بقول ساغرصدیقی ....
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں توکیا تماشا ہو
آج سیاست سے پاک کالم آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ حقائق جان کر بخوبی اندازہ لگا سکیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور آنیوالے دنوں میں جب موجودہ حکومت نہیں ہوگی تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی اور نئی حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خزانہ خالی ہونے کا شور مچا کر آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو عوام میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ، قرضے ملے ، اتنے ملے کہ پاکستان کازر مبادلہ 23ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہونے کی نوید سنا دی گئی، مجھ سمیت پاکستانی عوام خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھی کہ اچانک آئی ایم ایف نے ڈنڈا دکھا یا اور ہمیں بہت سے نئے ٹیکس لگانا پڑے اور مہنگائی میں یکدم اضافہ ہوتا دکھائی دیا تو عوام کی چیخیں نکل گئیں ، کیونکہ جب انسان قرضہ لیتا ہے تو وہ قرضے کی رقم کا بے دریغ استعمال کرتا ہے مگر جب اُس کے چکانے کی باری آتی ہے تو پھر وہ آئیں بائیں شائیں سے کام لیتا ہے، اور یہی دور اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اندرونی و بیرونی اداروں سے بے تحاشہ قرضے لیے، کہاں خرچ ہوئے یہ الگ بحث ہے، مگر اس قدر قرضوں کی وجہ سے پاکستان کی معاشی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارو ں کو مداخلت کرکے حکومت کو جھنجوڑنا پڑا ، جس پر آئی ایم ایف ودیگر مالیاتی اداروں نے پاکستان پر دباﺅ ڈالا کہ ڈالر اِس وقت 116 روپے فی ڈالر یا اس سے بھی کچھ زیادہ کا ہونا چاہیے تاکہ مہنگائی میں اضافہ ہو اور حکومت زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھے کر کے مالیاتی اداروں کو واپس کرے۔ ویسے بھی آپ ان مالیاتی اداروں کی ویب سائیٹس چیک کرلیں جہاں پاکستان کے حوالے سے رپورٹیں پڑی ہوئی ہیں جن کے مطابق پاکستان آئندہ سال 2018کی پہلی سہ ماہی میں 11ارب ڈالر اداکرنے کا پابند ہے۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ بجٹ 2017-18میں ملکی و غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے 14سو ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اس قدر زیادہ رقم چکا نے کے لیے آپ کو مزید قرضے لینے پڑیں گے، اور قرض لینے کے لیے ہم پہلے ہی ملک کے منافع بخش اداروں کو‘ جن میں ائیرپورٹس ، پورٹس اور موٹروے شامل ہیں‘ ہم پہلے ہی گروی رکھوا چکے ہیں اور پھر جب یہ کہا جا تا ہے کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب 45کروڑ ڈالر تک کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ ان ذخائر کے اضافے کا قصہ جو سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اسلام آباد میں گزشتہ سال ایک سیمینار کے دوران بیان کیا ذرا سن لیجئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا موجودہ بیرونی قرضہ 2018-19 تک بڑھ کر 90 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ حکومت کو ہر سال 20 ارب ڈالر بطور سود کی قسط ادا کرنا ہونگے۔ یعنی آنے والے تین برس میں یہ اضافہ 38% ہو گا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ مقتدر طبقے اس معاشی صورتحال سے بے خبر اپنے تجوریاں بھرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ گردن تک قرضوں میں ڈوبے ملک کا سیاسی ڈھانچے یہاں کی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ بس اشرافیہ کا ایک چھوٹا سا طبقہ ملک میں لوٹ مار پر لگا ہواہے۔ معاشی بہتری کی تمام تر پالیساں صرف انہی کے مفادات کی غماز ہیں۔
عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال کیے جارہے ہیں کہ خدا کی پناہ .... کہا جاتا ہے کہ 2047ءیعنی پاکستان کے بننے کے 100سال بعد پاکستان دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائے گا، عقل کے اندھوں کا یہ بیان سمجھ سے بالاتر ہے، جبکہ محترم وزیراعظم صاحب،جناب وزیر خزانہ ، حکومتی وزراءاورحکومتی ادارے کافی عرصے سے اس قسم کے ہی بیانات جاری کررہے ہیں کہ پاکستان دنیا کا تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک بن چکا ہے،کبھی سالانہ شرح نمو بڑھنے کے دعوے کئے جارہے ہیں ،کبھی پاکستان کوابھرتی ہوئی معیشت دکھا یا جارہا ہے۔
