بھارت' پاکستان اور چین سے بیک وقت جنگ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے ایسی چومکھی لڑائی جس میں بری'بحری اور فضائی'تینوں افواج بروئے کار آئیں گی یہ بھارت کا نیا جارحانہ فلسفۂ جنگ ہے جس کا واشگاف اعلان بھارتی یوم فضائیہ کے موقع پر ائیرچیف مارشل بی ایس دھنوآ نے کیا۔اس کا کہنا تھا کہ بھارتی فضائیہ پاکستان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بناسکتی ہے اور پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیکس کرنے میں فوج کی مدد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور یہ بھی کہ مختصر نوٹس پر پوری قوت اور ہم آہنگی کے ساتھ بھارتی فضائیہ لڑائی کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔
چین اور پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ مشرقی سرحد پرچین سے آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لئے مؤثر قوت موجود ہے۔ جس کا جواب پاکستان کے سینیئر ترین جرنیل چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے دیا انہوں نے خبردار کیا کہ کوئی شک میں نہ رہے، اب یا کسی بھی مرحلے پر جارحیت کا بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا جو دشمن کے لئے ہمیشہ یاد رہنے والا ایک سبق بن جائے گاقبل ازیں ستمبر میں بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے اپنی ’جنتا‘ کوہوشیار کیا تھا کہ چین خاموشی سے علاقے پر قبضہ کررہا ہے اور بھارتی قوت کو جانچ رہا ہے۔ انہوں نے مشرقی اور شمالی دونوں محاذوں پر جنگ سے خبردار کیا تھا۔فضائیہ کے سربراہ نے پاکستان کے حوالے سے کہاکہ بھارتی فضائیہ کے پاس سرحد پار ہدف کو تلاش کرنے، اس کا ٹھیک تعین کرنے اور نشانہ لگانے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین سے نمٹنے کی پوری تیاری ہے۔
بھوٹان تبت سرحدی بحران کے بارے میں ائیر چیف مارشل بی کے دھنوآکا کہنا تھا کہ چینی افواج تبت کے پہاڑی سلسلوں سے ملحقہ حقیقی لائن آف کنٹرول پر واقع وادی چُمبی میں اب بھی موجودہیں۔ ستر دن کے چینی فوج سے آمنے سامنے کے دوران چینی فضائیہ کے ساتھ مڈبھیڑ نہیں ہوئی اور نہ فضائی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ فضائی حدودکا جہاں تک تعلق ہے تو حقیقی لائن آف کنٹرول کے بیس کلومیٹر سے آگے مسلح لڑاکا جہاز نہیں جاتے۔ زمین پر آمنا سامنا رہا لیکن فضا میں یہ صورت نہیں رہی۔ انہوں نے کہاکہ چین کے ساتھ آمنے سامنے کے دوران بھارتی فضائیہ کا کردار انٹیلی جنس، نگرانی اور اطلاعات کی فراہمی کے اقدام تک محدود رہا۔
پاکستان کے سینئر ترین فوجی جرنیل چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے پاکستانی جوہری تنصیابات کو نشانہ بنانے کے بیان کو غیرذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔ بھارتی فضائیہ کے سینیئر ترین افسر کی اس نوعیت کی دھمکی جارحانہ بھارتی انداز فکر اورسٹرٹیجک حکمت عملی کا اظہار ہے۔ بھارتی خطرناک عزائم تناؤ کے ماحول میں مزید شدت لانے کا باعث ہیں۔ پاکستان کی جوہری تنصیبات کے خلاف قوت کا استعمال اور جنگ پر اندھادھند توجہ مرکوز کرنا ایک حقیقی خطرہ ہے۔ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ملک کے طورپر بھارتی سٹرٹیجک انداز کو مسترد کرتا ہے۔
بحر ہند کی جغرافیائی اہمیت، مقام اور وسائل نے اسے معاشی اور سٹرٹیجک حوالوں سے انتہائی پرکشش بنادیا ہے۔ عالمی طاقتیں اکیسیویں صدی میں اس مقام پر پنجہ آزمائی کررہی ہیں۔ عالمی منظرنامہ کے رجحانات سے معلوم ہوتا ہے کہ بحرہند عالمی طاقتوں کے درمیان نیا جنگی اکھاڑا بننے جارہا ہے جس میں علاقے سے باہر کے طاقتور کھلاڑی میں حصہ دار بن جائیں گے جو اس بحر بیکراں کے تزویراتی منظر کو بدل کررکھ دے گا۔ اس خطے میں امریکی بحریہ کی بڑھتی ہوئی موجودگی بڑی طاقتوں میں ٹکراؤ کے بڑھتے ہوئے خطرات کو نمایاں کررہی ہے۔ چین کا بحرہند پر بڑھتا ہواانحصار اور دوسری جانب بھارتی بحریہ کی جارحانہ حکمت عملی کشیدگی میں اضافہ کر رہی ہے۔ خلیج فارس میں تنازعہ کے امکانات میں امریکہ ایران جوہری معاہدہ کے باعث شدت میں کمی آئی تھی لیکن صدر ٹرمپ کے شدت پسند اور احمقانہ رویے سے خلیج فارس تاحال شدید عسکری تنازعہ کے بدترین خطرات سے دوچار ہے۔ جس میں ایران اور قطر بمقابلہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات علاقائی رسہ کشی نے اضافہ کیا ہے۔ اسکے علاوہ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ اور ایران کا میزائل پروگرام حالات کو تلخ بنا سکتاہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے نے مغرب کو تقسیم کردیا ہے، ایک طرف ریاض کیساتھ قدیم وابستگی تو دوسری جانب پابندیوں سے آزاد ایران کے ساتھ روابط سے حاصل ہونے والے فائدے ہیں۔ صدر ٹرمپ اس خطہ میں کوئی بھی الٹا کام کرسکتے ہیں۔
چین کا راستہ روکنے کیلئے شاطر امریکی اس وقت سے جنوبی چین کے سمندر میں بڑھتے اثرونفوذ کی مسلسل نگرانی کررہے ہیں۔ نریندر مودی نے وزیراعظم بننے کے بعد ہند بحرالکاہل حکمت عملی کا اعلان کیا اور مشرق کی طرف دیکھنے‘(look east) کی پالیسی کو act eastسے تبدیل کردیا ہے وہ امریکی ’آشیر باد‘ سے بحرہند میں بھارتی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ’ایکٹ ایسٹ‘ پالیسی جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک سے بڑھتے بھارتی معاشی وتزویراتی روابط کا بھی مظہر ہے اور یہ علاقائی قوت کے طورپر اپنی عسکری حیثیت کو بہتر بنارہا ہے۔ بحرالکاہل میں بھارت تیزی کے ساتھ علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ سرگرمی سے میل میلاپ بڑھاتے ہوئے اپنی حیثیت کو مضبوط بنارہا ہے۔ بھارت، امریکہ اور جاپان کی تکون مشترکہ بحری مشقوں کیساتھ مذاکرات میں مصروف ہے جس کی ایک مثال مالابار بحری مشق ہے۔ امریکہ اور جاپان کئی مواقع پر بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دے چکے ہیں۔
رواں سال امریکہ، بھارت اور جاپان نے خلیج بنگال میں سہ ملکی بحری جنگی مشقوں کا آغاز کیا۔ امریکی بحریہ کا سب سے بڑا جوہری قوت سے متحرک ’طیارہ بردار بحری بیڑہ' بھارتی جہاز ’آئی این ایس وکرم آدیتیا‘ اور جاپان کا ’ایزومو‘ ان بحری مشقوں میں شامل ہوئے۔ اس میں جنگی جہاز، آبدوزوں، طیاروں سمیت دیگر اسلحہ وحربی سازوسامان استعمال کیاگیا۔ بھارت اور جاپان کے مابین سمندری تعاون دونوں کے قومی مفاد میں بہت سودمند ہے۔ تینوں ممالک کی جارح حکمت عملی نے چین کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ تیل کی اس تاریخی آبی گزرگاہ کو عالمی معاشی شہہ رگ بھی کہاجاتا ہے۔ اس راستے پر انحصار کی بنا پر چین کیلئے اپنی بحری قوت میں اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ سٹیٹ کونسل انفارمیشن آفس سے چینی عسکری حکمت عملی کی حامل دستاویز میں یہ حکمت عملی ’ایکٹو ڈیفینس‘ یا متحرک دفاع کانام دیا گیا ہے۔ سمندر، بیرونی حدود، سائیبرسپیس اور جوہری قوت اس کے چار بنیادی اجزا ہوں گیں۔
بھارت 13 لاکھ 70 ہزار مربع میل کے اقتصادی دائرہ پر تن تنہا سورما بننے کا خواب دیکھ رہا۔ اسکی بحری قوت نے پاکستان سمیت دیگر ساحلی ممالک کو پریشانی سے دوچار کردیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ دیرینہ مخاصمت نے دو جوہری ممالک میں ٹکراؤ کو نئی صورت دے دی ہے۔ جوہری نظریہ کو تقویت دینے کیلئے دونوں ممالک اپنی بحریہ کو مضبوط بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ بھارت کی بحری قوت میں اضافہ نہ صرف چین بلکہ روس بھی اپنے لئے خطرہ تصور کرتا ہے۔ نئی حکمت عملی سمندری حدود میں نئے تنازعہ کو جنم دے سکتی ہے۔ بحرہند کا خطہ پاکستان کیلئے سیاسی اور اقتِصادی بے پناہ مواقع کا حامل ہے لیکن اس کا بنیادی تقاضا استحکام ہے۔ اس مقصد کیلئے ساحلی ممالک کیساتھ دانشمندانہ روابط استوار کرنا ہے۔ اسکے مدمقابل امریکہ، بھارت اور جاپان کی صورت میں حریفانہ کھلاڑی موجود رہیں گے۔ لیکن مستقبل قریب میں اس سمندری خطے کا تزویراتی موسم شدید طوفانوں کی زد دکھائی دیتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024