بادشاہ ایک اہم فوجی مہم پر اپنے لشکر کے ہمراہ بنگال کی جانب جارہا تھا، جب شاہی لشکر وارانسی کے مقام سے گزر نے لگا تو ہندو راجاو¿ں نے درخواست کی کہ اگر بادشاہ ایک رات کیلئے وارانسی میںاپنے لشکر کے ساتھ پڑاو¿ ڈال لے تو ہندو راجاو¿ ں کی رانیاںکاشی وشواناتھ مندر میںاپنی ”مذہبی“ رسومات ادا کرلیں گی۔ بادشاہ نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر فوری طور پر یہ درخواست قبول کرلی اور اپنے لشکر کو حفاظتی انتظامات کیلئے وارانسی کے اطراف میں پانچ میل تک پھیلا دیا۔ رانیاں پالکیوں میں بیٹھ کر گنگا میں اُتریں اوراشنان(غسل) کی رسم اداکرنے کے بعد وشواناتھ مندر میں پوجا پاٹھ کیلئے چلی گئیں۔ شام کو رانیاں واپس لوٹ آئیں لیکن ”کچھ “ کے راجا کی مہارانی واپس لوٹنے والی رانیوں میں شامل نہ تھی، مہا رانی کے لاپتہ ہونے پر ہر طرف شور مچ گیا۔ یہ خبر بادشاہ کے علم میں آئی تو اُس نے لاپتہ رانی کی تلاش کیلئے اپنے کارندے ہی نہیں دوڑائے بلکہ راجاو¿ں کے ہمراہ خود بھی تلاش کیلئے نکل کھڑا ہوا۔ لاپتہ رانی کو بہت تلاش کیا گیا لیکن کچھ پتہ نہ چلا کہ رانی کوزمین نگل گئی یا آسمان کھاگیا۔ مندر میں تلاشی کے دوران ”کچھ“کے راجا نے غصے میں آکر دیوار کے ساتھ لگے دیوتا گنیش کے بت کو جھنجھوڑڈالا۔ جیسے ہی راجا نے بت کو جھنجھوڑاتو دیواراپنی جگہ سے سرک گئی۔دراصل گنیش کا بت ایک متحرک دیوار کے ساتھ منسلک تھا۔ دیوارایک طرف ہٹی تو نیچے تہہ خانے کو جاتی سیڑھیاں نظر آئیں۔ بادشاہ اور راجا نیچے اترے تو ”کچھ“ کی مہارانی ادھ موئی پڑی تھی، مہارانی کے کپڑے تار تار ہوچکے تھے اور نازک اعضا پر وحشی انداز میںبھنبھوڑنے کے زخم تھے، بداخلاقی کی یہ انتہا دیکھ کر بادشاہ غصے سے کھول اُٹھا اور ”کچھ “کا راجا اپنی مہارانی کی یہ حالت دیکھ کر غصے سے پاگل ہی ہوگیا تھا۔تحقیقات پر پتہ چلا کہ اس مذموم حرکت میں وشواناتھ مندر کے تمام پجاری شریک تھے، جو پوجا کیلئے آنیوالی دولت منداور خوبصورت خواتین کی دولت اور عزت لوٹنے جیسے مکروہ دھندے میں ملوث تھے۔ اس واقعے میں براہ راست ”کچھ“ کے راجا کی عزت پر ہاتھ ڈالاگیا تھا، بادشاہ نے پجاریوں کیلئے خود سزا تجویز کرنے کی بجائے مجرموں کو ”کچھ“ کے راجا کے حوالے کردیا۔اس ہولناک واقعے میں مجرموں کو خود سزا دینے کی بجائے انہیں مدعی کے حوالے کرکے انصاف کی نظیر قائم کرنے والا یہ بادشاہ کوئی اور نہیں بلکہ مغلوں کا سب سے ذی حشم بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تھا۔
شہنشاہ محی الدین اورنگزیب عالمگیر پر غیر مسلموں کے حوالے سے سخت گیر ہونے کے بہت سے الزامات لگائے جاتے ہیں، اِنہی الزامات میں سے ایک وشواناتھ مندر کا انہدام بھی شامل ہے، حالانکہ حقائق الزامات سے بالکل برعکس ہیں۔ وشواناتھ مندر کے انہدام کی اصل وجہ ”کچھ“ کی رانی کے واقعے سے پجاریوں کی پکڑی جانے والی مذموم حرکت بنی اور یہ مندر بھی اس مذموم واقعے کے بعد خود ہندو راجاو¿ں نے بہتر تعمیر کی غرض سے منہدم کردیا تھا، جس کی شہادت خود ہندو مورخین کی کتابوں سے ملتی ہے لیکن حقائق کے برعکس سارا الزام اورنگزیب عالمگیر پر لگادیا جاتا ہے کہ اُس نے یہ مندر گراکر اسکی جگہ مسجد تعمیر کرادی تھی۔ یہ پراپیگنڈا اتنے تواتراور تسلسل سے کیا جاتا رہا کہ انتہاپسند ہندواورنگزیب عالمگیر کو اس مندر کے انہدام کا مجرم اور اپنا دشمن سمجھنے لگے۔”کچھ“ کے راجا نے عالمگیر کی ہدایت پر مندر کو ازسر نو تعمیر کرادیا تھا، مغلوں کے زوال کے ساتھ ہی یہ مندر انتہاپسند ہندووں کے ہاتھوںمیں چلا گیا، آج کل وشواناتھ مندر کی سیکیورٹی اس قدر سخت ہے کہ انتہاپسند ہندووں کے سوا کوئی اسکے اندر نہیں جاسکتا، ہندو توا کے پیروکار اس مند رمیں جاتے ہیں اور پوجا پاٹھ کے ساتھ ساتھ ایک عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے ہر سال میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور انکے خاتمے کیلئے کوئی ناں کوئی ایک قدم ضرور اٹھائیں گے، وشوا ناتھ مندر میں ہی انتہاپسند ہندو تنظیم ”وشوا ہندو پریشد“ کی بنیاد رکھی تھی۔©©
