کبھی کبھی آنکھیں بند کر کے سوچیں ، تو آنکھیں کھل سی جاتی ہیں۔ ویسے تو آنکھیں کھلی ہی رکھنی چاہئیں۔ مگر کیا سوچتے وقت بھی؟ آنکھیں تو آنکھیں ہیں لیکن سوچ کے بعد کھلیں گی تو دوربینی اور خوردبینی نگاہ ہو جائیں گی۔پھر یہ بھی تو ہے نا، آنکھ گر آنکھ ہو تو کیا اندھیرا، کیا اجالا۔۔۔۔ آنکھ تیرگی میں دیکھے تو چشم بینا، اجالے کو دیکھے تو روشنی کی رفتار ماپے اور چشم سوم (صلاحیت خاص) کہلائے! آنکھ کی سب تعریف و توصیف اپنی جگہ، اس کی صلاحیت اور افادیت بھی زندہ باد۔ مگر اس کمبخت آنسو کے زبان و بیان ، آہ و بکا اور سود و زیاں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے جو احتجاج سے آس تک اور جینے سے مرنے تک داستاں ہوتا ہے۔آج ذکر خیر ہوجائے اس آنسو کا جو بزم ن لیگ میں نکلا، بقول حفیظ جالندھری : ؎
آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رکا
ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہوکر
میرا یہ حسن ظن تھا کہ ، میاں نواز شریف کی حکومت تعلیم میں سابق صدر پرویز مشرف اور سابق گورنر پنجاب خالدمقبول کے ویژن سے دوقدم آگے چلیں گے، اور پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن جو بچپن کی دہلیز پارکر کے سن بلوغت میں پہنچ گیا ہے اس سے ڈاکٹر عطاء الرحمن سے زیادہ استفادہ ہوگا، اور اس قافلہ تعلیم و تحقیق کو ڈاکٹر مختار احمد اپنی صلاحیتوں اور محنتوں سے دوام پہنچائیں گے۔ خیر ڈاکٹر مختار احمد اپنی بساط اور استطاعت سے زیادہ کر رہے ہیں مگر یہ دعووں والے کہاں ہیں؟… بہرحال ایسا نہ ہو سکا جو مطلوب و مقصود تھا۔ ہمیں معلوم ہے ریکارڈ بجٹ دیا گیا لیکن ریکارڈ توجہ نہ دی جا سکی، امور تعلیم پائداری کو پانے کے بجائے زیادہ تر نمائشی و زیبائشی ہی ہوگئے۔ یو ای ٹی اور ہاورڈ کے تعلیم یافتہ معروف وفاقی وزیر، جناب پروفیسر احسن اقبال بلکہ پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری کے حصول کے بعد پروفیسر ڈاکٹر انجنئیر اے آئی چوہدری کی کارکردگی ان کے اپنے "شایان شان " بھی نہ رہی۔ اسی طرح تعلیم کا ریاستی قلم دان رکھنے والے انجنئیر بلیغ الرحمن کی کارکردگی بھی کوئی ایسی قابل بیان نہ رہی کہ، جسے سپرد قلم کیا جاسکے۔ ہم اس صحافتی فیشن کو بائی پاس نہیں کرتے جو تعلیم اور صحت میں زرداری حکومت کو کسی کھاتے میں نہیں ڈالتا۔ بقول غالب : ؎
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
تعلیم مہنگی ہوگئی ہے بابا۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے ریٹ آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ شہر شہر نگر نگر یونیورسٹیاں تو شب بھر میں بنادیں سیاست کی حرارت والوں نے، لیکن کوالٹی ایجوکیشن، تحقیقی مادوں، میرٹ پر بھرتیوں، تربیتی امور ، جائز ترقیوں، شعبوں کے تدریسی و تحقیقی سرمایوں کو کہیں وائس رائے نما وائس چانسلرز کھا گئے اور کہیں سیاسی بنیادوں پر سوڈو انٹلیکچوئل اور سیاستکاروں پر مبنی "سنڈیکیٹ سنڈروم" مارگیا۔
