وطن عزیز کے علمی حلقوں میں عرصہ دراز سے یہ بحث جاری و ساری ہے کہ آیا قائداعظمؒ نے اپنے بعض ساتھیوں کے بارے میں ”کھوٹے سکے“ کے الفاظ کبھی استعمال کئے تھے یا نہیں۔ ایک معروف دانشور نے اس بات کو ایک تاریخی مغالطہ قرار دیا ہے کیونکہ کھوٹے سکوں کا ذکر نہ ہی قائدؒ کی کسی تقریر میں ملتا ہے اور نہ ہی کسی سوانحی کتاب میں۔ ایک اخبار میں حال ہی میں شائع ہونے والے اخبار میں ایک مضمون میں مضمون نگار نے قائدؒ کے ضمن میں کھوٹے سکوں کے ذکر کو ایک سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں ”کہا جا رہا ہے کہ قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکے بھی ہیں، اس قسم کے بیانات کو قائداعظمؒ سے منسوب کرنے کا مطلب ان کے عظیم رفقاءکی حیثیت کو کم کرنا ہی نہیں ہے بلکہ خود قائداعظمؒ کے شعور و فراست کو نشانہ بنانا ہے یعنی یہ کہ بابائے قوم کو کھرے اور کھوٹے کی خدانخواستہ تمیز نہ تھی“۔
دوسری جانب ایک معروف کالم نگار دانشور متعدد بار اس بات کی طرف توجہ لا چکے ہیں کہ نہ صرف کھوٹے سکے حضرت قائدؒ کی جیب میں موجود تھے بلکہ یہی سکے نسل در نسل گذشتہ 66 برس سے وطن عزیز کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ ایک حالیہ کالم میں لکھتے ہیں۔
”قائداعظمؒ نے سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں کھوٹے سکوں کی نشاندہی کی تھی اور قوم کو بتا دیا تھا کہ وہ کس غربت اور قحط الرجال میں آزادی کا سفر شروع کر رہی ہے“۔ اوپر دئیے گئے اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ کھوٹے سکوں کے وجود یا عدم وجود کی بحث آج بھی ہمارے جذبات کو اسی شدت سے متحرک کرتی ہے جیسے وہ آزادی کے ابتدائی ایام میں کرتی تھی۔ بادی النظر میں یہ بحث اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کوئی ایسی شہادت سامنے نہیں آتی جس سے یہ امر واضح طور پر ثابت ہو جائے کہ قائداعظمؒ نے واقعتاً یہ بات کہی تھی۔ ایسی ایک شہادت حال ہی میں میرے علم میں آئی ہے جسے میں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
مسلم لیگ کی صد سالہ تقریبات 2006ءمیں منائی گئیں۔ اس سلسلے میں ایک کتاب ادارہ ”نشریات“ نے 2006ءمیں اردو بازار لاہور سے شائع کی ہے جس کا عنوان ہے ”میاں عبدالعزیز مالواڈہ“۔ یہ کتاب بیرسٹر میاں عبدالعزیز کے حالات زندگی کے بارے میں ہے۔ میاں عبدالعزیز علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 521 پر اس بات کا ذکر موجود ہے کہ قائداعظم نے میاں عبدالعزیز سے دوران گفتگو ”میری جیب میں جو کھوٹے سکے موجود ہیں میں ان کا کیا کروں“ کے الفاظ استعمال کئے تھے۔
میاں عبدالعزیز 1872ءمیں ضلع ہوشیار پور کے قصبے مالواڈہ میں پیدا ہوئے۔ قانون کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔ ابتداً ہوشیار پور میں پریکٹس کی بعد میں لاہور منتقل ہو گئے جہاں وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ متحدہ پنجاب کی مجلس قانون ساز کے ممبر منتخب ہوئے۔ علامہ اقبالؒ کے ساتھ دوستی کی ابتدا 1902ءمیں ہوئی جو علامہ کی وفات تک قائم رہی۔ تحریک پاکستان میں ان کے مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1936ءمیں مسلم لیگ کے اکابرین کا ایک اہم اجلاس لاہور میں میاں صاحب کے گھر پر منعقد ہوا جس میں قائداعظمؒ، علامہ اقبالؒ، لیاقت علی خانؒ کے علاوہ بعض دیگر اہم رہنما¶ں نے شرکت کی۔ یہاں عبدالعزیز نے 1971ءمیں لاہور میں وفات پائی۔ 25 اپریل 1967ءکو میاں عبدالعزیز سے ان کی قیام گاہ پر اس دور کی چند معروف شخصیات نے ملاقات کی۔ اس ملاقات کو ریکارڈ کیا گیا اور اس کی تفصیلات مذکورہ بالا کتاب کے باب نمبر 37 میں بیان کی گئی ہیں۔ ملاقات میں شامل ہونے والے اصحاب کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:
-1 جناب ممتاز حسن صاحب مینجنگ ڈائریکٹر نیشنل بنک آف پاکستان -2 پروفیسر حمید احمد خاں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور -3 مولوی ظفر اقبال ریٹائرڈ رجسٹرار محکمہ تعلیم پنجاب -4 چودھری محمد شفیع کمبوہ ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ دفتر اکا¶نٹنٹ جنرل پنجاب -5 میاں عبدالمجید، میاں عبدالعزیز کے بڑے صاحبزادے
گفتگو کی ابتدا میاں صاحب کے علامہ اقبالؒ کے تعلقات کے ذکرسے ہوئی۔ دوران گفتگو پروفیسر حمید احمد خاں نے استفسار کیا: ”پاکستان بننے کے بعد جب پہلی دفعہ قائداعظمؒ تشرف لائے تو اس وقت کیا ہوا؟“
اس کے جواب میاں میاں عبدالعزیز نے بیان کیا:
”پارٹی کے آخر میں سب کو ملنے کیلئے ہر ایک کے پاس تشریف لے گئے جب اس جگہ آئے جہاں میں تھا تو وہاں سر مراتب علی، ملک برکت علی اور ایک اور صاحب بھی تھے، ہم بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہیلو عبدالعزیز How are you قائداعظمؒ نے کہا۔ چونکہ مجھے ان کا بڑا ادب اور لحاظ تھا وہاں تو مجھے ان کا اور بھی زیادہ ادب کرنا تھا کیونکہ انہوں نے ہی پاکستان لیکر دیا تھا۔ میں نے کہا ”اب اچھا ہوں لیکن عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا آپ کی زندگی کا بڑا خیال ہے مگر آپ مجھے بہت کمزور نظر آتے ہیں۔ مہربانی کر کے اپنی صحت کا فکر کیا کریں اور جو آدمی اپنی گورنمنٹ میں لیں وہ بڑے بااعتبار، ایماندار اور لائق آدمی ہوں“۔
انہوں نے فرمایا:
I have to do all work, what am I to do with these spurious coions in my pocket
مجھے بڑا افسوس ہوا، میں نے کہا ”اپنی صحت کا خیال رکھیں کیونکہ سب سے مقدم صحت ہے“۔
قائداعظمؒ نے فرمایا ”ٹھیک ہے شکریہ“۔ راقم الحروف کی رائے میں میاں عبدالعزیز جیسے ثقہ گواہ کے بیان کے بعد اس امر میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ”میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں“ کے الفاظ واقعی قائداعظمؒ کی زبان سے ادا ہوئے تھے اور اس بات کا انکار تاریخی حقائق سے روگردانی کے مترادف ہو گا۔ کسی محقق کی ذات میں اس سے زیادہ پسندیدہ بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ تاریخی حقائق کو ذاتی تعصبات کی چھلنی میں سے گزارے اور جو حصہ گزرنے سے رہ جائے اسے تاریخی مغالطے کی ٹوکری کے سپرد کر دیا جائے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024