آج ایک بار پھر یتیم ہوگیا، میرے بابا چل بسے، منوبھائی لوگوں کے لئے شاعر تھے، قلم کار تھے ،دانشورِ طرح دار تھے لیکن میرے لئے تو شجرسایہ دار تھے باباجی تھے۔
اردو ادب وصحافت کا عہدزریں تمام ہوا، درویش صفت منیرقریشی انتقال فرماگئے لیکن ہر دل عزیزمنوبھائی تو اپنے کالموں،نظموں اورغزلوں میں تاابدزندہ رہیں گے عہد جوانی میں رفتگاں کی یادوں پر مشتمل ان کامجموعہ جنگل اداس ہے شائع ہوا نجانے کیسے بے اختیارسوچا اگر ایسا کالم مجھے نصیب ہوجائے تو موت سستا سودا ہے منو بھائی سے اس کالم نگار کے دوطرح کے تعلق تھے ایک ہم پیشہ شاگردکا اور دوسرا خاندانی مراسم کاسلسلہ جو نصف صدی پرمحیط تھا کہ میرے اباجی کے سگے خالہ زاد بھائی محمد یٰسین اورمنوبھائی مدتوں پہلے راولپنڈی کے مختلف اخبارات میں اکٹھے کام کرچکے تھے صحیح معنوں میں روشن خیال اورانسان دوست منوبھائی بڑے دھیمے مزاج کے کم گو اور سہل پسند قلم کار تھے۔
پرائے پھڈوں میں ٹانگ نہیں اڑاتے تھے لیکن اس عاجز کیلئے میدان میں اترنے میں ذرا تامل نہ کیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب انہیں انکل یٰسین کے حوالے علم ہوا تو پیشہ وارانہ تعلقات چشم زدن میں گہرے خاندانی مراسم میں بدل گئے خداگواہ ہے تمام ترنظریاتی بْعد کے باوجود انہوں نے ایسے دل آویز طریقے سے تعلقات کونبھایا کہ مَن تْو کا فرق مٹ گیا سید والا تبار سید عباس اطہر، اپنے پیارے شاہ جی کی زندگی تک تو لاہور کاماہانہ چکر معمول تھا منوبھائی اصرار کرکے صبح ناشتے پربلاتے اوراماں کے ہاتھ کے قیمے اور آلو بھرے پراٹھے کھلاتے۔
شاہ جی کی رخصت کے بعدلاہور اجنبی سا شہر بن گیا اب جب کبھی فون پر بات ہوتی تو نہایت محبت سے پوچھتے اماں کے ہاتھ سے بنے پراٹھے کھانے کب آئوگے اوربس بات ختم کردیتے۔منو بھائی پنجابی دانش میں گندھی مقامی تہذیب و تمدن کی روشن علامت تھے ۔ یہ اتفاقات ِزمانہ کاکھیل تھا کہ یہ کالم نگار کامل 12برس ان کے گروپ میں کام کرتا رہا جب کبھی کوئی تحقیقاتی خبر دیتا تو منوبھائی اس پر کالم لکھتے اوراپنے مزاج سے ہٹ کر اس عاجز کی بڑھ چڑھ کر ستائش کرتے پھر ایسے بھی ہوا کہ ایک ماہ میں لگاتارکئی بار میری دی ہوئی خبروں پر اپنے کالموں میں تبصرہ کرتے رہے اورمجھے جنگل اداس ہے کی اشاعت پر پیداہونے والی خواہشات یادآتیں میرا سرسجدہ شکر سے جھک جاتا۔
منو بھائی اس قدر معصوم تھے اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے ایک بار عین کھانے کے وقت مجھے ہنگامی صورتحال میں کہیں جانا پڑا تو میں نے انہیں نیوز ایجنسی کے بانی جنت مکانی حافظ عبدالخالق کے سپرد کیا کہ میری واپسی تک ان کی خاطر تواضع کریں ۔ حافظ نے ڈٹ کر ان کی تواضع کی اور دوران گفتگو انہیں انٹرنیٹ نامی ایک نئی ایجاد کے بارے میں بتاتے رہے واپسی پر انہوں فرمایا حافظ بندہ شاندار اے' کھانا بھی بڑا اعلیٰ تھا لیکن اس نے میرے گلے انٹرنیٹ کا سانپ ڈالے رکھا۔ ان کا اکلوتا بیٹا کاشف منیر ہمارا پیارا 'کاشی' طویل عرصہ بیمار رہا منو بھائی بڑی خندہ پیشانی سے اس آزمائش سے گذرے۔
