ذرا سوچیے! چکور زیادہ خوبصورت ہے یا تلور‘ تیتر زیادہ دل فریب ہے یا تلور! ان دو میں سے کس کا گوشت لذیذ اور لذت جاں ہے؟ بلاخوف تردید پرندوں میں تیتر کا گوشت سب سے زیادہ پسند کا جاتا ہے۔ محض کھانے کا تصور ہی اشتہا بڑھاتا ہے۔ بھوک دوچند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوشت سے بیزار اپنے وقت کے مشہور عالم دین مولانا مصری کو دوست نے بھونا ہوا تیتر بھیجا تھا …ع
شاید کہ وہ شاتر اسی ترکیب سے ہو مات
مولانا دوست کے چکمے میں تو نہ آئے البتہ زندگی کی تلخ حقیقت بیان کر دی۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
تیتر اور تلور کی جسامت میں بڑا فرق ہے۔ تیتر ایک فاختہ کے سائز کا ہوتا ہے جبکہ تلور دیسی مرغ سے بھی دوگنا زیادہ وزنی ہے۔ گو دونوں خوبصورت پرندے ہیں‘ لیکن تیتر کے حسن کا جواب نہیں۔ تلور اکثر مہر بلب رہتا ہے جبکہ تیتر تان سین کی طرح گائیک ہے۔ کہتے ہیں کہ کالا تیتر گھر رکھنے سے جادو اثر نہیں کرتا۔ البتہ اس کی آواز سحر انگیز ہے۔ جب وہ ترنگ میں آکر حلق سے سریلی آواز نکالتا ہے تو ہر مذہب‘ مکتبہ فکر اور پیشے کے لوگ اپنی سوچ کے مطابق مطلب اخذ کرتے ہیں۔ ایک قصہ مشہور ہے 4 دوست اکٹھے سفر کر رہے تھے۔ ان میں ایک مسلمان تھا‘ دوسرا ہندو ‘ تیسرا بنیا اور چوتھا قصاب تھا۔ جنگل میں تیتر بولا تو پہلا کہنے لگا۔ یہ پرندہ مسلمان ہے اور حمد باری تعالیٰ کر رہا ہے۔ سنتے ہو یہ کیا کہ رہا ہے۔ ’’سبحان تیری قدرت‘‘ اس پر لالہ بولا‘ ناں مہاراج ناں! یہ خالص ہندو ہے اور بھگت گیتا کا اشلوک پڑھ رہا ہے۔ ’’سیتا رام دسرت‘‘ اس پر بنیا جھٹ سے بولا یہ تاجر ہے اور صاف لفظوں میں پکار رہا ہے۔ تیل صبون‘ ادرک‘ قصاب بھلا کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ اپنا بغدالہراتے ہوئے گویا ہوا۔ یہ میرا ہم پیشہ ہے۔ جبھی تو للکار رہا ہے۔ سری کھر وڑے (پائے) دب رکھ۔
ایک وقت تھا کہ جنگل تیتر کی آواز سے گونجتے تھے۔ میں جب اپنے گائوں تلہ گنگ جاتا تو سرشام یہ سڑک پر چہل قدمی کر رہے ہوتے۔ موٹر کی بھوں بھوں بھی انہیں خوفزدہ نہیں کرتی تھی۔ بندوں سے شناشا تھے۔ 1968ء میں بلوچستان میں جب ہم شکار پر نکلتے تو چکوروں کی پوری ڈار ہندو باغ (جسے اب مشرف بہ اسلام کر دیا گیا ہے) دیہاتی گھروں میں دانہ دنکا چگنے کیلئے اتر آتی۔ اب تیتر کہاں ہیں؟ چکور کونسے دیس ہجرت کر گئے ہیں؟ کھانا تو دور کی بات ہے وہ پرندے دیکھنے کو بھی نہیں ملتے۔ ایک محاورہ ہے۔ ’’جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔‘‘ مجھے آج تک اسکے معانی سمجھ میں نہیں آئے۔ خوبصورت مور جب اپنے پنکھ پھیلا کر جنگل میں ناچتے تو وہاں منگل کا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ کیا کسی نے مور کو ناچتے ہوئے دیکھا ہے؟ ایک عرصہ ہوا اخبار میں خبر آئی تھی کہ حاکم وقت کے چہیتے مور کو ایک جنگلی بلا ہڑپ کر گیا تھا۔ جس شدومد کیساتھ صوبے کی پولیس نے آپریشن کیا‘ اس سے مور تو نہ مل سکا‘ البتہ جنگلی بلوں کا خاتمہ ہو گیا۔
