ملکی تاریخ کا بدترین سیاسی بحران۔دعوئوں اور نعروں کے شور میں عوام کچھ سمجھنے میں ناکام۔بھاری مینڈیٹ کی دعویدار حکومت کا اقتدار ڈولنے لگا۔ سیاست کی شاہراہ پر ہر لمحہ نئی پیشرفت۔کون کس کے ساتھ؟ کس کا کیامفاد؟ ظاہر کیا اور باطن میں کیا کچھ معلوم نہیں۔حکومت کئی اطراف سے گھِر گئی۔ بچائو کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔حکمرانوں کی غلطیاں دیوار بن گئیں۔طاقت کے زعم نے بند گلی میں پہنچا دیا۔ حکومت کی سیاسی حمایت میں کھوکھلا پن۔قوم ذہنی طور پر تبدیلی کیلئے تیار۔ عوام سے فاصلے اور کرسی سے قربت کا عبرتناک انجام۔ کسی نے سچ کہا۔ ماضی سے سبق نہ سیکھنے والوں کو تاریخ معاف نہیں کرتی۔
تحریک انصاف انتخابات کے بعد سے ہی انتخابی دھاندلی کو بے نقاب کرنے کیلئے کوشاں تھی اور ظاہر ہے دال میں کچھ کالا تھا کہ حکومت اس مطالبے کو ماننے سے انکاری تھی، بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ عمران خان نے حکومتی مینڈیٹ کو جعلی قرار دے کر شہر اقتدار پر چڑھائی کر دی، عمران خان نے گو کہ لانگ مارچ پوری تیاری کے بغیر شروع کیا اور ضمن میں پنجاب کی پارٹی قیادت کی اس رائے کو خاطر میں نہ لائے کہ لانگ مارچ کم و بیش ایک ماہ بعد شروع کیا جائے تاکہ موسم کی شدت بھی کم ہوجائے اور انہیں تیاری کیلئے بھی مناسب وقت مل جائے بصورت دیگر لوگوں کی شرکت کے حوالے سے کے پی کے پر زیادہ انحصار کیا جائے، عمران خان یوم آزادی کا موقع ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھے، انہوں نے فیصلہ صادر کردیا،جس کا نتیجہ انہیں لاہور میں ہی بھگتنا پڑ گیا جہاں شرکاء کی تعداد توقع سے کہیں کم تھی، کئی گھنٹے تک مارچ پنجاب اسمبلی چوک میںکارکنوںکی راہ تکتا رہا، بالآخر طویل انتظار کے بعد نہایت سست رفتاری سے یہ کارواں چلا اور رینگتا ہوا گوجرانوالہ پہنچا لیکن یہاں بھی مارچ سونامی کی شکل اختیار نہ کر سکااور عمران خان پارٹی رہنمائوں پر خوب برسے۔
اسلام آباد میں عمران خان دھرنے کے شرکاء پنڈال میں رکھنے میں کامیاب رہے اور حکومت کی یہ توقع خام خیالی ثابت ہوئی کہ کارکن تھک کر کپتان کا ساتھ چھوڑجائینگے، اس نفسیاتی برتری کے بعد عمران خان نے اصل میچ شروع کیا ، وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کو پہلا اور آخری مطالبہ بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے حکومت پر اس قدر دبائو بڑھا دیا کہ حکومت استعفے کے سوا کپتان کے بہت سے مطالبات ماننے پر تیار ہوگئی ،مذاکراتی کمیٹیاں بھی بن گئیں لیکن عمران خان بات چیت کیلئے تیار نہ ہوئے، جس پر بحران مزید گہرا ہو گیا ، عمران خان نے مطالبات منوانے کیلئے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا تو قوم حیران رہ گئی لوگ کسی ایسے اقدام کی توقع نہیں کر رہی تھی، تمام مبصرین نے بھی اس اعلان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مشورہ دیا کہ عمران خان کو اپنی لڑائی حکمرانوں تک محدود رکھنی چاہئے اس کا دائرہ اتنا نہیں پھیلانا چاہئے کہ ملک اور ریاست سے ٹکرائو کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ ماضی میں دو بار تحریکیں چلیں جو افسوسناک انجام سے دوچار ہوئیں، پہلی بار1971 میں شیخ مجیب الرحمان نے سول نافرمانی کی کال دی تھی اور بعد میں ملک دولخت ہوا، دوسری مرتبہ 1977 میں پی این اے کی تحریک کے سول نافرمانی کا اعلان کیا گیا ، جنرل ضیاء کا طویل مارشل لاء لگا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی۔ اب عمران خان استعفوں سے بھی آگے بڑھ کر ریڈ زون ٹوڑ رہے ہیں ، جو ملک کیلئے انتہائی خطرناک ہے اور دنیا میں پاکستان کی ساکھ اور وقار دائوپر لگانے کے مترادف ہے۔
دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری عددی اور مطالبات کے اعتبار سے خاصی اہمیت اختیار کر رہے ہیں ، ان کے دس نکات میں عمران خان کے مقابلے میں زمینی حقائق کو زیادہ فوقیت دی گئی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی کامیابی کے پیچھے میڈیا میجک کا ہاتھ ہے، میڈیا کے اس جادوگر کا نام منصور صدیقی ہے ، یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے جماعت اسلامی کی پاسبان کی داغ بیل ڈالی اور پھر ۔۔ظالمو! قاضی آرہا ہے ۔۔فیم سے جماعت اسلامی جیسی دینی اور نظریاتی جماعت کو مخصوص حلقوں سے نکال کر عوامی جماعتوں کے مقابلے میں لاکھڑا کیا تھا، پی ڈی ایف، ملت پارٹی اور پھر تحریک انصاف میں بھی انکی سوچ کارفرما رہی اور وہ ان کی میڈیا مہم کے انچارج رہے۔اس وقت طاہر القادری کے مطالبات عوامی امنگوں کے قریب تر ہیں اور اس میں منصور صدیقی کا مرکزی کردار ہے۔ ابتداء میں پاکستان عوامی تحریک عمران کی طرف دیکھ رہی تھی لیکن اب اس نے الگ لائن آف ایکشن لے لیا ہے۔ عمران خان کا انداز جارحانہ ہے لیکن وہ عوام کو یہ نہیں بتا رہے کہ آنیوالے دور کے خدوخال کیا ہوں گے؟ لیکن ڈاکٹر طاہر القادری بتا رہے ہیں کہ ان کا ہدف کیا ہے اور وہ عوام کو کس طرح ریلیف دیں گے۔
عمران خان کی جانب سے استعفوں کی سیاست کے بعد اِن ہائوس تبدیلی کے امکانات بھی دم توڑ چکے ہیں ورنہ اس سے پہلے اس آپشن پر بھی غور کیا جا رہا تھا جبکہ ایسی صورت میں نواز شریف اسمبلیاں توڑنے کا اختیار استعمال کر سکتے تھے۔ بات چیت کے دروازے بند ہونے کے بعد اب تخت یا تختہ والی صورت درپیش ہے۔ پاک فوج ابھی تک دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر کاربند ہے، آرمی چیف نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ سیاستدانوں کی اس لڑائی میں فرہق نہ بنیںحالانکہ چار ایسے مسائل ٹیبل پر ہیں جن کی موجودگی میں فوج اپنا وزن حکومت مخالف تھریک کے پلڑے میں ڈال سکتی تھی، لیکن فوج نے موقع پرستی کو ٹھوکر مار دی۔ حکومت اور فوج کے درمیان رخنہ بننے والے چار مسائل میں پاک بھارت تعلقات ، ڈیڑھ ارب ڈالر کا قضیہ، ایک میڈیا گروپ کی جانب حکومت کا ضرورت سے زیادہ جھکائو اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا معاملہ۔یہ مسائل ایسے تھے جو ایک ایک کرکے حل کئے جاسکتے تھے لیکن حکومت انہیں طے کرنے کی بجائے نجانے طاقت کے کس خمار میں مبتلا رہی اور مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کی بجائے متکبرانہ انداز اختیار کرلیا،جس کے نتیجے میںفاصلے برھنے لگے اور بالآخربداعتمادی میں تبدیل ہوگئے اور اب بات سمٹنے میں اور معاملہ سلجھنے میں نہیں آرہا۔
یہ بات کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ پاک فوج نظم وضبط میں اپنا ثانی نہیں رکھتی،اور اسی بنیاد پر اس کا یہ تقاضہ رہا ہے کہ دفاع اور خارجہ پالیسی میں انکی رائے کو اولیت دی جائے، یہ ایک جائز بات ہے جس کی مخالفت اس لئے زیب نہیں دیتی کہ دفاع اور خارجہ پالیسی پر ہی کسی ملک کی سلامتی اورسا لمیت کا انحصار ہوتا ہے ۔ اب فوج ایک دوراہے پر کھڑی ہے اسکے سامنے سوال ہے کہ ملک کواقتدار کی لڑائی کیلئے اکھاڑہ بنانے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے اور اگر دارالحکومت میں خون بہتا ہے تو اسے کون روکے گا؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38