سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براﺅن نے ایک دھماکہ خیز بیان میں یہ انکشاف کیا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع کو اس حقیقت کا علم تھا کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں اسکے باوجود اس نے برطانیہ کو اس سے بے خبر رکھا اور برطانیہ اس جنگ میں شریک ہو گیا۔ مارچ2003ءمیں جب عراق میں جنگ شروع کی گئی موصوف برطانوی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے ان کا کہنا ہے کہ اس حیثیت میں ان کو خفیہ معلومات تک رسائی رہتی تھی جو کابینہ کے دیگر اراکین کے پاس نہیں ہوتی تھیں ایک غیر معمولی الزام لگاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ کے پاس عراق کی جنگی صلاحیتوں کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ تھی جو برطانیہ کو نہیں دکھائی گئی تھی۔ اگر وہ رپورٹ برطانیہ کو دکھائی جاتی تو آج تاریخ مختلف ہوتی، کیونکہ اس رپورٹ کی موجودگی میں جنگ کرنے کا جواز کمزور پڑ جاتا اور اس کا آغاز نہایت غیر متناسب ردعمل ہوتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عراق جنگ سے متعلق چلکوٹ انکوائری کمیشن نے اس رپورٹ کا مطالعہ نہیں کیا، لہٰذا وہ صرف اس نتیجے تک پہنچا کہ برطانیہ کو جنگ صرف اس وقت شروع کرنی چاہئے تھی جب عراق کو پرامن طور پر غیر مسلح کرنے کے راستے ختم ہو جاتے اپنی نئی کتاب ”میری زندگی“ ہمارے زمانے“ میں‘ جو گزشتہ ہفتے شائع ہوئی ہے میں براﺅن کے انکشافات سے برطانیہ میں ایک بار پھر عراق جنگ میں شمولیت سے متعلق بحث چھڑ جائیگی جو کسی حد تک چلکوٹ کمیشن کی رپورٹ آنے پر ٹھنڈی پڑ گئی تھی۔
براﺅن کا کہنا ہے کہ مارچ 2003ءمیں جنگ شروع کرنے کی جلدی تھی، میں اس وقت سے تواتر سے میں خود سے سوال کرتا رہا ہوں کہ میں اس معاملے میں کیا کچھ ایسا کر سکتا تھا جس سے اس بدقسمت فیصلے کو بدلا جا سکتا، وہ مزید کہتے ہیں کہ مجھے ایم آئی، نے یقین دلایا تھا کہ عراق کیخلاف جنگ حقائق پر مبنی ہے لیکن حکومت سے فارغ ہونے کے بعد جو حقائق میرے سامنے آئے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کے بارے میں جان بوجھ کر گمراہ کیا گیا تھا اس ضمن میں انہوں نے ستمبر 2002ءکے ان کاغذات کا ذکر کیا ہے جو وزیر دفاع کے حکم پر تیار کئے گئے تھے اور محکمہ دفاع کے پاس تھے اور حال میں افشا کئے گئے ہیں‘ براﺅن کہتے ہیں کہ ان کاغذات سے یہ عیاں ہے کہ عراقی ہتھیاروں سے متعلق شواہد بہت کمزور تھے۔ یا ناقابل اعتناءاور اہم ترین شعبوں میں موجود ہی نہ تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ناقابل یقین بات ہے کہ ہم میں سے برطانوی حکومت کے کسی فرد نے بھی اس امریکی رپورٹ کو کبھی نہیں دیکھا اس رپورٹ سے یہ واضح ہے کہ کس قدر زور کیساتھ حکومت کا موقف چیلنج کیا گیا ہے۔ ایک انجانی بات کا انداہ لگانے کیلئے ہم نے بڑی جدوجہد کی ہے۔ عراقی ہتھیاروں کے پروگرام کے مختلف پہلوﺅں اور ہماری معلومات صفر سے لیکر 65فیصد تک ہیں ہم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امریکہ کے پاس عراقی پروگرام سے متعلق علم 90فیصد تک ایسے تجزیات پر مبنی ہیں جو مجہول معلومات پر کئے گئے ہیں“۔ براﺅون آگے چل کر کہتے ہیں کہ امریکہ کے پاس موجود انتہائی خفیہ معلومات نہ صرف عراقی ہتھیاروں کی موجودگی کی تردید کر رہی تھیں بلکہ یہ بھی کہ اسکے پاس اس طرح کی صلاحیت بھی نہیں ہے، مزید برآں اگر یہ رپورٹ ہم کو دکھائی جاتی تو آج تاریخ مختلف ہوتی۔