رہی سہی کسر بیوروکریسی نے نکال دی انہوں نے سمجھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد گورنرز برائے نام ہی چانسلرز رہ گئے ہیں اور تعلیمی چیف ایگزیکٹو جناب وزرائے اعلی کے پاس اتنا وقت کہاں، پس یہ ثابت ہوا کہ ہم "خود" ہی اس "چانس" کے تحت چانسلر ٹھہرے۔ گویا رسم چلی کہ جو سیکرٹری ڈہڈا اور وزیر اعلیٰ سیکرٹیریٹ سے وارد ہوا ہے تو، وہ وائس چانسلروں کی پگڑیاں اچھالے۔ اور جس وائس چانسلر کی وزارت اعلی تک رسائی ہے اسے یہ حق حاصل ہے وہ پورے سسٹم کی توتی اتار دے۔ کیونکہ، من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں سے استاد ہو نہ سکا مگر بڑا ہی استاد ضرور ہوگیا- جن اقوام میں روایات دم نہیں توڑتیں اور تہذیب و تمدن کا علم بلند رہتا ہے وہاں ان کا قبلہ بھی ہمیشہ درست رہتا ہے۔ اور جہاں جہاں تعلیمی قبلہ درست رہا وہاں وہاں تعلیمی و تحقیقی ایمرجنسی رہی۔ ترقی یافتہ ممالک (1) تعلیمی انصاف (2) صحت عامہ سے انصاف (3) عام آدمی سے انصاف کی روایات آئین اور قانون سے بھی بڑھ کر محترم و مکرم رہیں۔ ہم نہیں کہتے یہاں فرانس اور جرمنی سی تعلیمی ایمرجنسی اور روایات ہوں مگر کچھ تو ہو! آئین سر آنکھوں پر لیکن چیف ایگزیکٹوز کو چاہئے کہ وہ چانسلرز اور وائس چانسلرز کی ایکسیلینسی کو مدنظر رکھیں تاکہ بیوروکریسی کو بھی ایکسیلینسی اقدار کا حیا رہے۔ خود وائس چانسلر بھی ایکسیلینسی رتبے کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ جہاں کہیں نابالغ لوگ وزرائے اعلی کی سرچ کمیٹیوں کی چالاکی، غلطی،تعلیمی ناانصافی وغیرہ وغیرہ کے سبب گر وائس چانسلرز لگ ہی گئے ہیں تو کم از کم ایکسیلینسی آفس ہی کے وقار کا خیال رکھیں، میرٹ کی ایسی تیسی اپنی جگہ، اپنے اساتذہ اور تعلیم سے من مانی اور انا کا نہیں تعلیمی وفا کا رشتہ رکھیں۔اڑتی ہوئی ملی ہے خبر بزم ناز سے کہ، جب یہ حروف شائع ہوں گے ان دنوں اسلام آباد میں مرکزی ایچ ای سی کے تحت ایک وائس چانسلرز کانفرنس چل رہی ہوگی، اس موقع پر محترمی چئیرمین ایچ ای سی ڈاکٹرمختار احمد کو کوئی تعلیمی وتحقیقی ’’عمرہ‘‘کرائیں کہ تعلیمی گلشن کا کاروبار چلے اور اس پر سموگ کے سائے نہ منڈلائیں۔ اللہ کرے کہ، پنجاب کے اہل اقتدار اور بزم ن لیگ کو تعلیمی وفا کی پاسداری کا احساس ہو جائے اور ہر تعلیمی مسئلہ بھی عدالت عظمی و عدالت عالیہ ہی حل نہ کریں، یہ بھی تو کچھ کریں۔ کچھ بناؤ کا تصور حاکمین بھی دیں۔آہ! یہ حاکم تعلیمی حیا کی پاسداری کب تک کریں گے، اب تو آنے لگے ہیں خوابوں میں یہ’’بے نقاب‘‘ ہوکر۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا کہ ، وائس چانسلرز کا پی ایچ ڈی ہونا لازمی ہے تاہم سب سے بڑے صوبے نے وائس چانسلر کی نئی سلیکشن حکمت عملی میں پی ایچ ڈی کی لازمی شرط ہی کو ختم کردیا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں۔ مغرب آج بھی پی ایچ ڈی کی روایت کو احسن انداز میں برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اپنی سمجھ سے تو بالاتر ہے کہ، ایک نان پی ایچ ڈی وائس چانسلراکیڈمک کونسل کے بزنس، کوالٹی کنٹرول، تحقیقی اکیڈیمیا اور ایم فل و پی ایچ ڈی سمیت جوائنٹ ریسرچ پراجیکٹس کو کیسے بھانپ پائے گا؟ ہم تو کہہ کہہ کر تھک گئے کہ لاہور ہائی کورٹ نے بمطابق و بذریعہ:(14-11-2016 and ICA / Double Bench Decision 15-2-2017) آپ لوگوں کو وائس چانسلرز سلیکشن کے لئے رہنما اصول دے دئیے، گر کوئی سمجھے، تو!!!
