کسی زمانے میں لوگ عدلیہ کے بارے میں بات کرنے سے گھبرایا کرتے تھے۔ خاص طور پر اعلیٰ عدلیہ کا تو وُہ احترام، کہ سیانے کہا کرتے تھے کہ اوپر وہ (اللہ) منصف اور نیچے جج منصف۔ انسان خطا کا پْتلا، سواحتیاط کے باوجود غلطی کر بیٹھتا ہے‘ اور جج بھی گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں مگر جس قدر بے دردی سے آجکل جج صاحبان کی "غلطیوں" کی گرفت ہو رہی ہے‘ ماضی میں اُسے ''خطائے بزرگان گرفتن خطا باشد''سمجھ کر صرفِ نظر کر دیا جاتا تھا۔ برطانیہ جمہوریت کی ماں اور وہا ں کی عدلیہ کی بھی شاندار روایات مگر یورپین یونین سے برطانیہ کے خروج کا کیس حکومت جب عدالت عالیہ میں ہار گئی، تو اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ نے فیصلہ دینے والے تینوں ججوں کو عوام دشمن ’’Enemies of the People‘‘ قرار دیا تھا جس پر چیف جسٹس نے گلہ کیا تھا کہ "ہمارے ساتھ اچھاسلوک نہیں کیا جا رہا۔ عدلیہ کی تضحیک قانون کی تضحیک ہے اور وسیع تر معنوں میں یہ پورے سماج کی بھی توہین ہے"۔
پچھلے ہفتے بھارتی سپریم کورٹ میں بغاوت کی کیفیت رہی۔ چار سینئر ترین ججوں نے چیف جسٹس دیپک مسرا کی مبینہ بدعنوانیوں کیخلاف پریس کانفرنس کر ڈالی۔ انکا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے انتظامی معاملات ٹھیک نہیں ہیں جس انداز سے عدالت کو چلایا جا رہا ہے‘ اس سے بھارت کی جمہوریت خطرہ سے دوچار ہوگئی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے حوالے سے یہ سب یکایک نہیں ہوا۔ مسائل کچھ عرصہ سے چل رہے تھے اور چیف جسٹس مسرا پر انگلیاں اٹھائی جارہی تھیں جس پر انہوں نے بدقسمتی سے دھیان نہیں دیا۔ پریس کانفرنس میں الزام لگایا گیا کہ CBI نے ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج کے لائسنس کے حوالے سے ٹوہ شروع کی تو انکشاف ہوا کہ ملزمان یعنی کالج مالکان مقدمہ کی سماعت کرنیوالے جج (چیف جسٹس) کو رشوت دینے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ وکلا کو بھنک پڑی تو عدالتی احتساب کے نام پر سپریم کورٹ کے ایک بنچ میں درخواست گذار دی جس پر چیف جسٹس نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے درخواست ایک اور جونیئر بنچ کو مارک کردی۔
عدلیہ کے حوالے سے اس ابال کے پیچھے ایک اور کہانی بھی گردش میں ہے۔ جوناگپور کے CBI جج لویا کے پراسرار قتل کے بارے میں ہے۔ موصوف کی عدالت میں پولیس مقابلہ کا ایک مقدمہ زیر سماعت تھا۔ استغاثہ کی کہانی یہ تھی کہ ناگپور کا مقامی مسلمان رہنما سہراب الدین مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ جب پولیس نے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی تو مقابلہ پر اترا آیا اور فائرنگ کے تبادلہ میں مارا گیا مگر دوران سماعت جج صاحب معاملہ کی تہہ کو پہنچ گئے کہ یہ تو مقامی بی جے پی رہنما امیت شاہ کی کارستانی ہے جس نے ایک پاپولر مسلم لیڈر کو راہ سے ہٹانے کیلئے پولیس کے ساتھ ساز باز کرکے جعلی مقابلہ میں مروایا دیا ہے۔ اگلے روز فیصلہ سنایا جانا تھا کہ امیت شاہ اور پولیس والوں کو بھنک پڑگئی اور پھر انہونی ہوگئی کہ جج صاحب اُسی شب پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے۔ فیملی نے واویلا کیا کہ موت غیر فطری ہے۔ مجرموں نے گلو خلاصی کیلئے ایک بڑی رقم کی پیشکش کی تھی جسے موصوف نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ ممبئی ہائیکورٹ نے سورگباشی جج کی موت کے حوالے سے پھیلی کہانیوںاور پراسراریت کی حقیقت جاننے کیلئے معاملہ از خود ٹیک اپ کر لیا جس پر چیف جسٹس مسرانے کیس ہائیکورٹ سے منگوا کر سپریم کورٹ کے جونیئر موسٹ جج اَرُون کے حوالے کر دیا۔
باغی ججوں نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جب انہوں نے اس معاملہ پر عزت مآب چیف جسٹس سے احتجاج کیا کہ آٹھ سینئر ججوں کو بائی پاس کرکے اس قدر حساس اور اہم کیس جونیئر ترین جج کے حوالے کیوں کیا؟ کیا یہ سینئر ججوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر عدم اعتماد نہیں اور کیا یہ حرکت بھارتی نظام عدل پر ایک دھبہ نہیں ہوگا؟ ہم کئی مہینوں سے جناب چیف جسٹس سے گزارش کرتے آئے ہیں کہ شفافیت کیلئے ضروری ہے کہ کیسز کی ایلوکیشن کے معاملہ میں احتیاط برتی جائے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے جس سے عدالت عظمیٰ کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔چیف جسٹس کا موقف تھا کہ وہ یہ سب اپنی انتظامی اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے کر رہے ہیں۔ تمام مقدمات ’ایلوکیشن آف کیسز‘ کے اصولوں کے مطابق مختلف بنچوں کو مارک کئے جاتے ہیں۔ مزید فرمایاکہ کانسٹی ٹیوشن بنچ کے فیصلہ کے مطابق "ماسٹر آف دی روسٹر" ہونے کی حیثیت سے چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ وُہ اپنی صوابدید کے مطابق کوئی بھی کیس کسی بھی بنچ کو بھجوا دے جس پر اعتراض آیا کہ نومبر 2017 میں یہ رولنگ دینے والے کانسٹی ٹیوشن بنچ کی سربراہی بھی تو جناب چیف جسٹس فرما رہے تھے جو اپنی رولنگ میں یہاں تک چلے گئے تھے کہ اگر کسی مقدمہ میں چیف جسٹس کا Conflict of interest بھی ہو‘ تو بھی اپنی آئینی حیثیت کی وجہ سے‘ ماتحت ججوں کو مقدمات کی ایلوکیشن صرف اور صرف وہی کر سکتے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ میں برپا بھونچال کی شدت بتدریج کم ہو رہی ہے۔ مودی سرکار نے آگ پر پانی ڈالنے کیلئے فوری اقدامات کئے اور میڈیا نے بھی معاملہ کو زیادہ نہیں اٹھایا بلکہ باغی ججوں کی پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے تو انہیں یاد دلایا کہ جج صاحبان اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں اور عدالتی معاملات کو سرعام ڈسکس نہیں کرتے جس پر ایک معزز جج نے کہا تھا کہ جب پانی سر سے گذر جائے اور باڑ ہی فصل کو کھانے لگے تو ضبط کے بند ٹوٹ جاتے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ میں مبینہ بدعوانیوں کے حالیہ بھونچال پر پاکستان کے چیف جسٹس عزت مآب میاں ثاقب نثار کا کمنٹ نہایت دلچسپ ہے۔ فرمایا ہمسایہ کے حالات دیکھ کر میں تو بہت محتاط ہوگیا ہوں کیونکہ میرے جج بھی مجھے بہت رشوت دیتے ہیں۔ کراچی آئوں تو مزے مزے کے کھانے کھلاتے ہیں اور میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