براﺅن یہ بھی کہتے ہیں کہ اس رپورٹ کی موجودگی میں وہ شرائط پوری نہیں ہوتیں جو ایک منصفانہ جنگ کے آغاز کیلئے ضروری ہیں۔ امریکہ میں اس رپورٹ کو چھپایا گیا اور اس وجہ سے اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق جنگ شروع نہیں کی جا سکتی تھی۔ ہم نے گورڈن براﺅن کی نئی کتاب سے مندرجہ بالا اقتباسات جو گارجین نے 5نومبر کو شائع کئے ہیں اس لئے ذرا تفصیل سے بیان کئے ہیں کیونکہ ہمیں اس پر شدید تحفظات ہیں یہ بات کہ امریکہ نے جان بوجھ کر غلط معلومات کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا تھا ایک عرصے سے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ 2005ءمیں امریکہ صدر کے بنائے ہوئے کمیشن نے یہ واضح کر دیا تھا کہ خفیہ اداروں کی معلومات بالکل غلط تھیں لیکن کولن پاول نے اس کا اعتراف اس سے بھی پہلے کر لیا تھا، انکے اور سی آئی اے کی ڈائریکٹر کے درمیان تلخی بھی پیدا ہوئی جب ایک ایسے عراقی منحرف کی بتائی معلومات کی بنیاد پر انہوں نے اقوام متحدہ سے اپنی 5فروری 2003ءکی تقریر میں کیمیکل اور بائیو لوجیکل ہتھیاروں سے لیس موبائل لیبارٹریز کا ذکر کیا، جو بعد ازاں جھوٹی ثابت ہوئیں۔
اسکے علاوہ امریکی سینٹ کی سلیکٹ کمیٹی نے 2004ء اور 2008ءمیں اس بات کی انکوائری کی کہ آیا حکومتی اہلکاروں کے بیانات واقعی خفیہ اداروں کی معلومات پر مبنی تھے؟ کمیٹی نے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ بہت تکلیف دہ تھے، بش انتظامیہ نے سیاسی بنیادوں پر خفیہ معلومات میں ردو بدل کیا اور خود خفیہ اداروں نے بھی یہ کام کیا تاکہ انکی ناکامی کے اسباب کا پتہ نہ چل سکے، بش انتظامیہ نے معلومات کا تقاضا کیا اور پھر ان کو اپنے دعوﺅں کیلئے استعمال کیا، امریکی اور برطانوی حکومتوں نے مکمل ہم آہنگی کیساتھ جنگ شروع کرنے اور اس کیلئے عوامی حمایت کے حصول کا پروگرام بنایا تھا، سی آئی اے نے اپنی رپورٹس میں اس انداز سے ردو بدل کیا جس سے جنگ کرنے کا جواز پیدا ہوتا تھا اور اسکے پاس جو مواد موجود تھا اس کا صحیح تجزیہ نہیں کیا گیا تھا۔ برطانیہ کی رپورٹس میں بھی ایسی ہی تبدیلیاں کی گئیں بعدازاں خفیہ رپورٹس کو جب افشا کر دیا گیا تو یہ بات بھی سامنے آ گئی کہ دونوں ممالک میں خفیہ اداروں نے اپنی رپورٹس میں ردوبدل اپنی قیادت کی خواہشات کے پیش نظر کیا تھا۔علاوہ ازیں صدر بش کی پریس سیکرٹری اسکاٹ میکلیلن نے 2008ءمیں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ”ہوا کیا؟“ میں یہ انکشاف کر دیا کہ بش انتظامیہ ستمبر 2002ءسے خفیہ طورپر عوامی حمایت کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی اور یہ پالیسی بنا لی گئی تھی کہ عراق پر حملہ کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر بش کا حکومت کرنے کا انداز یہ تھا کہ اگر ایک دفعہ پالیسی بن گئی ہے تو انتظامیہ کے تمام محکمے اس پر عملدرآمد اور کامیابی کیلئے کام کریں۔ قطع نظر اس سے کہ اس میں کتنے ہی نقائص کیوں نہ رہ گئے ہوں۔
ران سسکند نے‘ جو ایک نامور‘ انعام یافتہ اور ممتاز صحافی ہیں اور کئی مقبول کتابوںکے مصضنف بھی ہیں‘ اپنی کتاب ”دنیا کا طریقہ“ میں بڑی تفصیل کےساتھ عراق جنگ میں خفیہ معلومات‘ ان کا حصول‘ اس سے وابستہ کردار‘ اوقات کار‘ استعمال اور دیگر تفصیلات کو بڑی عرق ریزی سے جمع کیا ہے۔ انکے جمع کردہ مواد سے دو اہم نکات یہ ہیں: عراقی منحرف نے‘ جس کو بہت کوششوں کے بعد اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں شرکت کے بہانے نیویارک بلایا گیا تھا‘ واضح طورپر بتا دیا تھا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں ہیں‘ لیکن جب یہ اطلاع صدر بش تک پہنچانے کی کوشش کی گئی تو انکے ردعمل سے مایوس ہوکر اس اطلاع کو مسترد کر دیا گیا اور اسکے پیامبر کی سرزنش کی گئی۔ ٹونی بلیئر نے اپنے خفیہ ادارے کے سربراہ ڈیرلو کو واشنگٹن بھیجا تاکہ عراق سے متعلق ان رپورٹس کا جائزہ لیں جو امریکی خفیہ اداروں نے جمع کی تھیں۔ واپسی پر وزراءکی ایک کمیٹی کو انہوں نے بیان دیا کہ ”واشنگٹن میں پالیسی طے ہو چکی ہے اورخفیہ رپورٹس اور حقائق کو اس کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔“
