اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اسکے 20 کروڑ عوام نہیں صرف اور صرف حکمران شریف خاندان کو بحران کا سامنا ہے۔ اس خاندان پر پہلے بھی برے اور آزمائشی دور آئے لیکن اب کی بار معاملہ مختلف ہے۔ عزت سادات داﺅ پر لگی ہے تمام تر توانائیاں، بہترین صلاحیتیں، تعلقات، نوازشات، وفاداریاں استعمال ہو رہی ہیں۔ زیربار احسان لوگوں کی تو مجبوری ہے نمک حلالی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جے آئی ٹی خود نہیں بنی بلکہ بنائی گئی اور بنانے والے اختیارات کے ساتویں آسمان پر بیٹھے ہیں۔ تختہ دار بھی انہی کے حکم پر حرکت میں آتا ہے۔ کوئی عرش سے فرش پر بھی انہی کے حکم پر گرتا ہے۔ اللہ نے اپنے بندوں کے ہاتھ میں اتنے بڑے بڑے اختیارات بھی دے رکھے ہیں اسی قادر مطلق کے حکم سے ہی یہ اختیارات استعمال ہوتے ہیں۔ ”میرے عزیز ہم وطنو“ کا سکرپٹ بھی بندے ہی لکھتے ہیں اور پھر بندوں کے حکم پر ہی ننگی کمروں پر کوڑے لگائے جاتے ہیں زندان خانے کھلتے ہیں اور پھر ملک بدر کرائے جاتے ہیں۔ جے آئی ٹی پر پتھر کس کے کہنے پر اور کون کون برسا رہاہے۔ یہ پتھر دراصل اس دیوار پر مارے جا رہے ہیں جو جے آئی ٹی کے پیچھے کھڑی ہے۔ تھانوں میں ہر روز تفتیش ہوتی ہے چھترول ہوتی ہے لیکن کوئی بڑے سے بڑا غنڈہ بدمعاش تفتیشی پر کیچڑ نہیں اچھالتا۔ اسے قصائی کی دکان نہیں کہتا زیادہ ہو تو کسی ایس پی کے پاس پیش ہو کر تفتیشی بدلوانے کی استدعا کرتا ہے۔ جے آئی ٹی نے صحیح تفتیش کی ہے یا نہیں یہ فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کرناہے۔ جے آئی ٹی میںپیشی کے بعد وزیراعظم نواز شریف شہ پارہ کو پڑھ کر آگے بڑھ گئے۔ وزیراعظم کا سپیچ رائٹر کسی ڈرامہ نگار اور فلم سکرپٹ رائٹر سے کم نہیں ہوتا۔ نواز شریف نے کہہ دیا کہ کٹھ پتلی تماشا اب ختم ہونےوالا ہے۔ انہیں زیادہ بہتر پتہ ہو گا کہ اس کٹھ پتلی تماشے کا سکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار کون ہے اور یہ کون سے الحمرا ہال میں دکھایا جا رہاہے۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ عوام کے فیصلے روند کر مخصوص ایجنڈے چلانے والی فیکٹریاں بند نہ ہوئیں تو آئین اور جمہوریت ہی نہیں ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائےگی۔ نواز شریف کی تقریر اشاروں، استعاروں پر مشتمل تھی۔ عوام کو پہلی بار علم ہوا کہ مال بنانے کےلئے مخصوص ایجنڈے چلانے والی فیکٹریاں بھی ہوتی ہیں۔ وزیراعظم خود کئی فیکٹریوں کے مالک ہیں۔ اپنی فیکٹریوں نے انہیں بحران میں ڈال رکھا ہے۔ کاش وہ مخصوص ایجنڈے چلانے والی فیکٹریوں کا انڈسٹریل ایریا اور ملکیت بھی بتا دیتے کہ ان فیکٹریوں میں کتنے مزدور کام کرتے ہیں ان پر کون سے لیبر لاز کا اطلاق ہوتا ہے کیا ان فیکٹریوں پر بھی منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری کا الزام عائد ہو سکتا ہے؟ انکے بقول یہ فیکٹریاں تو داعش، القاعدہ اور طالبان سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک ہیں کہ انکی پیداوار سے آئین اور جمہوریت ہی نہیں ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ملکی سلامتی کا تحفظ کرنیوالے تو سیاچن جیسے انسانی جسم کو منجمد کرنےوالے مقام پر بھی آنکھ نہیں لگاتے بھلا ایسے جری سپاہیوں کے ہوتے ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا خطرہ کون مول لے گا۔
