11 مارچ کو وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے جامعہ نعیمیہ سے خطاب کرتے ہوئے علماء کرام کو تلقین کی کہ وہ فتوئوں کی دنیا سے نکل کر دین اسلام کا اصل بیانیہ پیش کریں تاکہ مذہب کے نام پر نفرت کا پرچار ختم ہو۔ انتہا پسندی اور جہاد میں فرق واضح ہو۔ ان کا کہنا بالکل درست ہے کہ مدارس دین کے عالم پیدا کرنے کی بجائے اپنے اپنے مسلک کے مبلغ پیدا کرتے ہیں اور اکثر اوقات دہشت گرد اپنی دہشت گردی کو جواز بخشنے کے لئے دینی دلائل تراشے جاتے ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ ہندوئوں کے تہوار ہولی کے موقع پر بھی منعقدہ تقریب میں وزیراعظم نے دو ٹوک کہا کہ زبردستی کسی کا مذہب بدلنا جرم ہے اور ریاست کا فرض ہے کہ مندروں، مسجدوں اور گوردواروں میں اپنے اپنے مذہب کے تحت عبادت کرنے والوں کو مکمل تحفظ تھے کسی قدر تعجب اور حیرانگی کی بات ہے وہ نوازشریف جو کبھی امیر المومنین بننے کے لئے پاکستان کے آئین میں ترمیم کے خواہاں تھے آج وہ قائداعظم کے رہنما اصولوں کے مطابق اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے مطابق اصل صورت گری اور بیانیے کے مطابق پیش کرنے کی بات کر رہے ہیں جس میں وہ قائداعظم کے اقلیتوں کے حقوق کے متعلق بڑی واضح لائن اختیار کرتے دکھائی دے رہے جس کے تحت پاکستان کے قیام کے بعد اس کے تمام باشندے عقیدے اور نظرئیے سے قطع نظر مکمل پاکستانی ہیں چاہے وہ عبداللہ ہے فرانس مسیح ہے یا رام لعل۔ جب نواز شریف صاحب اسلام کو دین قرار دیتے ہوئے اس کے اصل بیانیہ کی بات کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مسلمان کی تہذیب و تمدن کو نظم و ضبط میں لانے کیلئے قرآن پاک نے قوانین اور اصول بیان کئے ہیں جو انسان کی ذات کی نشوونما اور اجتماعی زندگی کی صورت گری کے لئے امر ربی ہیں اور ان قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اسلام کہلاتا ہے اور ان قوانین کا اتباع ایک نظام حکومت کے تابع ہی ممکن ہے لہٰذا اسلام کو ہم ایک دین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں دین کا اصل بیانیہ کی بنیاد صرف اور صرف قرآن و سنت نبوی ہے مگر بدقسمتی سے ہم پاکستان میں کتاب و سنت کے مطابق کوئی ایسا ضابطہ قوانین مرتب نہیں کر سکے جو تمام فرقوں کے نزدیک متفق علیہ ہو او جب کوئی فرقہ اپنے عقیدے کو اصل اسلام قرار دے کر دوسرے مسلمانوں کو اس کی اتباع پر زور دیتا ہے اور دوسرے فرقوںکی مذہبی روایات کو بدعت قرار دیتا ہے تو یہاں سے ایک مسلمان کے دل و دماغ میں دوسرے مسلمان کے لئے پہلے نفرت پھر انتہا پسندی اور آخر میں اس کو قتل کرنا اس کے لئے مذہبی جواز بن کر سامنے آ جاتا ہے او جب کسی مخصوص انتہا پسندانہ نظرئیے کو قیادت وسائل اور ملٹری ٹریننگ مکمل کی جاتی ہے تو پھر القاعدہ، داعش، بوکو حرام اور طالبان جیسے فوجی لشکر اور تنظیمیں وجود میں آ جاتی ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں نے گلے کاٹنے کو مذہی فریضہ خیال کرتے ہیں علاوہ ازیں مولانا مودودی کے مطابق ہم نے اسلامی شریعت کو ایک منجمد شاستر بنا کر رکھ دیا ہے اس میں صوبوں سے اجتہاد کا دروازہ بند ہے جس کی وجہ سے اسلام ایک زندہ تحریک کے بجائے محض عہد گزشتہ کی ایک تاریخی تحریک بن کر رہ گیا ہے۔ لہٰذا ہمیں سمجھنا چاہئے کہ دین میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں تقسیم قابل قبول نہیں ہوتی ہے اور ہر مسلمان اسلامی مملکت کے ضابطہ قوانین کا پابند ہوتا ہے اور اپنے ہر کوئی جماعت یا تنظیم نہ تو جہاد کا اعلان کر سکتی ہے اور نہ ہی اپنا نظریہ دوسروں پر مسلط کرنے کی مجاز ہوتی ہے لہٰذا اگر کوئی گروہ یا جماعت کسی اسلامی مملکت میں متوازی حکومت قائم کرتی ہے یا حکومت کے ضابطہ قوانین کو نہیں تسلیم کرتی ہے تو یہ ارتداد کہلاتا ہے اور قرآن کریم میں ایسے فتنے کو سرکشی خیال کیا جاتا ہے جس کی سزا دین میں موت ہے۔
اسلامی دنیا میں دین کا اصل بیانیہ مسخ کرنے میں ملوکیت، مذہبی پیشوائیت اور پیری مریدی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب نبی اکرمؐ نے اسلام اصل صورت میں پیش کیا تو ملوکیت کے ساتھ مذہبی پیشوائیت کا بھی خاتمہ کر دیا مگر جب مسلمانوں میں ملوکیت دوبارہ نمودار ہوئی تو فطری طور پر اس کے ساتھ مذہبی پیشوائیت بھی جلوہ افروز ہو گی علامہ اقبال نے مسلمانوں کو اس مہیب خطرہ سے آگاہ کیا اور عمر بھر سلطانی کے ساتھ ملائی و پیری کے خلاف مصروف جہاد رہے اقبال نے بال جبریل میں ایک باغی مرید کی زبان سے اس حقیقت کو یوں پردہ کشائی کی ہے۔
ہم کو تو میسر نہیںمٹی کا دیا بھی!
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
نذرانہ نہیں! سود ہے پیران حرم کا
ہر فرقہ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
راغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
پاکستان میں دین کا اصل بیانیہ کیوں نہیں صورت گری اختیار کر سکا اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہماری حکمران قیادت کے پاس اس قدر وژن ہی نہ تھی کہ وہ ملک کی حیات اجتماعی کی تشکیل دین اسلام کے اصل خطوط پر کر سکتی علاوہ ازیں ان کے مفاداتبھی انہیں یہ اجازت نہ دیتے تھے کہ اسلام کی انقلابی تعلیمات اجتماعی زندگی میں عملدرآمد کے قابل ہوں دوسرا اکثر حکمران اور ان کے حلقہ دانش و ارباب فوجی فکری اور دستوری تصورات سے تو کچھ کچھ آگاہ تھے مگر وہ اسلام کی دستوری اور اقتصادی و سماجی تعلیمات سے کما حقہ آگاہ نہ تھے نتیجہ یہ نکلا کہ 1956ء کے آئین تک تو مسلم لیگی حکمرانوں اور دینی حلقوں کے درمیان ایک کشمکش جاری رہی بلکہ ایوب خاں نے تو 1962ء کے ذاتی آئین میں ملک کا نام صرف جمہوریہ پاکستان رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ لفظ حذف کر دیا۔ مگر کچھ عرصے بعد انہوں نے مجبوراً کچھ اسلامی شقیں اپنے آئین میں رکھ دیں ہمارے ملک میں مذہبی جماعتوں کا خیال تھا کہ اگر اسلامی دفعات ملکی آئین میں شامل کر دی جائیں گی تو ملک کی حیات اجتماعی کے تمام شعبے اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھلنا شروع ہو جائیں گے۔ مگر عملاً آج تک ایسا نہیں ہو سکا۔ ہمارے آئین میں 62اور 63 کی آئینی شقوں کے مطابق صادق اور امین شخص ہی اسمبلی کاممبر بن سکتا ہے کیا عملاً اس شق کا انتخابی امیدواروں تک اطلاق نہیں ہوا ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں میں اسلام کے ساتھ سب سے بڑا کھلواڑ جنرل ضیاء الحق نے کیا اور وہ اسلام کے نام پر 11 سال تک اقتدار کا واحد جواز ہی پیش کرتے رہے کہ وہ اسلام نافذ کریں گے مگر سوائے بلا سود بنکاری کے نام پر فراڈ اور سعودی اسلامی بنکنگ کے نظام کے انہوں نے کیا کیا اور وہ کبھی بھی انقلابی اسلام کے علمبردار بن کر سامنے نہ آئے اور آج تک دین کے اصل بیانیے کو پیش کرنے کی بجائے پاکستان کی حیات اجتماعی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کیلئے تین راستے تجویز کئے جاتے رہے۔
1 اسلامائزیشن بذریعہ علماء (تھیوکریسی)
2 اسلامائزیشن بذریعہ عدلیہ
3 اسلامائزیشن بذریعہ قانون سازی
پاکستان میں دین اسلام کو نافذ کرنے کیلئے زیادہ تر تیسرا طریقہ کار اختیار کیا گیا لیکن چونکہ پاکستانی معاشرے کی اکثریت اسلام کی انقلابی تعلیمات پر عملدرآمد کرنے پر تیار نہیں لہٰذا ہمارے ہاں قانون سازی کے ذریعے کبھی اسلام نافذ نہ ہو سکا۔ چونکہ ہماری ریاست دین اسلام کو محض ذاتی مذہب کی حیثیت سے آگے کوئی حیثیت دینے پر تیار نہیں جس کی بڑی وجہ ہمارے حکمرانوں کا یہ تضاد ہے کہ ایک طرف وہ دین اسلام کے اصل بیانیے کے متعلق تقریر کرتے ہیں مگر حجاب کے معاملے پر پہلے ایک فیصلہ لیتے ہیں اور پھر وہ واپس لے لیتے ہیں ناموس رسالت پر اگر قابل صد احترام جسٹس شوکت عزیز صدیقی سخت نوٹس نہ لیتے تو شاید سیکولرز کے ڈر سے ہماری حکومت سوشل میڈیا پر گستاخانہ مہم کا ازالہ کرنے میں سنجیدہ نہ ہوتی۔ یہاں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں جہاں بے ایمانی دھوکا کرپشن اور لوٹ مار کو کاروبار کا حصہ سمجھا جاتا ہے وہاں دین اسلام کیسے حیات اجتماعی کی بنیاد بن سکتا ہے جب تک معاشرہ اس کے لئے تیار نہ ہو۔ وہ معاشرہ جو کئی قوموں، قبیلوں، جماعتوں فرقوں اور برادریوں میں تقسیم در تقسیم ہو وہاں کتنے ہی شریعت بل کیوں نہ پاس کروا لئے جائیں کتنی ہی شریعت کورٹس کیوں نہ قائم کر دی جائیں وہ دو دہائیاں گزر گئی ہیں وفاقی شریعت کورٹ سود پر حکم امتناعی نہیں ختم کر سکی تو وہاں ہم کیسے دین اسلام کے اصل بیانیے کو نافذ کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔ آج ہم اسلام کے نام پر محض سیاست کرتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتے ہیں یا سادہ لوح مسلمانوں کے بچوں کو جنت کی لالچ دے کر خودکش بمبار بناتے ہیں… اسلام کا غلط انداز اور غلط مفہوم اور سیاسی مصلحت کشی کے لئے استعال ہی ہماری اصل ٹریجڈی ہے لہٰذا ہمارے لئے دین کا اصل بیانیہ تو یہ ہے کہ ہم اسے ایک روشن خیال نظام زندگی کے طور پر سمجھیں، مذہبی نعرہ بازی ترک کر دیں حکمران اور مذہبی رہنماپاکستان کو ایسی مملکت بنا دیں جو اس ملک میں عوام کو محرومیوں ظلم، استحصال، بیماری، بھوک، بیروزگاری، پسماندگی اور دہشت گردی سے نجات دے سکے یہاں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو اور دین اسلام ایک زندہ حقیقت کے طور پر ایک قوت نافذہ بن جائے۔