زمبابوے کی فوج نے ملک کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے تاہم 37 سال سے اقتدار میں موجود صدر رابرٹ موگابے خیریت سے ہیں۔ اس سے پہلے زمبابوے کی فوج نے قومی نشریاتی ادارے زیڈ بی سی پر قبضے کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے مجرموں کو نشانہ بنانے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے جیسے ہی یہ مشن مکمل ہوگا، صورتِ حال معمول پر آجائے گی۔ اطلاعات کے مطابق فوج کی جانب سے ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کا مقصد صدر موگابے کی جگہ ان کے ڈپٹی ایمرسن منگاگوا کو اقتدار کی منتقلی ہو سکتا ہے جنھیں گذشتہ ہفتے برطرف کر دیا گیا تھا۔ فوج کے ایک جنرل نے ٹی وی پر ایک بیان پڑھ کر سنایا جس میں انھوں نے فوجی بغاوت کی تردید کی ہے۔ زمبابوے جنوبی افریقہ میں واقع لینڈ لاک ملک ہے۔ جس کے شمال کی طرف زیمبیا، مشرق میں موزمبیق، مغرب میں بوٹسوانا اور جنوب میں جنوبی افریقہ واقع ہے۔ یہاں کی سرکاری زبان انگریزی ہے ۔زمبابوے کا پرانا نام روڈیشا تھا۔ زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے میں بکتر بند گاڑیوں نے پوزیشن سنبھال لی ہیں۔ دارالحکومت ہرارے کے شمالی علاقوں میں بدھ کی صبح شدید گولہ باری اور توپ داغنے کی آوازایں سنائی دیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ ہم صرف صدر کے آس پاس پھیلے مجرموں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پانچ دن گزرنے کے باوجود تا حال یہ کہنا مشکل ہے کہ زمبابوے کا اس وقت حکومتی کنٹرول کس کے پاس ہے۔ امریکہ نے اب تک فوجی اقدام کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار کی یہ کشمکش کب تک جاری رہے گی۔ زمبابوے کی حکمران جماعت اور فوج کے درمیان حالیہ چند روز کے دوران کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا اور حکمران جماعت نے چند روز قبل ہی فوج کے سربراہ جنرل کونسنٹینو چیوینگا پر "باغی رویے" کا الزام عائد کیا تھا۔ فوج کے سربراہ نے صدر موگابے کی جانب سے اپنے نائب صدر ایمرسن ننگگوا کو برطرف کرنے پر تنقید کرتے ہوئے سیاسی صورتِ حال بہتر نہ ہونے پر فوجی مداخلت کی دھمکی دی تھی۔ 93 سالہ زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے اس قت دنیا کے سب سے معمر ترین حکمران ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان کی روز بروز بگڑتی ہوئی خراب صحت کے باعث ان کے قریبی مشیروں کے مابین ان کی جگہ سنبھالنے کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران صدر کی جانب سے اپنی 52 سالہ اہلیہ گریس موگابے کو اہم عہدے اور ذمہ داریاں دینے کے بعد عام تاثر یہ ہے کہ وہ اقتدار اپنی اہلیہ کو سونپنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اعلیٰ فوجی قیادت بظاہر اس کی مخالف ہے۔صدر موگابے 1980سے زمبابوے پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ابتداءمیں وہ پانچ سال تک وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے اور بعدا زاں انہوں نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ وہ زمبابوے کی قومی سیاسی جماعت Patriotic Front، پیٹراٹک فر نٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ ابتداءمیں وہ کارل مارکس اور لینن کے نظریات کا پرچار کرتے تھے لیکن1990 سے وہ ان نظریات میں ترمیم کر کے نیا سیاسی نظریے "موگابے ازم" کا پرچار کر رہے تھے ۔اس سیاسی فلسفے کے تحت وہ افریقہ میں نسل پرستی کے خاتمے اور افریقہ کو متحد کر کے ایک عظیم قوت بنانا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جارح قوتوں نے اپنے مفاد کے تحت افریقہ کو مختلف اکائیوں میں تقسیم کیا ہے اسے ختم کر کے افریقہ کو ایک اکائی ہونا چاہئیے۔ اس فلسفے کو "پین افریقہ"کا نام بھی دیا گیا۔رابرٹ موگابے کا کہنا ہے کہ میں عصر حاضر کا ہٹلر ہوں۔ زمبابوے کی آزادی، اقتدار اعلیٰ کے حصول اور عوام کو انصاف اور امن دینے کے لیے میں ہٹلر سے دس گنا زیادہ جد وجہد کروں گا۔ رابرٹ موگابے کو لائف ٹائم صدربھی قرار دیا گیا لیکن زمبابوے کی فوج نے منگل کے روز کارروائی کر کے انہیں گھر تک محدود کر دیا ہے اس طرح زمبابوے میں ان کے 37 سالہ بلا شرکت غیرے دور اقتدار کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے۔ زمبابوے کی جنگ آزادی کے لیڈر اور اپنی قوم کے قائداعظم کی حالت اس وقت دنیا بھر میں زیر بحث ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اور ان کے ارد گرد موجود افراد نے کرپشن کر کے بڑی دولت جمع کی ہے۔ زمبابوے میں موگابے حکومت کا مستقبل کیا ہے اس کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں سامنے آ جائے گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024