کوئی آواز نہیں اٹھی کہ تیتر Endangered Specie ہیں۔ اس نوع کی بقا کیلئے کچھ بندوست کیا جائے۔ چکور ناپید ہیں۔ پتہ کیا جائے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان کا قلع قمع کر رہے ہیں۔ کہیں مور چوروں کے ہتھے تو نہیں چڑھ گئے۔ بس ایک ہی شور ہے جو مخصوص لابی مچا رہی ہے۔ آہ و فغاں کا آرکسٹرا ہے جو تسلسل‘ تواتر اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ بج رہا ہے۔ ماتمی نوحوں‘ مرثیوں کی بین بج رہی ہے۔ کچھ ایسا تاثر قائم کیا جا رہا ہے جیسے چولستان میں شکار نہیں ہو رہا بلکہ ہلاکو خان بغداد میں قتل عام کر رہا ہے۔ انہیں اس بات کا دکھ نہیں ہے کہ ہزاروں لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ سینکڑوں لوگ کشمیر میں شہید کر دیئے گئے ہیں۔ لائن آف کنٹروال کے چار سو بارود کی بو پھیل گئی ہے۔ سارے ملک میں مفلسی‘ بھوک‘ ننگ اور کسمپرسی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آدھی آبادی خط غربت سے بھی بہت نیچے تحت السرا میں دبی جا رہی ہے۔ کھانے کو دو وقت کی روٹی نہیں ہے۔ پہننے کو ڈھنگ کا کپڑا نہیں ہے۔ رہنے کو چھت اور چاردیواری میسر نہیں۔ قارون تو اپنے خزانے کے نیچے دب گیا تھا۔ بیس کروڑ کی آبادی اسی قرض کے بوجھ تلے دب گئی ہے جو وقت کے قارونوں نے حکمرانوں کو اللوں تللوں کیلئے دیا ہے۔
تلور ایک موسمی پرندہ ہے جو سائبیریا اور شمالی افریقہ سے سردیوں کے موسم میں آتا ہے۔ جب وہاں برفباری ہوتی ہے تو اس کیلئے ہجرت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کی Ducks بھی آتی ہیں۔ کسی کو علم نہیں کہ انکی تعداد کتنی ہے۔ کون شکار کرتا ہے؟ مٹھی بھر ناقدین تردد اس لئے نہیں کرتے کہ انہں عرب شیخ شکار نہیں کرتے۔ پڑوسی دشمن ملک کو عربوں سے سروکار ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی شہری امارات میں ملازمت کرتے ہیں۔ اربوں ڈالرز کی تجارت ہوتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ روابط اس کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ویسے تو پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنا اسکی خارجہ پالیسی کا ’’کارنر سٹون‘‘ ہے‘ لیکن جہاں تک عرب ممالک کا تعلق ہے یہ سنگ گراں اس سے اٹھ نہیں پا رہا۔ 1986ء میں جب مجھے ڈی سی رحیم یار خان تعینات کیا گیا تو شیخ زاید سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہندوستان کئی دفعہ منت سماجت کر چکا ہے کہ میں وہاں شکار کھیلوں۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔ ایک برادر اسلامی ملک سے منہ کیسے موڑ لوں۔ ہندو نے اب نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس نے اپنے گماشتوں اور آلہ کاروں کے ذریعے ایک نہایت زہریلا پراپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ اتنے یہاں تلور نہیں مرتے جتنے بے گناہ وہاں شہید کر دیئے جاتے ہیں۔ اس وقت یہ لوگ منہ میں گھنگنیا ں ڈال لیتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر ناقد دشمن کا آلہ کار ہی ہو۔ کچھ لوگ اپنے تئیں ایمانداری سے بھی تنقید کرتے ہونگے۔ انہیں شاید اس بات کا علم نہیں کہ وہ لاشعوری طورپر لاعلمی میں ان شاطر لوگوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں ان حقائق سے آگاہ کیا جائے جن کی تصدیق شفاف طریقے سے ہو سکے۔ کہا گیا ہے کہ اس وقت تمام دنیا میں تلوروں کی کل تعداد نوے ہزار کے قریب ہے۔ یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ عرب حکمران تیس ہزار کے قریب ہر سال مار دیتے ہیں۔بالفرض یہ اعداوشمار درست ہیں تو پھر چند سالوں میں یہ نسل ختم ہو جانی چاہئے تھی۔ ایسا ہے نہیں۔ ہو بھی نہیں سکتا‘ اگر پانچ ہزار سال میں یہ نسل ختم نہیں ہوئی تو اب کیسے ممکن ہے؟ کیا اس وقت لوگ شکار نہیں کرتے تھے۔ شکار شغل شاہی تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں ریاستی حکمران‘ شہزادے‘ سرکاری ملازمین اور زمیندار شکار کرتے تھے۔ پرنس کے مصنف میکاولی نے شکار کو آداب حکمرانی کا جزو لاینفک گردانا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
The Prince Must Go Out hunting He Should Know The Topography of The State. He Should Know How The Vallies Open How The Mountains Slope, How The Plains Spread Out
میکاولی کا تذکرہ صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ ہمارے حکمران اسکی کتاب کو سرہانے تلے رکھ کر سوتے ہیں۔
انگریزی زبان کا محاورہ ہے Seeing is Beleiving ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ابوظہبی میں جو تلوروں کا Breeding Farm ہے‘ وہاں ہر سال پچاس ہزار پرندے پیدا ہوتے ہیں جنہیں جوان ہوکر فضا میں آزاد کر دیا جاتا ہے۔ یہ افزائش انٹرنیشنل فائونڈیشن آف ہوبارہ کنز ویشن کرتی ہے۔ چولستان میں تین ہزار پرندوں کا شکار کیا جاتا ہے۔ تیس ہزار لوگوں کو روزگار فراہم کیا جاتا ہے۔ اتنی ہی تعداد میں اونٹوں کی افزائش نسل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایشیا کی سب سے بڑی اونٹ ریس کا اہتمام ہوتا ہے۔ ایک کثیر تعداد میں چولستانی شریک ہوتے ہیں۔ ان کا قیام‘ طعام‘ خرچہ پانی شاہی کھاتے میں ہوتا ہے۔ یہ وہ مظلوم اور مفلوک الحال لوگ ہیں جن کی پتھرائی ہوئی آنکھیں سارا سال آسمان کی طرف لگی رہتی ہیں۔ کب باران رحمت ہو‘ یا کب فضا میں لوہے کی چیل (جہاز) نظر آئے جس میں ان کا ہمدرد‘ غمگسار‘ ملنسار اور روزی رساں سوار ہوتا ہے۔ روزی تو پروردگار دیتا ہے‘ لیکن اس نے زمین پر وسیلے بھی مقرر کر رکھے ہیں۔ کوزی ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر ہوانا کے سگار پیتے ہوئے یہ مٹھی بھر لوگ چاہتے ہیں کہ مظلوموں سے ان کا آخری سہارا بھی چھن جائے۔ انکے منہ سے آخری نوالہ بھی نکال لیا جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38