ان دنوں راقم آرمی ایویشن چکلالہ میں پائیلٹ کی ٹریننگ کر رہا تھا۔ چکلالہ ایئر فورس میں رہائش تھی۔ بعض بنگالی افسر بھی ساتھ تھے، ہمارا کمانڈانٹ بنگالی تھا۔ ایک دن مرے دوست ایجوٹنٹ نے پوچھا’’ آج اخبار پڑھا؟‘‘ خبر ہے کہ نیشنل اسمبلی میں آج ہنگامہ ہوا ہے۔ گالی گلوچ ہوا ہے، مجیب الرحمن بضد تھا کہ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بجائے جمہوریہ پاکستان رکھا جائے۔ لفظ اسلام نکال دیا جائے، مجیب نے شائوٹ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ Islam Is outmoted Redligionمخالف فریق کے ایم این اے میاں عبدالباری مجیب الرحمن کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے رہے تلخ کلامی میں ایسے الفاظ بھی استعمال ہوئے کہ سپیکر کو بار بار مداخلت کرنی پڑی، وہ الفاظ اسمبلی کارروائی سے ہدف کرانے پڑے۔
راقم فوج میں ہی تھا جب مجیب الرحمن اگر تلا سازش کیس میں گرفتار ہوئے۔ ثابت ہو گیا کہ وہ بھارت سے ساز باز کر کے گوریلا جنگ کے لئے ہتھیار لیتے رہے۔ اور خونی انقلاب کے ذریعے بنگلہ دیش بنانے کے در پے تھے۔ اس سنگین جرم کی پاداش میں انہیں جیل جانا پڑا، لیکن مغربی پاکستان کے بعض سیاست دانوں نے ایوب خان پر دبائو ڈال کر مجیب الرحمن کو رہا کروایا۔
نامور مورخ اور ادیب ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں’’ مجیب الرحمن نے جنوری1972ء کو معروف برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو دیتے تسلیم کیا تھا کہ ’’ میں1948ء سے بنگلہ دیش کے قیام کے لئے کام کرتا رہا ہوں۔‘‘ لکھتے ہیں’’ چند برس قبل مجیب کی صاحبزادی وزیر اعظم حسینہ واجد نے اپنے یوم آزادی پر انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ’’ جب وہ لندن میں اپنے باپ کے ساتھ ایک فلیٹ میں مقیم تھی تو وہاں ہندوستانی ’’را‘‘ کے افسران آتے تھے اور آزادی کے منصوبے بنتے تھے… اب تو ہندوستانی ’’را‘‘ کے ان افسران کی یاد داشتیں بھی چھپ چکیں جو مجیب سے ملتے اور رقوم دیتے رہے۔ اگر تلہ کیس بالکل صحیح تھا لیکن سیاسی طوفان کی نذر ہو گیا۔(مضمون مائی ڈیئر نواز شریف خبریں13جنوری) ڈاکٹر صفدر محمود گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر تھے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف ان کے شاگرد، استاد کو اپنے دیرینہ شاگرد کے اس بیان پر افسوس ہوا کہ ’’ شیخ مجیب الرحمن محب وطن تھا اسے باغی بتا دیا گیا‘‘۔ ساتھ ہی جناب نواز شریف نے دھمکی بھی دی کہ اتنے زخم نہ لگائو کہ جذبات قابو میں نہ رہیں۔‘‘ استاد دیرینہ نے احتیاطً کہا ’’ میاں صاحب یہ الفاظ اپکو زیب نہیں دیتے مجیب کا مسئلہ اقتدار سے محرومی تھا جبکہ آپکو اقتدار کی فروانی نصیب رہی ہے۔‘‘
جناب نواز شریف صاحب کے اس بیان پر صرف ڈاکٹر صاحب ہی نہیں بلکہ ہر محب وطن پاکستانی جو سابق وزیر اعظم کے مداع بھی ہیں صدمہ ہوا ہے۔ کیا اس سے یہ مدعا لیا جائے کہ کسی وجہ سے انتقام میں آ کر سابق وزیر اعظم وطن کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے ہیں جو مجیب الرحمن نے روا رکھا۔ خدا وہ دن نہ دکھائے میں نے ان دنوں جی ایچ کیو میں تھا جب ایسٹرن کمان کے منع کرنے اور مجیب الرحمن کی فرمائش پر جنرل یحییٰ خاں اور جنرل حمید کے حکم سے بنگالی آرمی یونٹس مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان بھیج دی گئیں۔ مجیب الرحمن کے اکسانے پر ان یونٹوں نے بغاوت کر دی اور مغربی پاکستانیوں کا قتل عام شروع ہوا۔ بچوں مردوں و خواتین کے لئے ذبح خانے کھول دیئے گئے۔ یہ ایسا اقدام بربریت تھا کہ جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ بقول عظیم چوہدری بے حرمتی قصور میں تو 12بچیاں نشانہ بنیں مگر بنگلہ دیش میں مجیب الرحمن کی حکمتی باہنی نے ہزاروں بہاری اور غیر بنگالی خواتین کی عصمت دری کر کے قتل کیا۔ شک ہو تو قطب الدین کی کتاب’’ خون اور آنسوئوں کا دریا‘‘ یا پروفیسر سجاد کی کتاب’’ شکست آرزو پڑھ لی جائے۔‘‘ (نوائے وقت 14جنوری)