کبھی یہ کہا جارہا ہے کہ2025میں پاکستان دنیا کا سولہواں بڑا مستحکم ملک بن جائے گا، کبھی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے شادیانے بجائے جارہے ہیں ، کبھی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کوایشیاءکی بہترین اسٹاک ایکسچینج قرار دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ خیر آگے بڑھنے کی آس رکھنا،خوش گمانی کرنایا ترقی کی امید رکھناکوئی بری بات نہیںہے بلکہ یہ مثبت اور تعمیری سوچ کی عکاسی کرتا ہے مگرخوش فہم ہونا، خیالی پلاﺅ پکانا یا ہوا میں محل بنانا کوئی تعمیری یا ترقی پسندانہ رویہ نہیںہوتابلکہ حقیقی و ذزمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر اپنی منصوبہ بندیا ں کرنے اور عملی جدوجہد سے ہی تعمیروترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنایا جاسکتا ہے۔
یہاں کہ حالات تو یہ ہیں کہ جب من پسند اور میرٹ کے خلاف لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے تو وہ رخصت ہوتے ہوئے ادارے کی ہر چیز کو اپنی ملکیت سمجھ لیتے ہیں، جیسے گزشتہ دنوں حکومت نے سینیٹ میں اعتراف کیا ہے کہ پی آئی اے کا طیارہ سابق ایم ڈی اپنے ساتھ جرمنی لے گیا اور معلوم نہیں اس معاملے پر انکوائری کا کیا ہوا، اس سے پہلے موصوف ایم ڈی ایک عدد طیارہ اونے پونے داموں میں بیچ چکے تھے۔ جس کا آج تک کسی نے حساب نہیں مانگا ۔ بہرکیف پاکستان کی معیشت کو آسرا دینے کے لیے کوئی” وائٹل فورس“ یعنی خدائی طاقت ہی درکار ہوگی ورنہ آئی ایم ایف کے پلان کے مطابق اگلے سال مارچ میں جب پاکستان مالیاتی اداروں کو ادائیگی کر چکا ہوگا، اور ملکی زر مبادلہ 14ارب ڈالر کے ارد گر د چکر لگا رہا ہوگا تو اس کے قوم کو اثرات مارچ میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ جب ڈالر 130روپے کا ہو جائے گا ، اُس قت ملک کی اکا نومی کو کون سنبھالے گا، پھر میاں نواز شریف سے کون پوچھے گا کہ” مجھے کیوں نکالا“
پھر عوام ان حکمرانوں سے پوچھیں گے کہ کیا ہم ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ اس کا جواب کون دے گا۔ کیا اس کی سزا نئی آنے والی حکومت کو دیں گے؟ کیا اس کی ذمہ دار بھی فوج ہے؟ کیونکہ 2002ءسے تو یہی سیاستدان اقتدار میں ہیں؟ آج ملک میں 80فیصد سے زائد ادارے چل نہیں رہے اور جو 20فیصد ادارے رہ گئے ہیں وہ گروی رکھے جا رہے ہیں، اور اگر موٹروے پیسے کما رہی ہے تو اسے گروی رکھ دیا گیا ہے۔
کیا اس سب کی ذمہ داری بھی فوج پر عائد ہوتی ہے؟ اور پاکستان کی تاریخ کا وہ کیسا دن ہوگا جب ہمارا وزیر خزانہ منی لانڈرنگ کے کیس میں پیش ہوگا، اس کے بعد سوئس حکومت کیا کرے گی؟ عالمی دنیا میں ہمارا تاثر کیا ہوگا؟حبیب بینک نیویارک برانچ میں جو کچھ ہوا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ وہ واقعات ہیں جو عالم سطح پر پاکستان کی بدنامی کے ذمہ دار ہیں، ان کی وجہ سے تباہی کی داستان کو بیان کر رہا ہے۔
آج بھی ملک کی% 90 سے زیادہ معیشت کالے دھن پر کھڑی ہے۔کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے ا±ٹھائے گئے اقدامات سے اب تک کوئی خاطر خواہ وصولی ہوئی ہے اور نہ ہی کرپشن محکموں کے اندر سے ختم ہوئی ہے۔ البتہ کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام کا شور و واویلا ضرور مچایا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں کے درمیان بھی احتساب کے اس عمل پر اختلافات موجود ہیں۔حکومت حال ہی میں اربوں روپے کے نئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے ایک دفعہ پھر ٹیکسوں کا یہ بوجھ بالواسطہ طور پر عوام پر ڈال دیا جائے گا۔
بڑے سرمایہ دار اور تاجر اس سے بچ جائیں گے۔ ویسے بھی اس مالی سال میں حکومت کی ٹیکس وصولی مقرر کردہ ہدف سے کہیں کم ہے جو اس بات کی غماز ہے کہ حکومت اور ٹیکس چور اشرافیہ ، بڑے سرمایہ داروں اور تاجروں کے درمیان اعتماد کی فضا نہیں ہے۔ حکومت مجبور ہو کر اس سال بھی ٹیکس ایمنیسٹی کا اعلان کرنے جاری رہی ہے۔ جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ریاست نے اشرافیہ ، بڑے تاجروں اور سرمایہ داروں کے آگے ہمیشہ کی طرح گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
آج حالات یہ ہیں کہ ریمیٹنس آنہیں رہی، بیرون ملک خصوصاََ عرب ممالک سے پاکستانیوں کو نکال کر برما، بنگلہ دیش اور بھارت سے سستی لیبر رکھی جا رہی ہے۔ امپورٹ کا بل دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، جبکہ برآمدات کا بل دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا ان چیزوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جب موجودہ حکومت ختم ہوگی اور نگران سیٹ اپ آئے گا تو اس کے بعد ملک ڈیفالٹ کی طرف بڑھ جائے گا۔
میرے خیال میں یہ وقت قوم کو اعتماد میں لینے اور سچ بتانے کا ہے، اور یہ بتانے کا وقت ہے کہ ہم واقعی ڈیفالٹ کی طرف جار ہے ہیں، یہ بات قوم کو اگر سچ بتا دی جائے تو ہم آنے والے کڑے وقت کے لیے اپنے آپ کو تیار کر سکتے ہیں اور آئندہ کے لیے ضروری اقدامات کر سکتے ہیں۔ اگر آج بھی ہم نے جھوٹ بولا تو پانی سر سے گزرتے ہوئے دیر نہیں لگے گی۔