88 سے شروع ہونے والے جمہوری اور سیاسی ادوار میں ان کے پاس بھی کلاس بدلنے اور دولت کے انبار اکٹھے کرنے کے وافر مواقع موجود تھے لیکن انہوں نے ان دنیاوی ترغیبات کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھابلکہ احتساب دے چیف کمشنر بہادر نامی نظم لکھ کر احتساب الرحمن خان کو چتاؤنی دیتے رہے جبکہ ہمارے دائیں بازو کے بعض امام بہتی گنگا میں صرف دونوں ہاتھ نہیں دھو رہے تھے بلکہ اشنان کر رہے تھے۔ مجھے پرسکون گھریلو زندگی کے ٹوٹکے بتاتے عملی زندگی کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے۔ اسلام آباد ہجرت کی تو اپنی بیٹی رفعت آپا کونگران بنادیا اورہم مدتوں دوپہر کوان کے دفتر میں پرتکلف ظہرانے اڑاتے رہے۔ مرحوم اظہر سہیل سے ہونے والے تنازعے میں شاہ جی کے ساتھ منو بھائی شجر سایہ دار بن کر میرے سر پر سایہ فگن رہے لاہور میں 6ماہ زیرزمین رہنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جان جوکھوں کا مرحلہ تھا لیکن منوبھائی کی محبتوں نے اسے کھیل تماشا بنادیا تھا ۔دنیاداری کے دھندے زندگی کے کھیل کا جزو لازم ہیں لیکن منو بھائی نے فقر اور استغنا کی وہ مثالیں قائم کیں کہ زمانہ شرما گیا 70کی دہائی کے وسط میں ریواز گارڈن میں گھربنایا اور تادم آخر اسے مکمل نہ کرواسکے، بغیر پلستر اوررنگ وروغن اسی میں زندگی گزار دی۔
یادوں کی یلغار کاسامنا ہے سب کچھ بھول رہا ہوں۔جب کبھی کوئی انہیں یاد دلاتا کہ اسلم خاں تو فنڈامنٹلسٹ ہے جماعتیا ہے تو منوبھائی بڑی دھیرج سے مسکراتے ہوئے وضاحت کیاکرتے تھے یہ کہ فنڈامنٹلسٹ نہیں پھڈامنٹلسٹ ہے جب بی بی بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں اپنے کئے دھرے کی وجہ سے اس کالم نگار کوزیرزمین روپوش ہونا پڑا تو دھیمے مزاج کے منوبھائی بی بی بے نظیر اورزرداری کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور عبداللہ ملک جیسی مارکسی دانشور اس بنیاد پرست کی حمایت میں سولوجلوس نکالنے پر تل گئے تھے۔کیا دیوقامت لوگ تھے وہ' اب عالم یہ ہے کہ ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گذر گیا۔تا دم آخر فخر رہے گا کہ ہم منو بھائی کے عہد میں جئے' ہم نے عبداللہ ملک کا دور دیکھا اور شاہ جی کے ساتھ تو آخری سانس تک ساتھ رہا۔ بونوں کے اس دور میں یہ تصور کرنا ناممکن ہے کہ بابا جی مجید نظامی کا روحانی پیروکار' پاکستان کا پرچم سربلند کئے ان بزرگوں کا مقرب خصوصی کیسے بنا اور ہر میدان میں سر خرو رہا