اس سے بھی بڑا واقعہ جو 2002ءمیں ہی پیش آگیا تھا‘ وہ ویلری پلیم اور اسکے شوہر سابق سفارتکار جوزف ولسن کا تھا۔ صدر بش نے اپنے جنوری 2003ءکے سٹیٹ آف یونین خطاب میں یہ دعویٰ کیا تھا برطانیہ نے یہ بتایا ہے کہ صدام حسین نے افریقی ممالک سے بڑی مقدار میں یورینیم خریدنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ اس سے ایک سال پہلے جوزف ولسن سی آئی اے کیلئے نائجر کا تحقیقاتی دورہ کرکے آئے تھے تاکہ یورینیم کی بابت اس خبر کا کھوج لگایا جا سکے۔ مارچ 2002ءمیں واپسی پر انہوں نے رپورٹ دی کہ اس خبر میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ صدر بش کی تقریر کے بعد انہوں نے نیویارک ٹائمز میں ایک تفصیلی مضمون میں انہوں نے اس دعوے کی سختی سے تردید کر دی اور یہ بھی کہا کہ عراق کے خلاف جارحیت کے جواز کیلئے جھوٹے دعوے کئے جا رہے ہیں جسکے بعد ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ جوزف ولسن کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کیلئے وائٹ ہاﺅس کے قریبی ذرائع نے اس بات کو افشا کر دیا کہ ولسن کی بیوی سی آئی اے کی ایجنٹ ہے اور اسی نے اس کو نائجر بھجوانے کا انتظام کیا تھا۔ یہ انکشاف کرنا (ایجنٹ ہونے کا) ایک امریکی قانون میں ایک جرم تھا اور بالآخر نائب صدر ڈک چینی کے چیف آف سٹاف نے اس جرم میں جیل کی ہوا کھائی۔
ہمیں حیرت ہے کہ گورڈن براﺅن کو کون سی ایسی امریکی رپورٹ مل گئی ہے جس نے اتنی دیر کے بعد انہیں یہ کہنے پر مجبور کر دیاہے کہ اگر وہ اس کو پہلے جانتے تو تاریخ کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے۔ اس حقیقت کو تو ساری دنیا نے بہت پہلے تسلیم کر لیا تھاکہ بش اور بلیئر کو خوب اچھی طرح معلوم تھا کہ عراق پر لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت نہیں تھی‘ لیکن 9/11 کے بعد عوامی ہمدردی اور غم و غصے کو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کی خواہش عراق جنگ شروع کرنے کا باعث بنی۔ براﺅن کی کوشش یہ ہے کہ لوگوں میںیہ اعتبار پیدا کریں کہ وہ خلوص نیت سے اس ”کارخیر“ میں شریک ہوئے تھے اور اگر کسی موقع پر انہیں یہ علم ہوتا کہ عراقی ہتھیاروں سے متعلق خفیہ معلومات افسانوی نوعیت کی ہیں تو وہ اس جنگ کی مخالفت کرتے۔ ہماری نظر میں یہ ناکام کوشش ہے۔ ہم نے اوپر جن حوالوں کا ذکر کیا ہے‘ یہ گمان کہ وہ گورڈن براﺅن کے علم میں نہ ہوں‘ کم از کم ان تاریخوں کو جن کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے بعید از قیاس ہے۔ لہٰذا آج جو باتیں وہ کر رہے ہیں‘ وہ اس وقت کرلیتے‘ لیکن ایسی صورت میں وہ برطانیہ کے وزیراعظم شاید نہ بن پاتے کیونکہ اس کیلئے انہیں اپنے وزیراعظم ٹونی بلیئر سے بغاوت کرنا پڑتی اور ان کی جانشینی سے محروم ہونا پڑتا۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی اور برطانوی قیادت نے اس جنگ کو شروع کرنے میںان اعلیٰ روایتوں اور اصولوں کو پامال کر دیا جو مغرب نے 500 سالہ خونریزی کی تجربات سے حاصل کئے تھے۔ یعنی منصفانہ جنگ صرف وہ ہے جو جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے لڑی جائے نہ کہ جارحیت کے ارتکاب کیلئے۔ ان دونوںممالک نے اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر جنگ کو شروع کرکے اس عالمی نظام کو تباہی کے قریب پہنچا دیا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024