بھارتیہ جنتا پارٹی نے عام انتخابات سے پہلے گذشتہ برس ستمبر 2013ءکو گجرات کے وزیراعلیٰ اور مسلمانوں کیخلاف سخت گیر موقف رکھنے والے نریندرا مودی کو پارٹی کی جانب سے وزیراعظم نامزد کیا تو مودی نے انتخابی مہم کے آغاز پر 20دسمبر 2013ءکو اسی کاشی وشوا ناتھ مندر کا دورہ کیا اور کئی گھنٹے پوجا پاٹھ میں گزارے۔ انتہاپسند ہندووں کے عقائد کے مطابق اُس روز مودی نے مسلمانوں کے خلاف کیا عہد کیا تھا؟ اس کا حتمی اور یقینی جواب تو انتہاپسند ہندووں کے اندرونی حلقے ہی دے سکتے ہیں، لیکن یہ طے ہے کہ اس روز کے بعد سے بھارت کی سرزمین پر مسلمانوں کیلئے عرصہ حیات تنگ ہونے لگا ہے۔ ایک جانب اگر بھارت کے اندر غریب مسلمانوں کا مذہب بذور قوت تبدیل کرنے کے واقعات ہورہے ہیں تو دوسری جانب بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ نے پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے پڑوسی ممالک میں مسلمانوں کیخلاف اپنے مذموم منصوبوں پر عمل درآمد شروع کردیاہے۔بنگلہ دیش کی بھارت نواز سرکار نے مشرقی پاکستان میں فوج کا ساتھ دینے والے مسلمانوں کو چن چن کر پھانسی دینی شروع کررکھی ہے تو افغانستان میں بھارتی لابی پاکستان کیخلاف متحرک ہوچکی ہے۔ اِس ناچیز نے انہی کالموں میں واہگہ بارڈر سے لے کر سانحہ پشاور تک سینکڑوں ماو¿ں کی گودیں اجاڑنے کی سازش اور منصوبہ بندی کا بھانڈا پھوڑاتھا۔ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ پاک فوج بالخصوص آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کا ایک بڑا منصوبہ بن چکا ہے۔اس پلان کو ”پلان ڈی“ یعنی ”پلان ڈسٹرکشن“ کا نام دیا گیا ہے۔ سانحہ پشاور سے اس منصوبے کی ابتدا ہوچکی ہے۔ اخبارات میں شائع ہونےوالی انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق سانحہ پشاور کی منصوبہ بندی افغانستان میں ”را“ اور ”خاد“ نے مل کر کی تھی، لیکن یہ منصوبے آشکار ہونے کے بعد منصوبہ ساز پہلے سے زیادہ خطرناک اور وحشی ہوچکے ہیں۔ ”پلان ڈی“کے دوسرے مرحلے کے تحت بھارت یا افغانستان میںکسی انتہائی حساس مقام یا عمارت پر دہشت گردی کا بڑا حملہ کرانے کے بعد الزام پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر لگاکرپراپیگنڈا کیا جائے گا کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی نے ”واہگہ“ اور” سانحہ پشاور“ کا بدلہ لینے کیلئے بھارت میں دہشت گردی کرائی، منصوبے کے تحت اس طرح پاکستان کو عالمی برادری کی جانب سے ملنے والی حمایت اور ہمدردی سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی جائے گی، خدشہ ہے کہ اگلے چند روز میں شدت پسندوں کو ملنے والی پھانسی کی سزاو¿ں کے ساتھ ہی ”پلان ڈی“ کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد شروع ہوسکتا ہے۔
قارئین کرام!! اپنے قیام کے بعد سے پاکستان بہت سے سانحات سے گزر چکاہے لیکن سانحہ پشاور میں معصوم اور ننھے طالب علموں کی شہادت تو سب کو رلاگئی۔ اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ چھ برسوں میں بارہ ہزار چار سو نو بچے شہید ہوچکے ہیں، لیکن اس اکیلے سانحے نے تو کالم نگارکے قلم کے ساتھ ساتھ زبان بھی گنگ کردی ہے۔ایسا ظلم کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوسکتے، بلکہ ایسے درندوں کےساتھ وہی سلوک کیا جانا چاہیے جو اورنگزیب عالمگیر کے جرنیل اور ”کچھ“ کے راجا نے وشواناتھ مندر کے ہوس پرست پجاریوں کے ساتھ کیا تھا۔ راجا نے ہوس پرست پجاریوں کو مندر کے وسط میں موجود کنوئیں میں پھینکواکر اوپر سے کنواں بند کرادیا تھا۔ظلم کے اس کنوئیں کو بند کرنے کے بعدراجا نے مندر کو ہی دوبارہ تعمیر نہیں کرایا بلکہ عالمگیر کو خوش کرنے کے لیے اس مندر سے ذرا فاصلے پر ایک مسجد بھی تعمیر کرائی تھی۔ یہ بھارت میں واحد مسجد ہے جو اپنے سنسکرت (ہندو)نام سے مشہور ہے، اس مسجد کا نام ”گیان واپی مسجد “ہے، گیان واپی یعنی علم کا کنواں!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024