معزز قارئین! میں اختصار کے ساتھ اس قہر الٰہی پر روشنی ڈالتا ہوں جو مجیب الرحمن اور اسکے حواریوں کے ظلم اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ان پر نازل ہوا۔ مسیع الرحمن بنگالی مصنف کتاب آئرن بارز، میں لکھتا ہے ’’ عوامی لیگ لیڈروں کا تعلق عموماً متوسط یا غریب طبقہ سے تھا، یہ لوگ1970ء میں منتخب ہو کر آئے تھے جب 1971میں بنگلہ دیش بنا تو اقتدار نے انہیں پاگل کر دیا۔ رشوت سمگلنگ، خرد برد، خولیش پروری عام ہونے لگی، منشیات کا دھندا عروج کو پہنچ گیا۔ قومی خزانے لوٹے گئے، بیرونی امداد کو آپس میں بانٹ لیتے ، صنعتی مشینری بیچ کھائیں، بڑے بڑے عوامی لیڈر اور وزراء دنوں میں ارب پتی بن گئے۔’’ ان میں سب سے جلد امیر غلام مصطفیٰ بنا جو مجیب الرحمن کو چائے بنا کر دیتا تھا اسے بنگلہ دیش ریڈ کراس کا چیئر مین بنا دیا گیا، مجیب الرحمن کا بھائی ناصر جو صرف تین سال پہلے معمولی دکاندار تھا کھلنا کا سب سے بڑا ساہوکار بن گیا۔ وہ عیش و عشرت کے لئے عموماً لندن کے چکر مجیب کا بھانجا مونی جس کی کبھی مشکل سے گذر اوقات ہوتی تھی۔ اس پر خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے۔ وہ دونوں میں ارب پتی بن گیا۔ مجیب نے اپنے بہنوئی عبدالرب کو مشتاق خوند کر کی جگہ پاور اور پانی وسائل کا وفاقی وزیر بنا دیا، جس سے بھارت کی فرخا بیراج کے متعلق تمام شرائط قبول کر لیں۔ بیگم مجیب کا تینوں( مصطفیٰ، ناصر، مونی) کے کالے دھن میں حصہ ہوتا۔ مجیب کے بیٹے کمال نے کتنا سرمایہ اکٹھا کیا اس کا اندازہ مشکل ہے۔ لیکن یہ ریکارڈ پر ہے کہ وہ ایک دن بنک لوٹتے ہوئے پکڑا گیا اور زخمی ہوا، کمال جس محل میں رہتا تھا اسکے شینڈ لیئر جرمنی سے منگوائے گئے۔ بنگلہ دیش کے حکمران دن بدن امیر اور عوام غریب ہوتے چلے گئے یہ وقت تھا جب بنگلہ دیش میں ہزاروں بھوک سے مر رہے تھے۔‘‘
’’ مجیب الرحمن کے حکم پر فوجی تنظیم راکھی باہنی بنائی گئی جسے بھارتی افسروں نے ٹریننگ دی۔ اس میں بھارتی فوجی بھی شامل کئے گئے۔ ان کی تعداد سے مسلح کیا گیا، ان ظالم درندوں کو سارے بنگلہ دیش میں پھیلا دیا گیا‘‘۔ ان کے ظلم و ستم کی روئیداد الگ ہے، اگر دیکھا جائے تو آج مغربی پاکستان کی حالت زار کچھ ایسی ہی دکھائی دیتی ہے۔
پھر کیا ہوا؟ ایل اے خطیب اپنی کتاب ’’ مجیب کو کس نے مارا‘‘ میں لکھتا ہے’’ 15اگست1975 ء پوسے پہلے فوجیوں نے تین گروپوں میں پیشقدمی شروع کر دی۔ ان کا ہدف صرف دو میل دور تھا۔ شہر میں چوراہوں پر 30ٹینک لگا دیئے گئے۔ ایک گروپ نے مجیب الرحمن کے گھر کو گھیرے میں لیکر فائرنگ شروع کر دی۔ راکھی باسی کے تین ہزار جوان جنہوں نے مجیب کے گھر کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ ٹینکوں کی آمد دیکھ کر گھبرا گئے۔ مجیب کے ذاتی محافظوں نے مزاحمت کی، دونوں اطراف کچھ افراد مارے گئے۔ فوج نے جلد قابو پا لیا۔’’ مجیب کے گھر میں اس کی بیگم، تین بیٹوں، دو کی بیویوں بچوں سمیت اور ناصر بھائی کو گولیوں سے اڑا دیا گیا۔ مجیب الرحمن اس وقت سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا۔ اس کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ وہ منہ کے بل گرا، ایک فوجی نے بوٹ مار کر مجیب کی لاش کو سیدھا کیا عبدالرب کا نیا باتھ اور بھانجے مونی کو گولیوں سے اڑا دیا گیا۔ وہاں مجیب الرحمن کے بعض رشتے دار جو شادی کی تقریب میں آئے تھے سب مارے گئے۔ مجیب کی والدہ بیٹوں، بیٹیوں، ان کی بیویوں و دیگر عزیز و اقارت کی خون آلود لاشوں کی بنانی قبرستان میں بے گورو کفن ایک گڑھے میں دفا کر دیا گیا۔‘‘
یہ انجام ہوا اس قومی لیڈر کا جو پاکستان کے ساتھ اسلام کا نام سننا بھی گوارا نہ کرتا تھا۔ جو سالہا سال سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ پاکستان کو دولخت کرنے کی ساز باز کرتا رہاں، جس کے قتل کے بعد اسکا محل نما گھر مقفل ویران پڑا ہے ، وہاں کوئی نہیں جاتا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کو ایسے عبرتناک انجام سے محفوظ رکھے۔
قرآن میں ذکر ہے’’ بہت سی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تہ و بالا کر دیا۔ اسلئے کہ وہ ظالم تھے، پس وہ اپنی چھتوں کے بل اوندھی ہوئی پڑی ہیں، اور بہت سے پکے اور بلند محل ویران پڑے ہیں۔
(سورۃ الحج ۲۲)