وطن عزیز میں جہاں جاڑے کا موسم اپنی شدت کی طرف بڑھ رہا ہے وہیں سیاسی اکھاڑوں کی گرما گرمی میں بھی اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے دھڑکتے دل لاہور کے تاریخی مقام مینار پاکستان کے سبزہ زار میں بھی ایک بڑے اور تاریخی جلسہ عام کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ یہاں 23 دسمبر (تین روز بعد) ملک سے ہجرت کرجانیوالے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری طویل انتظار کے بعد اپنے کارکنوں سمیت لاکھوں پاکستانی خواتین و حضرات سے غیر معمولی خطاب کرنے آرہے ہیں۔ حالات و واقعات کی ستائی ہوئی پاکستانی قوم اس عوامی اجتماع کو بوجوہ اہمیت دے رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر ”سیاست نہیں ریاست بچاﺅ“ کا فیصلہ کن نعرہ دیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ محض ایک نعرہ نہیں بلکہ پوری قوم کے سامنے ایک دعوت فکر رکھ دی گئی ہے۔23 دسمبر کو وہ کیا منشور پیش کرتے ہیں اور انکے وطن واپسی پر مینار پاکستان کیا منظر پیش کرے گا؟ یہ تو دو دن بعد لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے مگر اس وقت ہم سطح آب پر انکے اس نعرے سے پیدا ہونیوالے ارتعاش کا مختصر جائزہ لے رہے ہیں۔
ملک بھر سے شائع ہونیوالے اخبارات اور رسائل سمیت الیکٹرونک میڈیا پر بھی انکی آمد اور انکے اس نعرے پر تبصرے، تجزیے اور خدشات کا اظہار ہورہا ہے۔ معتدل مزاج لوگ اسے تبدیلی کا سنگ میل سمجھتے ہیں جبکہ کچھ تجزیہ کار اور تبصرہ نگار اس نعرے کو مخصوص رنگ دے کر پیش کررہے ہےں۔ ایک معاصر روزنامے کے معروف کالم نگار نے یہاں تک لکھ دیا کہ ”چونکہ ڈاکٹر صاحب کے پاس دہری شہریت ہے اور وہ پاکستان کی اسمبلی میں جانے کی اہلیت نہیں رکھتے اس لئے جو نظام انکی پارلیمانی رکنیت کی راہ میں مزاحم ہے اس نظام کو وہ بھاڑ میں جھوک دینا چاہتے ہیں سیاست نہیں ریاست کا نعرہ لگاتے ہوئے پورے انتخابی اور جمہوری نظام کی نفی کررہے ہیں“۔ موصوف کے جذبات کا تلاطم یہاں تک رہتا تو کسی حد تک قابل فہم تھا مگر انہوں نے اپنی بے چینی اور جھنجلاہٹ کا ثبوت دیتے ہوئے ”فخرو“ بھائی کو یہ کہہ کر متوجہ کیا ہے کہ ”وہ ضابطہ اخلاق کا دائرہ ان ”بے مہاروں“ تک بھی پھیلائیں جو کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر انتخابات اور الیکشن کمیشن کی ساکھ کے درپے ہورہے ہیں“۔
قارئین! مندرجہ بالا اقتباسات درج کرنے کا مقصد کسی پر تنقید نہیں بلکہ اس المیے کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ ہمارے سینئر دانشور بھی جب کسی کی زلف کے اسیر ہوجاتے ہیں یا کسی سیاسی دھڑے سے اپنی وابستگی کا حق نمک ادا کرتے ہیں تو بڑے سے بڑے تلخ حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ انہوں نے ہر حالت میں اپنے ”باس“ کا دفاع کرنا ہوتا ہے چاہے انہیں روشنی کو اندھیرا اوراندھیرے کو روشنی ہی کیوں نہ کہنا پڑے۔ ایسے عالی دماغ اور زیرک صاحبان قلم کی خدمت میں صرف اتنا عرض ہے کہ جس انتخابی سسٹم میں خود آپ منتخب ہوکر آگے آنے کا تصور نہیں کرسکتے اسکی بانجھ کوکھ سے آپ کسی شریف النفس اور دیانتدار قیادت کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں؟
اسی طرح کچھ قابل احترام تجزیہ نگار یہ اعتراض بھی کررہے ہیں کہ ”ڈاکٹر صاحب اگر خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آرہے ہیں تو انہیں خاموشی کے ساتھ آجانا چاہئے پورے ملک میں شور شرابہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ انکی یہ بے چینی بھی ہمارے لئے ناقابل فہم ہے۔ انتخابی جلسوں کی اس اندھی دوڑ میں نہ جانے انہیں ڈاکٹر صاحب کے کارکنوں کا تحرک اور مروجہ سیاست پر تنقید کا لہجہ کیوں ناپسند ہے۔ بہت سے دوستوں نے اس نعرے میں چھپے فتنوں اور طوفانوں کی خبر بھی دی ہے۔ انکی نیت پر ہم شک نہیں کرتے۔ انکے بقول قومی انتخابات کا بگل بجنے والا ہے اور بڑی مشکل سے موجودہ حکومت مقررہ مدت پوری کررہی ہے۔ ایسے میں اگر عادی آمریت اور خودسر اسٹیبلشمنٹ کو بہانہ مل گیا تو وہ آرام سے مشرف کے احتساب کی طرح ا س ”عمل تطہیر“ میں مزید دس سال گزار دے گی۔ اس طرح تو کوئی بھی اس نظام سے چھٹکارے کا تصور نہیں کرسکے گا۔ اس طویل ظالمانہ جمہوری تجربے کے بعد تبدیلی کی خواہش تو امید اور زندگی کی علامت ہے۔ رہا فوجی مداخلت کا خطرہ تو اب آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی موجودگی میںیہ بھی ناممکن ہے۔ ہاں اگر دیانتدار مخلص اور اہل ٹیم پر مشتمل نگران حکومت سیاسی گندگی کو صاف کرکے قومی اداروں کی ساکھ کو بحال کردے تو اس سے بہتر اس بدقسمت قوم کو اور کیا چاہئے۔ اب بھی اگر تبدیلی کے امکانات واضح ہوتے اور ملک میں نئے اور پرعزم لوگوں کا آگے آنا ممکن ہوتا تو بات اور تھی مگر موجودہ جوڑ توڑ اور خریدوفروخت کے نتیجے میں جو ڈھانچہ بھی برسراقتدار ہوگا اس میں بڑے کھلاڑی وہی پرانے ہونگے۔ اگر لوگوںکو یہ خوش فہمی ہے کہ ن لیگ پی پی کی نسبت بہتر حکمرانی کرکے تباہ شدہ قوم کو سہارا دے سکے گی تو ”ایں خیال است و محال است و جنوں“ کیونکہ اس وقت اس سیاسی جماعت میں ان پنچھیوں کی اکثریت ہے جو شریف برادران کی عدم موجودگی میں مشرف حکومت کے خوانِ نعمت پر چہچہا رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف مفاداتی سیاست کے فرعون ڈاکٹر صاحب کے اس نعرے سے خائف ہوچکے ہیں اور دوسری طرف لوگ باری باری کے اس جمہوری تماشے سے بدظن ہوچکے ہیں اور صحیح معنوں میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تبدیلی نہ صرف ان کی آئندہ نسلوں کیساتھ دیانت کا تقاضا ہے بلکہ مملکت خداداد پاکستان کی سلامتی اور بقاءکا تقاضا بھی یہی ہے۔
یہاں بعض احباب ڈاکٹر صاحب کو عمران خان کے ساتھ ملکر سیاسی جدوجہد کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔ ان حضرات کی نیک نیتی بھی صاف ظاہر ہے مگر ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ چونکہ تحریک انصاف پہلی مرتبہ انتخابی دنگل میں بھرپور حصہ لے رہی ہے اس لئے اسے اس راستے کی ہلاکت خیز گھاٹیوں کا کماحقہ علم نہیں۔ جن کے منہ کو اقتدار کا نشہ لگ چکا ہے اور انہوں نے الیکشن جیتنے کیلئے مال اور اسلحہ کے ذخائر جمع کررکھے ہیں وہ کب چاہیں کہ انکے ہاتھ سے کوئی شخص یہ سب کچھ چھین کر انہیں گھر بٹھادے۔ لہذا وہ ہر حالت میں تبدیلی کی سونامی کا راستہ روکیں گے اور ایک دو مرتبہ جب ایسا ہوگیا تو لامحالہ تحریک انصاف بھی اس کرپٹ انتخابی نظام سے بغاوت کردیگی۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ڈاکٹر صاحب ریاست بچانے کیلئے سیاست کو غیر اہم سمجھ رہے ہیں حالانکہ سیاست تو جمہوری عمل ہے جسے جاری رہنا چاہئے۔ ایسے دوستوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ سیاست اور جمہوریت کی افادیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر صاحب کی 20 سالہ اپنی سیاسی جدوجہد کے علاوہ مصطفوی انقلاب پر ان کی درجنوں کتب اور سینکڑوں خطابات موجود ہیں جن میں انہوں نے سیاست کو دین کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے۔ وہ سیاست کو سنت موکدہ سمجھتے ہوئے اسلامی ریاست کا قیام اپنی زندگی کا واحد مقصد قرار دے چکے ہیں۔ صاف ظاہر ہے ان کا آئیڈیل مصطفوی سیاست ہے موجودہ کرپٹ اور ابلیسی جاہ طلبی نہیں۔ جو دانشور الیکشن کمیشن اور انتخابی سیاست کے تقدس کے راگ الاپ رہے ہیں اور اس نظام سے بغاوت کرنے والے محب وطن شہریوں کو ”بے مہار“ قرار دے رہے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اسی انتخابی نظام کی پیداوار بے اثر اسمبلیوں نے نہ صرف قوم کے بچے بچے کو قرضوں میں ڈبودیا ہے بلکہ 18 کروڑ عوام کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب خود اگر کینیڈا کے پرامن ماحول کو چھوڑ کر وطن عزیز کی خون آلود فضاﺅں میں قدم رکھ رہے ہیں تو یہ بذات خود ان کی جرات مندی اور حب الوطنی کی علامت ہے۔ ملک میں آئے روز خودکش حملے ہورہے ہیں پاکستان کا وجود اور اس کے قومی سیکورٹی ادارے جن دہشت گردوں کی زد میں ہیں انہی کے خلاف ڈاکٹر صاحب نے پورے چھ سو صفحات کا مدلل تاریخی فتویٰ جاری کیا ہے۔ پرعزم لوگ جان کی پرواہ نہیں کیا کرتے۔ ہمارے اندازوں کے مطابق ڈاکٹر صاحب اس قوم کو سنبھلنے کے لئے مصری قوم کی طرح ”میدان تحریر“ فراہم کررہے ہیں اور اپنی جان کو خطرات میں ڈال کر انقلاب کے دروازوں پر دستک دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب یہ اہل پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ انقلاب کی اس دستک پر ان کا کتنا اور کہاں تک ساتھ دیتی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024