سیلاب حافظ آباد ،چنیوٹ ،جھنگ اور مظفر گڑھ کے اضلاع میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلا کر سندھ میں داخل ہو چکا ہے۔خدا کرے کہ اہل سندھ اس تباہی سے بچ جائیں ۔ ویسے اصولاً تو سندھ میں اتنی تباہی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ سنبھلنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا طویل موقع ملا ہے جبکہ پنجاب میں ایسا نہیں ہوا۔ پنجاب میں سیلاب اچانک تھا اور سیلاب کی وسعت اور شدت کا اندازہ بھی نہ تھا ۔دوسرا پنجاب میں زیادہ تباہی حفاظتی بندوں کی موجودگی اور پھر ان کے توڑنے سے ہوئی ہے جسکی وجہ یا تو حکومتی نا اہلی تھی یا پھر طاقتور اشخاص کی ملی بھگت۔ مثلاً اٹھارہ ہزاری بند کی ہی مثال لے لیں۔اصل صورتحال یہ ہوئی کہ 18ہزاری کے بند کے اندر پانی 6ستمبر تک خطرے کے نشان تک پہنچ چکا تھا اور بند کے اندر جتنے بھی گائوں تھے پانی انکی برداشت سے باہر جا چکا تھا۔یہ ایسا علاقہ ہے جہاں چناب اور جہلم گلے ملتے ہیں اور ان دونوں دریائوں کا پانی مل کر تباہی پھیلاتا ہے۔ یہاں سے باہر نکلنے کا بھی کوئی راستہ نہیں۔ 6ستمبر تک لوگوں کو انتظار تھا کہ بند توڑ دیا جائیگا اور یوں انکے مال مویشی بچ جائینگے لیکن حکومت نے بند نہ توڑا۔ افواہ یہ تھی کہ ایک ن لیگی ممبر اسمبلی کی بند کے باہر فصلیں اور کارخانے اور حکمرانوں کی ملیں تھیں جنہیں بچانا مقصود تھا ۔بند کے اندر والے شور مچاتے رہے لیکن انکی سننے کو کوئی تیار نہ تھا۔پانی فٹوں کے حساب سے بڑھنا شروع ہوا اور ہر لمحہ قیامت بن گیا ۔10ستمبر تک یہ پانی مکانوں کی چھتوں پر سے گزرنا شروع ہوگیا جہاں کسی چیز کے بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔اکثر لوگ درختوں پر پناہ لینے کے لئے مجبور ہو گئے ۔مال مویشیوں کیلئے چارہ تھا نہ کوئی حفاظتی جگہ لہٰذا انہیں کھلا چھوڑ دیا گیا۔وہ یوں سیلاب کی نذر ہو گئے۔ سب سے بڑی قیامت یہ گزری کہ لوگوں کی جمع کی ہوئی گندم بھی سیلاب میں بہہ گئی ۔ کھانے کو کچھ بچا اور نہ آگے بیج کیلئے۔دوسری قسم کی قیامت سانپ تھے جو لا تعداد زمین سے نکلے اور درختوں پر چڑھ گئے یا انہیں جہاں بھی خشکی کا ٹکڑا نظر آیا جمع ہو گئے۔ انسان اتنے بے بس تھے کہ سانپوں کا مقابلہ نہ کر سکے۔ لہٰذا کچھ اموات سانپوں کے ڈسنے کی وجہ سے بھی ہوئیں۔ 10ستمبر کو جب بند توڑا گیا تو بند کے اندر والی بستیاں مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھیں ۔اب جب بند توڑا گیا تو بند کے اندر اتنا زیادہ پانی تھا جو پوری طاقت سے باہر آیا ۔ یہ لہر8سے10فٹ بلند تھی جو ہر چیز کو برباد کرتے ہوئے آگے نکل گئی۔ اگر ممبر صاحب زور نہ لگاتے اور 6ستمبر کو بند توڑ دیا جاتا تو بند کے اندر والے بھی بچ جاتے اور باہر والوں کا بھی اتنا زیادہ نقصان نہ ہوتا۔ ایسے احساس ہوتا ہے جیسے باقاعدہ منصوبہ بندی سے پہلے بند کے اندر والوں کو مکمل تباہ کیا گیا اور پھر باہر والوں کو ۔ آج وہاں تا حدِ نظر تباہی ہی تباہی نظر آتی ہے یہی کہانی مظفر گڑھ میں دہرائی گئی۔میرا گائوں ہیڈ تریموں سے صرف تین میل اوپر دریائے جہلم کے بائیں کنارے پر ہے۔ دریائے چناب بھی وہاں سے تین میل مشرق کی جانب ہے۔ اگر دونوں دریائوں میں علیٰحدہ علیٰحدہ سیلاب آئیں تو ہم لوگ کسی حد تک حالات کا مقابلہ کر لیتے ہیں لیکن جب دونوں دریائوں میں اکٹھا سیلاب آئے تو پھر حالات ہمارے قابو سے باہر ہو جاتے ہیں ۔اس پورے علاقے کی تباہی کی وجہ 18ہزاری بند ہے ۔جب یہ بند نہیں تھا جتنے بھی سیلاب آتے تین چار دنوں کے اندر اندر پانی آگے نکل جاتا تھا ۔لوگ اور جانور بچ جاتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب معمولی سا سیلاب بھی آئے تو بند کی وجہ سے پورے علاقے میں پھیل جاتا ہے۔ فصلیں تو پہلے ہی مرحلے میں تباہ ہوجاتی ہیں۔اگر سیلابی پانی فصلوں میں سے نکل کر آگے گزر جائے تو فصلوں کی کچھ بچت ہوجاتی ہے لیکن جب پانی کھڑا ہوجاتا ہے اور گرمیوں کی دھوپ میں گرم ہوتا ہے تو کسی قسم کی فصل بچ نہیں سکتی۔ اس لئے بند باہر والے علاقوں کیلئے نعمت ہے لیکن اندر والوں کیلئے زحمت۔
حفاظتی بندوں کے دو بڑے مقاصد ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ دریائوں کے کنارے اکثر شہر آباد ہیں اور انکے اردگرد انڈسٹریز۔ اگر کھلے پانی آتے رہیں اور حفاظتی بند نہ ہوں تو یہ شہر اور انڈسٹریز ہر سال کئی بار تباہ ہوں گی۔ اگر خدانخواستہ ان شہروں اور انڈسٹریز کی تباہی ہر سال جاری رہے تو معیشت تباہ ہوجائیگی لہٰذا انکی حفاظت ضروری ہے۔ دوسرا بندوں کی وجہ سے پل اور بیراج وغیرہ بچائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا طریقہ دریافت کر لیا جائے کہ بند کے اندر زیادہ پانی جمع نہ ہو اور بغیر آبادیوں کو نقصان پہنچائے یہ آگے نکل جائے تو بند کے اوپر والے اور نیچے والے دونوں بے پناہ نقصان سے بچ سکتے ہیں اور ہمارے گائوں کے لوگوں کی سوچ کے مطابق ایسا ممکن ہے اور قابلِ عمل بھی۔ ہم لوگ انجنئیر تو نہیں کہ اسکی تیکنیکی باریکیاں جانچ سکیں لیکن بظاہر یہ طریقہ آسان اور قابل عمل لگتا ہے۔موقع پر جا کر دیکھیں تو تریموں ہیڈ ورکس سے تھوڑے فاصلے پر اوپر کی جانب دریا کے دونوں کناروں پر بند ہیں جو مغرب اور مشرق کی جانب بڑھتے ہیں۔ مغربی کنارے پر اٹھارہ ہزاری شہر اور اس سے کچھ کلومیٹرز آگے واصو آستانہ کے شہر ہیں۔ ان دونوں کے درمیان میں اور آگے تھل مغرب کی جانب فیکٹریاں اور ملیں ہیں اور اس سارے علاقے کو بچانا مقصود ہے۔ مشرق کی جانب بند کے نیچے موڑ ملہوانہ اور آگے جھنگ شہر ہے ۔ملہوانہ موڑ چوک اور جھنگ شہر تک چھوٹی چھوٹی بستیاں اور بہت سی فیکٹریاں ہیں جن کی حفاظت ضروری ہے۔ اگر بند نہ ٹوٹے تو یہ تمام محفوظ ہیں لیکن اگر خدانخواستہ بند ٹوٹ جائے تو اسوقت تک اتنا پانی جمع ہوچکا ہوتا ہے جو ہر ایک چیز کو ملیا میٹ کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور یہ تباہی اتنی شدید ہوتی ہے جیسے یہاں کبھی کوئی چیز تھی ہی نہیں۔اب اگر جمع شدہ اس پانی کو ساتھ ساتھ نکال دیا جائے تو پانی بند کے اندر جمع نہیں ہوگا۔ اس مقصد کیلئے اگر دریا کے دونوں طرف بند سے سیلابی پانی کے نکاس کیلئے چینلز بنا دئیے جائیں تو بند کے اندر سے پانی نکلتا رہے گا۔ یہ چینلز ہیڈ ورکس سے پچاس گز نیچے جا کر دریا میں واپس گرا دئیے جائیں۔ ان چینلز کو عام زمینی سطح سے ایک فٹ بلند ہونا چاہیے تا کہ دریا کا پانی اندر نہ آسکے۔ وسعت پچاس سے سو فٹ اور کنارے کم از کم چار سے پانچ فٹ بلند ہونے چاہئیں‘جو پانی کا پریشر لے سکیں۔ پانی کے پریشر کے مد نظر ایک سے زیادہ چینلز بھی بنائے جا سکتے ہیں ان چینلز کی لمبائی زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ سو گز ہوگی۔جونہی بند کے اندر پانی کی سطح ایک فٹ سے بلند ہوگی۔ ان چینلز میں پانی جانا شروع ہوجائیگا جو ہیڈ ورکس سے پچاس یا سو گز نیچے دریا میں گر جائیگا لہٰذا بند کے اندر پانی جمع نہیں ہوگا نہ ہی اسے توڑنے کی ضرورت پیش آئے گی ۔اب ذرا اس حقیقت پر غور کریں ۔موجودہ سیلاب ان بارشوں کا نتیجہ ہے جو کشمیر میں اگست کے تیسرے ہفتے شروع ہوئیں۔ پاکستان میں یہ بارشیں اگست کے آخر میں ہوئیں اور سیلاب کی شکل اختیار کر گئیں ۔پھر بھارت نے پانی چھوڑ دیا۔ یہ پانی ضلع جھنگ میں اندازاً یکم یا دو ستمبر کو داخل ہوا۔دریا بھر گئے اور پانی باہر نکلنا شروع ہوگیا۔بند کے اندر 6ستمبر تک 4سے5 فٹ پانی جمع ہوچکا تھا۔جب یہ پانی بند کے اوپر جمع ہورہا تھا ہیڈ تریموں سے نیچے ایک نارمل قسم کی طغیانی تھی اور پانی باہر نہیں نکلا تھا۔ ویسے بھی دریائی سیلاب کا ایک اپنا انداز ہوتا ہے ۔یہ پہلے دریائی ندی نالوں میں نکلتا ہے اور عموماً دیہاتی ان ندی نالوں سے دور گھر بناتے ہیں جہاں سیلاب کا خطرہ نہیں ہوتا۔اب اگر یکم ستمبر سے بند کے اندر جمع ہونیوالا پانی ان مجوزہ چینلز میں کھول دیا جاتا تو یہ ہیڈ ورکس سے نیچے دریا میں گر تا اور نارمل انداز میں نیچے چلا جاتا۔بند کے اند رپانی جمع ہی نہ ہوسکتا اور یوں نیچے بھی سیلاب کا کوئی خطرہ نہ ہوتا نہ ہی آبادیوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچتا۔میں اس علاقے کا رہائشی ہوں اور مجھے اندازہ ہے کہ چینلز کے مسلسل بہائو سے سیلاب کا خطرہ اول تو ختم ہوجائیگا ورنہ بہت کم ہوجائیگا۔ یہاں یہ ضرور یاد رہنا چاہیے کہ زیادہ تباہی ہمیشہ بند توڑنے سے ہوتی ہے کیونکہ وہ پانی اتنا تیز اور اتنا بلند ہوتا ہے کہ اگر پہاڑ بھی سامنے ہو تو وہ اکھاڑ دیگا۔ لہٰذا اس تباہی سے ہر صورت بچنا چاہیے اور یہ کام نکاسیِ سیلاب چینلز کے ذریعے ممکن ہے۔
اسرائیلی جہاز پر اگر کوئی پاکستانی موجود ہے تو اسے برادرانہ ...
Apr 15, 2024 | 14:30