بابا! اب سیاسی یونیورسٹیاں بنانا ترک کردیں، بنی یونیورسٹیوں میں ایکٹ کے تحت پروفیسرز اور انفراسٹرکچر پورا کریں۔ عصرحاضر میں کوانٹٹی پر نہیں کوالٹی پر توجہ کی ضرورت ہے۔ اکیسویں صدی کا تقاضا ہے کہ، اساتذہ اور محققین سے صلاحیتوں سے بھی زیادہ کام لیا جائے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ، کبھی کہیں تعلیمی دھرنا بھی دینے کی بصیرت اور بصارت یا بشارت رکھتا ہے؟ دھرنوں کو تعلیمات کا تڑکا لگ جائے اور ارباب اختیار بھی تعلیمات سے آشنا ہوں تو شاید انسداد بدعنوانی اور تحفظ ختم نبوت دھرنوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ہے کوئی تعلم، متعلم، معلم اور تعلیمات سے محبت کا دعویدار جاناں؟ کوئی کل کی اپوزیشن یا آج کی یا اگلی اپوزیشن؟ یا سیاست کے چین ری ایکشن کا کوئی مہرہ جو قصہ غم سمجھے؟ کبھی کوئی تعلیمی ایمرجنسی بھی لگ سکتی ہے؟ کبھی کوئی بڑا صوبہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سیکرٹری لگانے سے قبل روایات کا امین بن سکتا ہے کہ، اس کو نہ لگایا جائے جس کے اپنے باپ دادا کی پی پی پی پراجیکٹ کے تحت کوئی یونیورسٹی اور کسی یونیورسٹی سے الحاق شدہ شہر میں ادارہ بھی ہے؟ کوئی دیکھے گا کہ، ایچ ای ڈی ہو یا مرکزی و صوبائی ایچ ای سی ان میں پراپرٹی ڈیلنگ نہ ہو بلکہ پراپر سکیل کو پراپر جاب گرانٹ ہو؟ کوئی بڑا یا چھوٹا صوبہ بار بار پٹ جانے والی وائس چانسلر سرچ کمیٹی کی تشکیل کا ازسر نو جائزہ لیگا، کہ ان کو میڈیکل اور انجنئرنگ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سرچ کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہو، ڈنک مارنا ہی نہیں (اگر منظور نظر سرچرز کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو)؟ اللہ،اللہ! صحت پر بھی کچھ کہنا تھا مگر ہم تعلیمی صحت سے باہر ہی نہ نکل سکے۔ اس پر سیر حاصل گفتگو اگلے کالم میں سہی؟؟ بہرحال سنا ہے کہ، بالآخر صحت کو ایک زیرک اور سمارٹ بلوچ وفاقی سیکرٹری میسر آگیا ہے جو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ( DRAP ) کی "ریگولیشن" اور فارمیسی کونسل کی "کونسلنگ" کو پبلک سرونٹ کی نظر سے دیکھے گا کسی وزارت کے "پرائیویٹ سرونٹ" کی طرح نہیں!!!
قوم کو ایسی مسیحائی کی طلب ہے جو صحت عامہ اور تعلیمی صحت کو شفا اور دوام بخشے۔ جس دن تعلیمی صحت درست ہوگئی صحت عامہ، ڈیموکریٹک ہیلتھ، بیوروکریٹک ہیلتھ ، ٹیکنوکریٹک ہیلتھ اور پولیٹیکل مینٹل ہیلتھ ازخود درست ہوجائیگی ، اس بزم ناز میں، ذرا سوچئے تو، آنکھیں بند کرکے، پھر دیکھئے کیسے کھلتی ہیں یہ آنکھیں! ورنہ۔۔۔۔!!!