وزیراعظم کے احتساب کا سلسلہ انکی پیدائش سے پہلے 1936 سے شروع ہو کر انکی موجودہ نسل حسن، حسین نواز، مریم نواز اور حمزہ شہباز تک پھیلا ہوا ہے۔ وزیراعظم کے بقول پاکستان میں ایسا کوئی خاندان نہیں جس کی 3 نسلوں کا ایسا بے رحمانہ احتساب ہوا ہو۔ اگر ماضی میں واقعی ایسا بے رحمانہ احتساب ہوا ہوتاتو وہ خود تیسری بار وزیراعظم نہ بنتے اور تین عشروں سے انکے برادر خورد وزارت اعلی کی مسند پر دکھائی نہ دیتے جن سے بے رحمی دکھائی گئی انہیں تارا مسیح کے ہاتھوں سولی پر لٹکایا گیا۔ میر مرتضی بھٹو، شاہ نواز بھٹو، بے نظیر بھٹو بے رحمی کا شکار نہیں ہوئے؟ بے رحمی تو انسانی وجود تک خطرے میں ڈال دیتی ہے اگر تفتیش بے رحمی ہے تو سارے ملک سے اس بے رحمی کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ صدر ممنون حسین ایک آرڈیننس کے ذریعے تھانوں میں تفتیش پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ وہ اپنے اختیارات سے سزائے موت کو عمرقید میں بدل سکتے ہیں تو جے آئی ٹی کی تشکیل پر بھی پابندی لگا سکتے ہیں تاکہ کسی شریف خاندان کو اسکے سامنے پیشی کے موقع پر تضحیک کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ کسی تصویر کی لیک کا موقع سامنے آئے۔ شہباز شریف کے نزدیک نواز شریف کا دامن ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہے اس جملہ کو جے آئی ٹی کی رپورٹ اور بعدازاں سپریم کورٹ کے فیصلے میں سامنے آنا چاہئے۔ وزیراعظم اگر جے آئی ٹی میں پیش ہو کر نئی تاریخ رقم نہ کرتے تو پھر جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ انکے احسان مند نہ ہوتے یا پھر جیل کی ہوا کھلاتے کچھ قلم کارواں کو اعتراض ہے کہ جے آئی ٹی کو دو ماہ کی مدت دےکر اسے پریشر کُکر میں ڈال دیا گیا ہے کیا مقدمات اور تفتیش کےلئے غیر معینہ مدت ہونی چاہئے؟
20 کروڑ عوام کی جے آئی ٹی کی قیادت کے دعوے دار وزیراعظم نے قصائی کی دکان جیسی جے آئی ٹی میں تین گھنٹے کیسے گزارے؟ شیردل وزیراعظم نے قوم کو یہ نہیں بتایا کہ جے آئی ٹی کے اندر کیا سوال جواب ہوئے انہیں یہ کیوں کہنا پڑا کہ عوامی جے آئی ٹی اور عدالت بھی لگنے والی ہے۔ 2018ءمیں 20 کروڑ عوام کی جے آئی ٹی کیس کیخلاف تفتیش کرےگی؟ حکومتی کیمپ کی لگاتار عدم اعتماد اور الزام تراشی سے یوں لگتا ہے جیسے جے آئی ٹی کےخلاف مقدمہ لڑاجا رہا ہے۔ بھٹو کے مقدمہ قتل میں مسعود محمود جیسا وعدہ معاف گواہ ڈھونڈنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس کے فون ٹیپ ہو رہے ہیں الزام تراشی میں دانیال عزیز، طلال جودھری، حنیف عباسی، مریم اورنگ زیب، عابد شیر، مشاہد اللہ خان، نہال ہاشمی، رانا ثنا، خواجہ سعدرفیق، خواجہ آصف اور مصدق ملک کے بیانات اور تبصروں کا سارا ریکارڈ میڈیا اور عدلیہ دونوں کے پاس موجود ہے۔ ایسے سخت ریمارکس کون دے رہا ہے کہ جے آئی ٹی کے رویئے سے تعصب اور جانبداری کی بو آتی ہے، جے آئی ٹی نے انصاف کے بجائے دھونس دھاندلی شروع کر دی ہے۔ اس کیس کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں تو پھر یہ کیس کس کے بارے میں ہے؟ وزیراعظم کے ترجمان کے مطابق نامعلوم افراد اور اداروں کیخلاف نامعلوم کارروائی ہو رہی ہے اسی وزیراعظم ہاﺅس سے نامعلوم ترجمان بیان بھی جاری کر دیتا ہے۔ ہر چیز کو نامعلوم اور استعاروں میں بیان کیا جائے گا تو قوم کے سامنے سچ کون لائے گا۔اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ سبھی نامور لوگوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ الیکشن کمیشن نے عوام کے منتخب نمائندوں کی، انکی زبانی بیان کردہ حقیقیت پر سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ نواز شریف ایک ارب 62 کروڑ، عمران خان ایک ارب 40 کروڑ، جہانگیرترین78 کروڑ، اسحاق ڈار58 کروڑ کے مالک ہیں۔ جہانگیر ترین جنہیں عمران خان سے بھی امیر تصور کیا جاتاہے انکے اثاثوں کی مالیت اپنے قائد عمران خان سے آدھی سامنے آئی ہے۔ عمران خان ارب پتی ہیں لیکن انکے نام پر ایک کار بھی نہیں۔ انکے ساتھ چلنے والا گاڑیوں کا لمبا قافلہ کس کی ملکیت ہے۔ ہیلی کاپٹر ان کےلئے تیار رہتا ہے۔
تین رکنی بنچ کا اپنی بنائی جے آئی ٹی پر پورا اعتماد ہے۔ جے آئی ٹی کو فاضل ججوں کی پشت پناہی نصیب نہیں ہوتی تو رانا ثنا کے بقول اسکے چودہ طبق روشن ہو جاتے۔ ٹیکس چوری، خفیہ منی ٹریل اور منی لانڈرنگ کرپشن کے زمرے میں نہیں آتی تو پھر اسے کیا کہنا چاہئے؟ نیب، آئی بی، ایس ای سی پی، ایف بی آر سبھی نے جے آئی ٹی کے الزامات مسترد کر دیئے ہیں۔ اگر یہ ادارے اپنی نااہلی تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر انکے سربراہوں کا اتنے بڑے بڑے عہدوں پر رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ پانامہ لیکس کی افشا ہونےوالی ہزاروں دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ دولت چھپانے کےلئے کس طرح سے ”ٹیکس ہیون“کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ کہنا لمحہ فکریہ ہے کہ انہوں نے بیورو کریٹس کے حق میں بیسیوں فیصلے دیئے اور انہیں کہا کہ وہ اوپر والوں کا غیر قانونی حکم نہ مانیں لیکن وہ ایک ہی کال پر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ اگر یہی جے آئی ٹی آصف زرداری یا عمران خان کے خلاف بنتی تو شیر کے کاغذی شیر اسکی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے۔ اب تو طنزیہ ہیروں کا نولکھا ہار قرار دی جا رہی ہے پھر سچ مچ نولکھا ہار سمجھی جاتی۔ بعض دانشوروں کو یہ کیسے پتہ چلا گیا کہ جے آئی ٹی نے چالیس دنوں میںکچھ نہیں کیا وہ مزید کیا کریگی اسکے کرنے یا نہ کرنے کا 60 دن پورے ہونے پر کل عالم کو علم ہو جائے گا۔
کیا وزیراعظم تصادم کی طرف جا رہے ہیں۔ جے آئی ٹی جن اداروں کی نمائندگی کرتی ہے اس نے اپنے ہی اداروں کی کارکردگی کو مسترد کر دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی بات کو درست جانتی ہے یا پھر ان اداروں کے جے آئی ٹی کےخلاف م¶قف کو۔ اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار حکمرانوں کا احتساب ہونے جا رہا ہے۔ جے آئی ٹی 7 جولائی تک اپنا کام مکمل کرےگی عدالت نے جے آئی ٹی کو 60 سے ایک دن بھی زیادہ نہیں دینا۔ نیب نے میگا کرپشن میں کیاکہا ہے؟ عدالت جے آئی ٹی پر مشتمل اداروں کو کرپٹ قرار دے چکی ہے کیا 98 کی طرح عدالت پر حملہ آور ہونگے، پانامہ کیس سارا اسحاق ڈار کے سر پر کھڑا ہے۔ عدالت یہ نہیں کریگی کہ اداروں کے سربراہوں کو صادق اور امین تسلیم کرلے اور جے آئی ٹی کو مسترد کر دے اگر جے آئی ٹی کو درست قرار دے دیا تو ان سب اداروں کے سربراہ ضرور فارغ کر دیئے جائینگے۔ 7 جولاائی کو جے آئی ٹی کی مدت ختم ہو گی پھر وزیراعظم کو بتانا پڑیگا کہ ان کیخلاف کون سازش کررہا ہے۔ 20 کروڑ عوام کی جے آئی ٹی ہنگامہ آرائی کرےگی اگر تصادم کی طرف گئے تو بری طرح پٹیں گے کیا یہ لڑ سکیں گے کیا یہ عزیز ہم وطنوں کا سامنا کر سکیںگے۔ معاملات الیکشن کی طرف لے جائیں تصادم کی طرف نہ جائیں!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024