک بت ٹوٹ گیا ہے تو دوسرا بت کتنی دیر سلامت رہے گا؟۔۔ یہ سوال فضا میں گونج رہا ہے مخاطب کانوں میں انگلیاں ٹھونسے بہرے بننے کی کوشش کر رہے ہیں حقائق سے! جناب والا تلخ زمینی حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